عام انتخابات کے انعقاد میں اگرچہ ابھی تین ماہ کا عرصہ باقی ہے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے ابھی کوئی انتخابی شیڈول بھی جاری نہیں کیا گیا؛ تاہم ملک میں سیاسی سرگرمیوں میں اچانک تیزی آ گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی ہے۔ 21 اکتوبر کو گریٹر اقبال پارک لاہور میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنی پارٹی کے آئندہ لائحہ عمل اور پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس پر عمل کرنے کے لیے میاں نواز شریف نے پارٹی سیکرٹریٹ لاہور میں بیٹھ کر اپنی پارٹی کی سرگرمیوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور اس ضمن میں ان کا پہلا اہم اقدام ایم کیو ایم (پاکستان) کے ساتھ انتخابی اتحاد کا اعلان ہے۔ ایم کیو ایم (پاکستان) صوبہ سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی کی اردو بولنے والی آبادی کی نمائندہ ہونے کی دعوے دار ہے۔ اس لیے پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ جس کی سندھ میں سیاسی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے‘ کا ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد ایک اہم ڈویلپمنٹ ہے اور اسی لیے آج کل میڈیا میں نمایاں طور پر زیر بحث موضوع ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم (پاکستان) کے انتخابی اتحاد کے علاوہ ملک کی سیاست میں دوسرا اہم موضوع پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریاں ہیں جو اب واضح طور پر محاذ آرائی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی ان دو بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے درمیان اختلافات اور مسابقت غیر متوقع یا حیران کُن نہیں ہے کیونکہ دونوں کے اساسی نظریات الگ الگ ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو مرکز سے بائیں طرف یعنی لیفٹ آف دی سینٹر جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مرکز سے دائیں طرف یعنی رائٹ آف دی سینٹر کی پارٹی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ تقسیم اتنی راسخ نہیں اور وقت کے ساتھ دونوں جماعتیں ارتقائی عمل سے گزر کر ان خصوصی صفات کو چھوڑ چکی ہیں جو ان کی اصل پہچان کا سبب تھیں مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی مقتدرہ مخالف پارٹی کی حیثیت سے جانی جاتی تھی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مقتدرہ کی تخلیق سمجھا جاتا تھا‘ لیکن اب یہ فرق ختم ہو چکا ہے‘ تاہم اب بھی یہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ نظریاتی بُعد ہونے کے علاوہ دونوں کی تاریخ اور سیاسی تجربات بھی مختلف ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے بعد جب ایوب خان کی کابینہ سے الگ ہو کر ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا الگ سیاسی راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ابتدا میں وہ اس وقت کی حکمران پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) میں ایک فارورڈ بلاک تشکیل دے کر اس کی قیادت کرنا چاہتے تھے‘ مگر کنونشن مسلم لیگ کو چھوڑ کر کوئی اہم رہنما ان کے ساتھ ملنے کو تیار نہ تھا‘ اس لیے انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے الگ سیاسی پارٹی تشکیل دی۔ جس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی تشکیل عمل میں آئی‘ پاکستان خصوصاً مغربی پاکستان میں ایوب خان آمریت کے 10سال پورے ہونے کے بعد اس کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کے خلاف ایک خود رو عوامی تحریک کے آثار پیدا ہو رہے تھے۔ اس تحریک میں طلبہ پیش پیش تھے‘ مگر کارخانوں کے مزدور‘ پروفیشنل گروپ مثلاً اساتذہ‘ وکلا‘ صحافی‘ نچلے درجے کے سرکاری ملازمین اور چھوٹے دکاندار بھی دھیرے دھیرے اس تحریک میں شامل ہو رہے تھے‘ مگر یہ تحریک قیادت سے خالی تھی۔ متحدہ اپوزیشن (COP) میں شامل سیاسی جماعتیں 1956ء کے آئین کی بحالی سے آگے جانے یا سوچنے کی اہل نہیں تھیں اور نہ ہی وہ ان بین الاقوامی عوامل سے واقف تھیں جو پاکستان میں اس تحریک کی پیدائش کا سبب بن رہے تھے۔ ایسے میں ذوالفقار علی بھٹو سٹیج پر نمودار ہوئے‘ جن کی تقریروں میں نہ صرف بین الاقوامی عوامل کا فہم بلکہ اندرونی حالات کا بھی صحیح تجزیہ جھلکتا تھا۔ اسی لیے پاکستان کی اس پہلی خود رو عوامی جمہوری ملک گیر تحریک کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس کے مقابلے میں‘ جیسا کہ سب کو معلوم ہے‘ میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز جنرل ضیاالحق کے دور میں کیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو نہ صرف نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف بلکہ سیاسی طور پر ایک دوسرے کا حریف بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی مثال 1990ء کی سیاست کے حوالے سے دی جاتی ہے‘ جب1990 ء میں میاں نواز شریف اور 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں ایک دوسرے کی حکومتوں کی قبل از وقت برخاستگی میں اہم کردار ادا کیا تھا‘ لیکن دونوں پارٹیوں کے درمیان مخاصمت کی یہ کیفیت مستقل طور پر قائم نہیں رہی۔ اس کی وجہ میاں نواز شریف‘ جن کو تین بار اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کیا جا چکا ہے‘ کے خیالات میں تبدیلی ہے۔ اسی تبدیلی کے زیر اثر دونوں پارٹیوں نے 2006ء میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرکے قومی سیاست میں مقتدر حلقوں کی مداخلت کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کا عہد کیا تھا‘ لیکن عملی طور پر اس پر عمل درآمد نہ کیا جا سکا۔ 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت اور مسلم لیگ (ن) کی صوبائی (پنجاب) حکومت کے درمیان محاذ آرائی رہی تاہم 2013ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی (سندھ) حکومت کے درمیان تعلقات کسی حد تک محاذ آرائی سے مبرا اور تعاون پر مبنی رہے۔ اس کی مثال ستمبر 2013ء میں سپریم کورٹ کی ہدایت پر کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے پولیس اور رینجرز کے مشترکہ آپریشن کی کمانڈ کو ایم کیو ایم کی مخالفت کے باوجود سندھ حکومت کی کمان میں دینے کا وزیراعظم میاں نواز شریف کا فیصلہ تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت میں ایک ساتھ تقریباً 16ماہ تک رہیں‘ لیکن جونہی نگران حکومتیں قائم ہوئیں دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی میں مصروف ہو گئیں۔ پاکستان میں جمہوری عمل کے تسلسل کی خاطر اور سویلین بالا دستی کی ضرورت کے پیش نظر ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی پاکستان دوست حلقوں میں ان دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت‘ مصالحت اور تعاون کا ہمیشہ خیر مقدم کیا جاتا رہا ہے۔ دونوں پارٹیوں کی قیادت بھی نہ صرف اس سے آگاہ ہے بلکہ اس کی خواہش مند ہے‘ اور دونوں طرف ایسے رہنما موجود ہیں جو دل سے اس کو عملی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ مگر یہ جذبہ اور اس کے تحت فیصلے اعلیٰ قیادت تک ہی محدود رہے ہیں۔ نچلی سطح پر کارکنان تک اس پیغام کو نہیں پہنچایا گیا۔ اسی لیے دونوں پارٹیوں کے درمیان مصالحت اور تعاون عارضی ثابت ہوا ہے۔ اس وقت دونوں پارٹیوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات کا سبب نظریاتی نہیں‘ نہ ہی اس کی وجہ کسی ایشو پر اختلاف ہے‘ بلکہ یہ سیدھی سادی اقتدار کی جنگ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حصول میں ناکامی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا ہدف پنجاب میں میاں نواز شریف مخالف پی ٹی آئی کا وہ ووٹر ہے جس کے بارے میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کا خیال ہے کہ پکڑ دھکڑ کے موجودہ ماحول میں وہ اپنی پارٹی کے امیدوار کے حق میں رائے دینے سے محروم رہے گا اور ایسی صورت میں اس کا ووٹ (ن) لیگ کے حق میں تو نہیں جا سکتا‘ البتہ متبادل کے طور پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کو مل سکتا ہے۔ اسی لیے (ن) لیگ خصوصاً میاں نواز شریف پر تنقید میں پیپلز پارٹی وہی الزامات عائد کر رہی ہے جو پی ٹی آئی کی طرف سے عائد کیے جا رہے ہیں۔