الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رواں ماہ کے آغاز میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان تو کر دیا تھا مگر ابھی تک انتخابی شیڈول جاری نہیں کیاگیا‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں جلسے‘ جلوس یا وہ سرگرمیاں دکھائی نہیں دے رہیں جو پارلیمانی انتخابات کے موقع پر دیکھنے میں آتی ہیں‘ تاہم پاکستان میں تعینات‘ امریکہ اور برطانیہ کے سفارت کاروں کی قومی سیاست دانوں کے ساتھ ملاقاتوں کی وجہ سے ملکی سیاست میں ہلچل اور قیاس آرائیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے لاہور میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ اور ملتان میں ایک اور سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما یوسف رضا گیلانی اور مختلف پارٹیوں کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی پاکستان میں ہائی کمشنر جین میریٹ نے بھی سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے۔ برطانوی ہائی کمشنر اس سے قبل میاں نواز شریف سے بھی مل چکی ہیں۔
ہر ملک میں تعینات بیرونی ممالک کے سفارت کار مقامی سیاسی رہنماؤں‘ صنعت کاروں‘ تاجروں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد متعلقہ ممالک کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی اور بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں بدلتے ہوئے رجحانات سے اپنے ملک کی حکومتوں کو آگاہ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ ان رپورٹس‘ جن میں سفارت کاروں کی سفارشات بھی شامل ہوتی ہیں‘ کی روشنی میں اپنی پالیسیوں میں ضروری تبدیلیاں لا سکیں۔ جن ملکوں کے مفادات کسی ملک یا اس کے ارد گرد موجود خطوں میں زیادہ اہم ہوں‘ ان کے سفارت کار زیادہ سرگرم نظر آتے ہیں۔ پاکستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے چند ممالک مثلاً چین‘ امریکہ‘ روس‘ یورپی یونین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے لیے خصوصی طور پر اہم ہے کیونکہ پاکستان کے ارد گرد کے خطوں وسطی‘ مغربی اور جنوبی ایشیا‘ خلیج فارس اور بحر ہند میں ان ممالک کے اہم سیاسی اور معاشی مفادات موجود ہیں۔ امریکہ نے اگرچہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکال لی ہیں لیکن افغانستان اور اس کے ارد گرد کے خطوں میں اپنے مفادات سے دستبردار نہیں ہوا ہے۔ ان کی حفاظت کے لیے نہ صرف امریکہ کی ڈپلومیسی فعال ہے بلکہ مشرقِ بعید سے لے کر جنوبی بحرِ اوقیانوس تک اس کے بحری بیڑوں اور فوجی اڈوں پر موجود فوجی طاقت بھی ضرورت کے وقت ایکشن میں آنے کو تیار ہے۔ خود دو طرفہ بنیادوں پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان متعدد اہم شعبوں مثلاً تعلیم‘ صحت‘ زراعت‘ تجارت‘ ٹیکنالوجی‘ انسدادِ دہشت گردی‘ واٹر مینجمنٹ‘ توانائی اور دفاع میں قریبی تعلقات ہیں۔
اس وقت پاکستان کی سیاست ایک ایسے دور سے گزر رہی ہے جس پر مستقبل کے بارے میں خدشات کی چھاپ موجود ہے۔ انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے اور ووٹ ڈالنے کی تاریخ کا بھی تعین کیا جا چکا ہے‘ مگر کچھ حلقے اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ عام انتخابات کے بعد بھی ملک امن اور سیاسی استحکام سے ہمکنار ہو سکے گا یا نہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور سیاسی عدم استحکام سے جن خطوں میں امریکی مفادات متاثر ہونے کا خدشہ ہے‘ ان میں افغانستان‘ جنوبی اور وسطی ایشیا شامل ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ یہ ملک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کا دوبارہ مرکز نہ بن جائے۔ امریکہ نے یہ یقین دہانی افغان طالبان کے ساتھ 2020ء میں دوحہ معاہدے کے تحت حاصل کی تھی‘ مگر امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ 2021ء میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد افغان طالبان دوحہ معاہدے کی اس شرط کی پاسداری نہیں کر رہے بلکہ امریکیوں کے انخلا کے بعد افغانستان القاعدہ‘ داعش اور کئی دیگر دہشت گرد تنظیموں کا مرکز بن چکا ہے اور کابل میں طالبان انتظامیہ ان دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ افغانستان کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی رپورٹس اور پاکستان کے الزامات امریکہ کے اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں بلکہ پاکستان‘ طالبان کی حکومت کو‘ کالعدم ٹی ٹی پی کی پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے ناقابلِ تردید ثبوت بھی فراہم کر چکا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی بھی پیدا ہو چکی ہے۔ اس صورت میں امریکہ کے مفادات اور انہیں تحفظ دینے کی حکمت عملی کو سخت دھچکا لگ سکتا ہے۔
امریکہ کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ کہیں پاکستان اور بھارت کا کوئی اندورنی معاملہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا باعث نہ بن جائے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 2021ء میں عسکری حکام کی بات چیت کے نتیجے میں 2003ء کے فائر بندی کے معاہدے پر سختی سے عملدرآمد کرنے کا عہد ہوا تھا مگر حال ہی میں بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب ہوا ہے۔ کچھ عرصہ قبل مختلف کارروائیوں میں آٹھ کشمیری مجاہدین کو مقبوضہ بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کرنا پڑا ہے۔ اگر اس قسم کے واقعات کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو اس سے لائن آف کنٹرول پر کراس فائرنگ میں اضافہ ہوگا۔
جب سے چینی صدر شی جن پنگ نے وسطی ایشیا کی ریاستوں کو نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) بلکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے عالمی منصوبے کا محور قرار دیا ہے‘ مغربی طاقتوں خصوصاً امریکہ کی طرف سے وسطی ایشیا میں چین اور روس کے اثر و نفوذ کو کم کرنے کی کوششوں میں دو گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس مقصد کو امریکہ براہِ راست مداخلت کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی آزادی کے بعد امریکہ نے ایسی کوشش کی تھی جو ناکام رہی۔ اب امریکہ یورپی یونین کے ذریعے اس خطے میں روس اور چین کے مقابلے میں ایک متبادل پلیٹ فارم قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس کے ذریعے وسطی ایشیا کی یہ ریاستیں‘ جو ہر طرف سے خشکی سے گھری ہونے کی وجہ سے تجارت اور تیل کی فروخت کے لیے روس اور چین کی محتاج ہیں‘ کو ایک تیسرا آپشن دیا جائے گا۔
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کا حالیہ دورۂ وسطی ایشیا انہی کوششوں کا ایک سلسلہ ہے‘ تاہم روس کے صدر ولادی میر پوتن نے اسے ناکام بنانے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں سیاسی غیریقینی سے امریکہ کی ان خطوں میں اپنے مفادات کے تحفظ کی حکمت عملی متاثر ہو سکتی ہے‘ خصوصاً پاک بھارت کشیدگی امریکہ کے لیے باعثِ تشویش ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ بحرہند سے بحرالکاہل تک چین کے خلاف دفاعی اقدامات میں بھارت امریکہ کا ایک قریبی اتحادی بن چکا ہے۔ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا بھارت اور امریکہ دونوں کے مفاد میں ہے۔ اس لیے امریکہ کسی صورت پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بڑا تصادم ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ امریکہ اس حوالے سے پہلے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے مگر موجودہ حالات میں جہاں ایک طرف انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر اپنی کارروائیوں کا دائرہ وسیع کر رہے ہیں اور دوسری طرف پاکستان سیاسی تقسیم کا شکار ہے‘ یہ خدشات نمایاں طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں اور غالباً انہی کی وجہ سے پاکستان کیساتھ قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے‘ کے سفارت کار ملک میں بہت فعال ہیں۔