ایران کے عوام کیلئے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی ہیلی کاپٹر کے حادثے میں شہادت ایک عظیم صدمہ ہے۔ دیگر سات افراد کے ساتھ ایران کے ان دونوں اعلیٰ ترین رہنمائوں کی شہادت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے علاوہ عالمی سطح پر بھی ایران تیزی سے تبدیل ہونے والی جیو پولیٹکل صورتحال میں ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اور ایران کے دیگر دوست ممالک‘ جو ایران کے عوام اور حکومت کو درپیش اس نازک گھڑی میں ان کے ساتھ غم میں برابر کے شریک ہیں‘ کو یقین ہے کہ ایران مرحوم صدر رئیسی کی قیادت میں جاری علاقائی امن اور استحکام کے فروغ کیلئے ہمسایہ اور دوست ممالک کے ساتھ باہمی مفاد پر مبنی تعاون کی پالیسی کو جاری رکھے گا۔ یاد رہے کہ ایران ایک عرصے سے امریکہ کی طرف سے عائد کردہ یکطرفہ اور بے بنیاد اقتصادی پابندیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے تیل اور گیس کی قدرتی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود ایرانی معیشت سخت مشکلات کا شکار ہے۔ ایران نے علاقائی اور عالمی امور میں آزادانہ اور پُرامن پالیسی اختیار کیے رکھی ہے۔ اسکی نمایاں مثالیں روس اور چین کے ساتھ مختلف شعبوں میں بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں۔ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں گزشتہ چار دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران میں پانچ بڑی جنگیں ہو چکی ہیں؛ ایران عراق جنگ (1980ء تا 1988ء) افغانستان میں روسی تسلط کیخلاف جنگ (1980ء تا 1988ء) عراق پر امریکہ کی مسلط کی گئی خلیجی جنگیں (1991ء اور 2004ء) افغانستان کی امریکہ کیخلاف جنگ (2001ء تا 2021ء) اور اب چھٹی جنگ غزہ پر اسرائیل کا حملہ ہے‘ لیکن اشتعال انگیزی اور جارحانہ کارروائیوں کے باوجود ایران نے نہ صرف اپنی آزادی خود مختاری اور علاقائی سلامتی کا کامیاب دفاع کیا بلکہ خود کو اندرونی خلفشار اور عدم استحکام سے بھی محفوظ رکھا ہے۔ اس لیے پاکستانی حکومت اور عوام کی طرح ایران کے دیگر دوست ممالک کو بھی یقین ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی ایران اس صدمے کو برداشت کر کے نہ صرف اندرونی امن اور استحکام کو بحال رکھنے میں کامیاب رہے گا بلکہ علاقائی امور میں بھی مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔
انقلاب (فروری 1979ء) کی کامیابی کے بعد ستمبر 1980ء میں ایران کی نئی حکومت کو عراق کی طرف سے اچانک اور یکطرفہ حملے کا سامنا کرنا پڑا۔ عراق کے صدر صدام حسین کو یقین تھا کہ ایران کے اندرونی حالات اور نئی حکومت کی کمزوریوں کی وجہ سے وہ بہت جلد ایران کو زیر کر کے اپنے مقاصد حاصل کر لیں گے مگر ایران کے عوام نے نئی حکومت کی قیادت میں عراقی حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور یہ جنگ تقریباً آٹھ سال تک جاری رہی۔ بالآخر عراق کو اپنی جارحیت روکنا پڑی اور شط العرب میں ایرانی علاقوں کو خالی کرنا پڑا۔ ایران پر عراقی حملے کے چند ماہ بعد سوویت یونین کی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں اور امریکی اشیرباد کیساتھ افغانستان میں ایک طویل مزاحمتی جنگ کا آغاز ہو گیا۔ افغانستان کیساتھ مشترکہ سرحد ہونے کی وجہ سے ایران کا بھی اس بحران سے متاثر ہونا ناگزیر تھا‘ اس کا ثبوت ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد اور ایک لمبے عرصے تک قیام کی صورت میں موجود ہے مگر پاکستان کے برعکس ایران نے افغانستان میں روسی مداخلت اور مجاہدین کی مزاحمتی جنگ کو اپنی سیاست اور معاشرت پر منفی اثرات مرتب کرنے کی اجازت نہیں دی۔
بیسویں صدی کے آخری برسوں میں سویت یونین کے حصے بخرے ہونے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد موجودہ صدی کے آغاز پر ہی نائن الیون کے واقعات نے عالمی سیاست اور طاقت کے توازن کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ دنیا کا کوئی خطہ یا ملک بھی ان تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ افغانستان میں امریکی مداخلت اور خلیج فارس کی پہلی (1991ء) اور دوسری (2004ء) جنگوں بلکہ شمالی افریقہ کے عرب ممالک تیونس‘ لیبیا اور مصر میں عرب سپرنگ کے نام سے سیاسی تبدیلیوں کی لہر اور اس کے بعد عراق اور شام میں داعش کا ظہور بھی تبدیلیوں کے اس سلسلے کیساتھ جڑا ہوا ہے‘ جن کے نتیجے میں امریکہ واحد سپر پاور بن کر ابھرا اور اس نے علاقائی اور عالمی معاملات میں من مانی اور یکطرفہ کارروائیاں کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ عراق پر امریکہ کا حملہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ امریکہ کی ان کارروائیوں کا اصل ہدف ایران تھا کیونکہ سوویت یونین کے بعد مشرقِ وسطیٰ اور خلیج فارس میں امریکی اور مغربی مفادات کو‘ امریکہ کی نظر میں‘ سب سے زیادہ خطرہ ایران سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 2004ء میں عراق کے بعد امریکہ ایران پر بھی حملہ کرنا چاہتا تھا اور اس کیلئے وہ مختلف بہانوں کی تلاش میں تھا مگر انتہائی اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود ایران نے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی مہم جوئی یا جارحانہ اقدام سے گریز کیا۔
اہم جغرافیائی محل وقوع اور عظیم الشان تہذیبی اور ثقافتی ورثے کے ساتھ تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہونے کی وجہ سے ایران شمالی افریقہ سے لے کر وسطی ایشیا اور جنوب میں بحرِ ہند تک پھیلے ہوئے وسیع خطے کی جیو پالیٹکس میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس وقت ایران اقوام متحدہ‘ او آئی سی‘ ای سی او‘ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کا رکن اور سار ک کا آبزرور ممبر ہے۔ امریکہ کی سخت معاندانہ پالیسی اور اسرائیلی جارحیت کے باوجود ایران نے علاقائی اور عالمی سطح پر یہ مقام ایک پُرامن‘ اعتدال پسند اور مثبت خارجہ پالیسی پر تسلسل کے ساتھ عمل پیرا ہو کر حاصل کیا ہے۔ صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کی وفات کے بعد اکثر حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ایران کی خارجہ پالیسی‘ خصوصاً اہم امور مثلاً ایٹمی پروگرام‘ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت‘ یوکرین ایشو پر روس کی حمایت‘ چین کے ساتھ بڑھتے معاشی اور دفاعی تعلقات اور سب سے بڑھ کر خلیج فارس کے خطے میں ہمسایہ عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات کا مستقبل کیا ہو گا۔ یہ سوال اس لیے اٹھایا جا رہا ہے کہ مرحوم صدر رئیسی اپنے پیشرو صدر حسن روحانی کے مقابلے میں امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں زیادہ سخت گیر مؤقف کے حامی تھے لیکن ایران کے خارجہ تعلقات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ صدر رئیسی کا دور پہلے ادوار کے تسلسل پر مبنی رہا۔ آج تک ایران کے کسی صدر نے اپنے پیشرو کی پالیسی سے ہٹ کر یا نمایاں طور پر مختلف خارجہ پالیسی اختیار نہیں کی بلکہ ہر صدر نے اپنے پیشرو کے قائم کردہ فریم ورک اور رہنما اصولوں سے استفادہ کیا۔ مثلاً صدر رئیسی کے دور میں ایرانی خارجہ پالیسی کی ایک اہم کامیابی چین کے ساتھ طویل المیعاد بنیادوں پر سٹرٹیجی پارٹنرشپ کا قیام ہے‘ اس اہم پارٹنرشپ کی بنیاد صدر حسن روحانی کے دور میں رکھی گئی تھی۔ مسئلہ فلسطین پر فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کا فیصلہ ایران کی انقلابی حکومت کے قیام کے وقت کیا گیا تھا۔ سوویت یونین کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات کی حمایت انقلابِ ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی نے کی تھی۔ امریکہ نے ایران کے عرب ریاستوں خصوصاً سعودی عرب سے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی بہت کوشش کی اور اس مقصد کیلئے 1981ء میں خلیج تعاون کونسل کے قیام کا بھی اعلان کیا‘ جس سے ایران کو باہر رکھا گیا مگر ایران ان کارروائیوں کی وجہ سے مشتعل نہیں ہوا‘ بلکہ اس نے عرب ممالک کیساتھ پُرامن اور دوستانہ تعلقات کے فروغ کی کوششیں جاری رکھیں جو بالآخر مارچ 2023ء میں چین کی مدد سے ایران‘ سعودیہ مصالحت پر منتج ہوئیں۔ اب فریقین میں تجارت اور دفاعی شعبے میں تعاون کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف ایران کے خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے خطوں میں بلکہ عالمی سطح پر بھی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے اس لیے اغلب امکان یہی ہے کہ نئے ایرانی صدر انہی پالیسیوں کو جاری رکھیں گے۔