امریکی صدر جو بائیڈن کا یہ بیان کہ غزہ میں بے دریغ بمباری اور وحشیانہ کارروائیوں کی وجہ سے اسرائیل بین الاقوامی برادری میں اپنی ہمدردیاں کھو رہا ہے‘ مگرمچھ کے آنسو بہانے کے مترادف ہے۔ جو بائیڈن کے یہ کہنے سے کہ اسرائیل کی موجودہ کابینہ اسکی تاریخ کی سب سے زیادہ قدامت پسند اور سخت گیر ارکان پر مشتمل ہے اور یہ کہ وزیراعظم نیتن یاہو کو اس کابینہ کو تبدیل کر دینا چاہیے‘ 18 ہزار سے زائد فلسطینیوں کے قتل کی تلافی نہیں ہو سکتی۔ امریکی صدر نے یہ کہہ کر بھی دنیا کو غلط اور گمراہ کن تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہودیوں اور فلسطینیوں کیلئے علیحدہ علیحدہ یعنی دو ریاستوں پر مشتمل فارمولے کے تحت مسئلہ فلسطین اسلئے آج تک حل نہیں ہو سکا کہ نیتن یاہو فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ہیں۔
امریکی صدر کا یہ دعویٰ حقائق کی مکمل نفی ہے۔ 1976ء میں جب مصر‘ اردن‘ شام اور لبنان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین میں مقبوضہ عرب علاقوں یعنی دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے اسرائیل کو عربوں کی طرف سے مستقل بنیادوں پر دوستی‘ تعاون اور باہمی سلامتی کی بنیاد پر ایک قرارداد کی صورت میں پیشکش کی تھی تو امریکہ نے اس قرارداد کو ویٹو کر کے نوم چومسکی کے مطابق مشرق وسطیٰ میں مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کا ایک سنہری موقع ضائع کر دیا تھا۔ اسی طرح 1991ء میں اوسلو معاہدہ کے تحت ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام پر اسرائیل کے رضا مند ہونے کے باوجود نیتن یاہو کی حکومت نے مغربی کنارے پر آباد کار یہودیوں کیلئے نئی بستیوں کی تعمیر کے ذریعے دو ریاستوں کے فارمولے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تو عالمی دبائو‘ فلسطینی احتجاج اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود امریکہ نے اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی‘ بلکہ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے ان اقدامات کی مذمت کیلئے جب بھی کوئی قرارداد لائی گئی امریکہ نے بلا تامل اس کو ویٹو کر دیا۔
مسئلہ فلسطین اور عرب اسرائیل جنگوں کا تاریخی جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اسرائیل کے قیام (1948ء) اور پہلی عرب اسرائیل جنگ (1948 ء تا 1949ء) سے چوتھی جنگ (1973ء تا 1974ء) تک امریکہ کی طرف سے ہتھیاروں کی امداد نے صہیونی ریاست کو عربوں کے ہاتھوں شکست سے بچایا۔ مصر کے صدر انور سادات‘ جنہوں نے اکتوبر 1973ء میں اسرائیل کو سرپرائز حملے میں شکست دے دی تھی اور مصری افواج ایک طرف سینائی میں اسرائیلی فوجوں کو دھکیلتے ہوئے اسرائیل کی سرحدوں پر پہنچ گئی تھیں اور دوسری طرف شام کی فوجیں سطح مرتفع گولان پر دوبارہ قبضہ کر کے اسرائیلی سرحدوں پر دستک دے رہی تھیں‘ نے جنگ کے اختتام پر اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تو اس اقدام پر تنقید کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ میں اسرائیل کے ساتھ تو لڑ سکتا ہوں مگر امریکہ کے ساتھ نہیں۔اس وقت بھی بین الاقوامی حلقے کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی کی چابی امریکہ کے پاس ہے کیونکہ اس کے ہزاروں ٹن ہتھیار اور گولہ بارود اسرائیل کو غزہ میں تباہی مچانے کے قابل بنا رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ برطانیہ نے 1917ء میں بالفور اعلان کے تحت یہودیوں کیلئے فلسطین میں ایک 'نیشنل ہوم‘ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور 1918ء میں اس پر قبضے اور لیگ آف نیشنز کے تولیتی نظام (1922ء تا 1947ء)کے دوران فلسطین کے دروازے یہودی آباد کاروں پر کھول دیئے تھے‘ مگر برطانیہ اور فرانس کی طرح دیگر کئی یورپی ریاستیں فلسطین میں ایک ایسی یہودی ریاست کے قیام کے حق میں نہیں تھیں جس کے قیام کے نتیجے میں فلسطینی عربوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ اور فرانس‘ جو اپنے زمانے کی سب سے بڑی نوآبادیاتی طاقتیں تھیں‘ کے اہم دفاعی‘ معاشی اور تجارتی مفاد اس خطے سے وابستہ تھے۔ خصوصاً مشرق وسطیٰ کی تیل کی صنعت میں ان ممالک نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ عربوں کی ناراضی مول لے کر وہ اپنے ان مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتے‘ لیکن دوسری جنگ عظیم (1939ء تا 1945ء) کے بعد امریکہ ایک پیسیفک پاور سے ایک گلوبل پاور میں تبدیل ہو چکا تھا اور اس نے مشرق وسطیٰ میں بھی تیل کی صنعت میں اہم مفادات حاصل کر لیے تھے۔ امریکہ کو معلوم تھا کہ برطانیہ اور فرانس دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے اتنی کمزور طاقتیں ہو چکی ہیں کہ وہ اب مشرق وسطیٰ جو نہ صرف اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے بلکہ تیل کی وجہ سے بھی مغربی دنیا کے دفاع اور معیشت کیلئے اہمیت اختیار کر چکا تھا‘ کے دفاع کی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتیں۔ اسلئے امریکہ نے جنگ ختم ہونے سے پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں ایسے اقدامات کا آغاز کر دیا تھا جن کا مقصد اس خطے میں برطانیہ اور فرانس کی جگہ لینا تھا۔ اس میں فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کر کے یہودی ریاست کا قیام بھی شامل تھا۔ اس کیلئے امریکہ نے بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیم فلسطین کے حق میں کس طرح دو تہائی اکثریت سے ایک قرارداد منظور کروائی وہ سب جانتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ برطانیہ‘ جس نے اگرچہ خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں پیش کیا تھا‘ فلسطین کی تقسیم کے حق میں نہیں تھا اور فرانس بھی جنرل اسمبلی میں اس کیلئے پیش کردہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے پر رضامند نہیں تھا کیونکہ دونوں ممالک برسوں سے قائم عرب ممالک کے ساتھ تعلقات خراب کر کے اپنے مفادات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے‘ مگر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ نہ صرف جنگی بلکہ معاشی لحاظ سے بھی سب سے طاقتور ملک کی حیثیت سے ابھرا تھا۔ اس لحاظ سے عالمی سطح پر اس کا اثر و رسوخ بھی زیادہ تھا۔ یورپ‘ جس کیلئے مشرق وسطیٰ ہزاروں سال سے ایشیا میں داخل ہونے کیلئے ایک دروازے کا کام کر رہا تھا‘ خطے کیساتھ اپنے تاریخی‘ ثقافتی اور معاشی مفادات کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا‘ لیکن فلسطین میں ایک یہودی ریاست کے قیام پر امریکی دبائو کی مزاحمت کرنے کی اس میں سکت نہ تھی کیونکہ جنگ میں یورپ کی مکمل طور پر تباہ حال معیشت کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں صرف امریکہ ہی امداد مہیا کر سکتا تھا۔یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ امریکہ آخر کیوں اسرائیل کی امداد میں آخری حد تک جانے کیلئے تیار رہتا ہے؟ یہاں تک کہ اسے بچانے کیلئے وہ 1973ء میں ایٹمی جنگ کیلئے بھی تیار ہو گیا تھا۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے مشرق وسطیٰ پر امریکی بالادستی کو برقرار رکھنے اور اسکے خلاف ہر چیلنج کو شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں 1967 ء کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس جنگ میں اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو چیلنج کرنے والی ایک قوت ‘عرب قوم پرستی کو شکست دی تھی۔ اب بھی خلیج فارس سے لے کر بحیرۂ روم تک مشرقِ وسطیٰ کے وسیع خطے میں امریکہ کے خلاف ایک نئے چیلنج یعنی چین کا مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیل امریکہ کیلئے واحد ڈھال کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالیہ برسوں میں چین نے مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک ‘سعودی عرب اور ایران کیساتھ معیشت‘ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں قریبی تعلقات قائم کر کے خطے میں قدم جمانے میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ امریکہ کہہ چکا ہے کہ مشرق وسطیٰ بلکہ وسطی‘ مغربی اور جنوبی ایشیا میں امریکہ کیلئے سب سے بڑا چیلنج روس نہیں بلکہ چین ہے۔ اسکا مقابلہ کرنے کیلئے اس نے انڈو پیسیفک خطے کا تصور پیش کر کے مشرقِ بعید سے لے کر بحر ہند کے مغربی کنارے اور بحیرۂ احمر تک ایک دفاعی لائن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسکے مغربی کنارے کے دفاع کی ذمہ داری اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔ اسلئے وہ امریکہ کی طرف سے بھاری اور غیر مشروط فوجی امداد حاصل کرتا ہے۔