جنوبی ایشیا میں اس وقت موجود پارٹی سسٹم کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ سیاسی طور پر شدید اختلافات اور مخالفت کے باوجود نظریاتی بنیادوں پر تقسیم کی لکیریں مدھم پڑتی جا رہی ہیں۔ بنگلہ دیش کو لے لیجئے۔ حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور بیگم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (BNP) ایک دوسرے کی سخت مخالف ہیں مگر ان کی ساخت‘ پروگرام اور طریقہ کار کو دیکھ لیں تو مماثلت زیادہ اور فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی نہ کسی حوالے سے دونوں کا الگ تشخص اور پہچان موجود ہے۔ مثلاً بی این پی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش میں بھارت مخالف لابی کی نمائندہ جماعت ہے اور جب بی این پی اقتدار میں آتی ہے تو ڈھاکہ اور نئی دہلی کے تعلقات کشیدہ ہو جاتے ہیں جبکہ عوامی لیگ کو بھارت نواز پارٹی سمجھا جاتا ہے اور اس کے دور میں بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ملکِ عزیز میں مسلم لیگ (ن) کے بارے میں یہ تاثر موجود ہے کہ یہ پارٹی اپنی قریب ترین حریف جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے مقابلے میں ترقیاتی کاموں پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ آٹھ فروری 2024ء کو منعقد ہونے والے قومی انتخابات کیلئے مسلم لیگ (ن) نے جو منشور پیش کیا ہے اس میں بھی اس تاثر کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے منشور میں معیشت کی بحالی اور قومی پیداوار میں اضافے کو اولین ترجیح دی ہے مگر موخر الذکر نے فزیکل‘ سوشل اور اکنامک انفراسٹرکچر میں پہلے سے جاری منصوبوں کو جلد مکمل کرنے اور نئے منصوبے لانچ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت سپیشل اکنامک زون کے علاوہ ریل‘ روڈ اور بڑے شہروں میں رپیڈ ماس ٹرانزٹ سسٹم کے نئے منصوبے شروع کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اس احساس کے تحت کہ معیشت کی بحالی اور پیداوار میں اضافے کے بغیر نہ تو مہنگائی کم ہو سکتی ہے اور نہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے اور نہ برآمدات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے‘ (ن) لیگ کے منشور میں بھی معیشت کو مضبوط کرنے پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے اور ٹارگٹ متعین کرتے وقت حقیقت پسندی سے کام لیا گیا ہے۔
ملکی معیشت کی زبوں حالی عیاں ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024ء میں ملکی معیشت کی شرحِ نمو میں دو فیصد سے زیادہ اضافے کی امید نہیں‘ اس لیے کسی پارٹی کے لیے اسے پانچ یا چھ فیصد تک لے جانے کا ٹارگٹ مقرر کرنا حقیقت پسندانہ نہیں‘ لیکن (ن) لیگ کا منشور تیار کرنے والوں نے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے اور اگلے پانچ برسوں میں مرحلہ وار قومی آمدنی کی شرح میں اضافے کا وعدہ کیا ہے۔ (ن) لیگ نے اپنے منشور میں ٹارگٹ مقرر کرتے وقت صرف الیکشن 2024ء کو ہی مدنظر نہیں رکھا بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کی ہے اور اگر منشور میں مقرر کردہ اہداف میں سے ایک چوتھائی کو بھی حاصل کر لیا گیا تو اس سے آئندہ برسوں میں ملک کی معاشی پالیسی اور قومی ترقی کی سمت طے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ (ن)لیگ کا منشور سابقہ ادوارِ حکومت میں حاصل کردہ تجربات کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے‘ اس لیے اس سے مستقبل میں بھی قومی تعمیر و ترقی کو درست سمت میں رکھنے کیلئے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے‘ تاہم اس منشور میں چند ایک بلکہ وہی خامیاں اور نقائص موجود ہیں جو دیگر پارٹیوں بشمول پیپلز پارٹی کے منشور میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی وعدے اور دعوے تو بہت کیے گئے ہیں مگر ان کو پورا کرنے کا کیا طریقہ کار ہوگا یا ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ کیسے اور کہاں سے دستیاب ہوں گے؟ ان سوالات کا جواب منشور میں موجود نہیں۔ فروری 2024ء کے انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی طرف سے پیش کردہ منشوروں کے ایک طائرانہ جائزے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ گزشتہ چند برسوں سے ملک کی سیاست پر ایک غالب بیانیے 'پولیٹکل پاپولزم‘ کے زیر اثر تحریر کیے گئے ہیں۔ عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ہیں‘ اس لیے ہر پارٹی مہنگائی کی سطح کو نیچے لانے کے لیے بلند بانگ دعوے کر رہی ہے مگر ایسا کرتے وقت تمام سیاسی پارٹیاں یہ بھول جاتی ہیں کہ مہنگائی صرف ایک قومی مسئلہ نہیں بلکہ اس میں بین الاقوامی عوامل بھی شامل ہیں۔ ماضی میں بھی سیاسی پارٹیوں نے مہنگائی کو کم کرنے کے دعوے کیے لیکن انہیں پورا کرنے میں ناکام رہیں لیکن چونکہ یہ نعرہ لوگوں کو فوری طور پر اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اس لیے ہر پارٹی اپنے منشور میں اسے اولین ترجیح دیتی ہے۔ ہماری آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ چونکہ نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ہاتھوں میں ڈگریاں ہونے کے باوجود بیروزگار ہے‘ اس لیے ہر پارٹی نے اپنی سیاست کا مرکز نوجوانوں کو بنا لیا ہے۔ اس کی ضرورت بھی ہے کیونکہ ہماری نوجوان نسل کا بیشتر حصہ ان سہولتوں سے محروم ہے جو اسے معاشرے کا ایک صحت مند‘ تعمیری اور مثبت حصہ بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔ غالباً انہی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے نوجوانوں کے امور کی دیکھ بھال کے لیے مرکز میں ایک علیحدہ وزارت قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ملک میں کھیلوں کو فروغ دینے کیلئے 250سٹیڈیم تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے جو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہوں گے۔ سابقہ حکمران پارٹی پی ٹی آئی کی طرح مسلم لیگ (ن) نے بھی آئندہ پانچ برسوں میں ایک کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اس کیلئے صنعتی اور زرعی شعبوں میں پیداوار بڑھانے کیلئے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ منشور میں جو مزید وعدے کیے گئے ہیں ان میں سے ایک نیب کا خاتمہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ عدلیہ میں ایسی اصلاحات کا وعدہ کیا گیا ہے جن کے تحت ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان بھی کو عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف‘ جن کی نگرانی میں یہ منشور تحریر کیا گیا ہے‘ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نہ صرف جرأت مندانہ فیصلے کرتے ہیں بلکہ ایسے فیصلے کرنے میں دیر بھی نہیں لگاتے۔ اس ضمن میں انہوں نے 2013ء کے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ اگر انہیں کامیابی ملی تو وہ پاکستان کے مشرقی ہمسائے بھارت اور مغربی ہمسائے افغانستان کے ساتھ تعلقات کو نارمل سطح پر لائیں گے کیونکہ سرحدوں پر امن کے بغیر ملک کے اندر امن قائم نہیں ہو سکتا اور اندرونی امن کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا‘ اس لیے اگر پاکستان نے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں تو اسے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ پُرامن‘ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ جس وقت سابق وزیراعظم نے یہ بیان دیا تھا اس وقت بھارت نے نہ تو کشمیر میں 5اگست 2019ء جیسا یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کیا تھا اور نہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں وطن واپسی پر لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے ایک دفعہ پھر اپنا یہ مؤقف دہراتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پُرامن اور کشیدگی سے پاک تعلقات کی حمایت کی تھی۔ مگر منشور میں خارجہ تعلقات پر آئندہ پانچ برسوں کے دوران اختیار کی جانے والی جس پالیسی کا ذکر کیا گیا ہے اس میں بھارت کے ساتھ نارمل تعلقات کو 5اگست 2019ء کے اقدام کی واپسی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ تاہم وسطی ایشیائی اور سارک ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے لیکن علاقائی تجارت میں بھارت اور افغانستان کے ساتھ پُرامن اور باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کے بغیر کیسے اضافہ کیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح قانون کی حکمرانی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا منشور میں عمومی ذکر کیا گیا ہے مگر سویلین بالادستی کا ذکر گول کر دیا گیا ہے۔