اس میں کوئی شک نہیں کہ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم ہندوؤں اور اُن کی نمائندہ سیاسی جماعت کانگرس کی مرضی کے خلاف ہوئی تھی مگر مسلم لیگ اور کانگرس کی اُس وقت کی قیادت نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آنے والے ممالک‘ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ساتھ اچھے اور پُرامن ہمسایوں کے بجائے مستقل دشمنی‘ کشیدگی‘ جھڑپوں‘ تصادم اور جنگ کے ماحول میں رہیں گے۔ اس کی تائید میں بانی ٔپاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے اُس بیان کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات کی طرح ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تقسیمِ ہند دراصل ایک سیاسی تقسیم تھی‘ معاشی نہیں۔ آزادی کے بعد کچھ عرصہ تک دونوں ملکوں کی کرنسی ایک تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے بہت سی اشیا جن میں کپڑا‘ پھل‘ سبزیاں‘ نمک اور کوئلہ وغیرہ شامل ہیں‘ درآمد و برآمد کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ بھارت نے پاکستان کو مشرقی حصے (بنگال) میں پیدا ہونے والی پٹ سن کو کلکتہ کی بندرگاہ سے بغیر کسی برآمدی ڈیوٹی کے برآمد کرنے کی اجازت دے رکھی تھی‘ اس کے جواب میں پاکستان نے بھارت کو کراچی کی بندرگاہ سے پٹرول اور مٹی کا تیل بغیر کسی درآمدی ڈیوٹی کے درآمد کرنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ اس طرح دونوں ملکوں کے مابین ایک سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت ''کسٹمز یونین‘‘ قائم تھی مگر 1948ء کی کشمیر جنگ کی وجہ سے تجارت اور معاشی میدان میں تعاون کا یہ سلسلہ منقطع ہو گیا‘البتہ عوامی سطح پر روابط‘ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے اور ادبی‘ فلمی اور سپورٹس کے شعبوں میں اشتراک کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھنے والے لیاقت نہرو پیکٹ (1950ء) پر اسی دور میں دستخط ہوئے تھے۔ اس معاہدے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں اقلیتوں کے جانی و مالی اور مذہبی مقامات کے تحفظ کی ذمہ دار ی قبول کر رکھی ہے۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ ''Indus Water Treaty‘‘ بھی ابتدائی دور (1960ء) میں طے پا گیا تھا۔
1965ء کی جنگ نے پاک بھارت دوستی اور تعاون پر مبنی ماحول کو یکسر ختم کر کے اسے ازلی دشمنی میں بدل دیا۔ ایک طبقے کا روزِ اول سے یہ یقین تھا کہ بھارت نے دل سے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور اسے جب بھی موقع ملا وہ اکھنڈ بھارت قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ ستمبر 1965ء میں سرحد پار کر کے پاکستان کے علاقوں پر بھارت کے حملے نے اس خوف کو یقین میں بدل دیا کیونکہ پاکستانی عوام اور اُس وقت کی ایوب خان حکومت کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کشمیر میں سیز فائر لائن عبور کرنے کے جواب میں بھارت انٹرنیشنل بارڈر کراس کر کے پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ 1965ء کی جنگ کے سبب پاکستان اور بھارت کے مابین بہت سے شعبوں میں تعاون کا جو سلسلہ تھا وہ مستقل طور پر منقطع ہو گیا اور اس کی جگہ دونوں ملکوں کے عوام میں ایک دوسرے کے حوالے سے ایک ازلی دشمن ملک کا تشخص راسخ ہوگیا۔ 1971ء کی جنگ اور اسکے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے اس تشخص کو اور بھی پختہ کر دیا۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے مابین امن اور اعتماد سازی کے اقدامات کے باوجود یہ امیج نہیں مٹ سکا۔ آج نہ صرف کشمیر اور پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اس بات پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی اور تین بڑی اور ایک چھوٹی جنگ (کارگل) کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہی ہے اور اس کے مستقل اور منصفانہ حل کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہ پاک بھارت امن کے بغیر جنوبی ایشیا کا امن بھی مستقل طور پر خطرے سے دوچار رہے گا بلکہ اس مسئلے کی موجودگی میں دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی جنگ پوری دنیا کو متاثر کر سکتی ہے۔ مئی 1998ء میں بھارت اور پاکستان کے ایٹمی دھماکوں اور پھر خطے میں چین کے بڑھتے اثر ورسوخ کی بنا پر جنوبی ایشیا اور اسکے اردگرد سمندروں میں امریکہ اور یورپی ممالک نے اپنی عسکری اور معاشی موجودگی میں اضافہ کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ خطہ اب دنیا کی تمام طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس بنا پر پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ کا خطرہ خصوصاً جب دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں‘ عالمی برادری کیلئے سخت تشویش کا باعث ہے۔
22اپریل سے اب تک جنوبی ایشیا کے ساتھ اہم مفادات وابستہ رکھنے والے ملکوں مثلاً چین‘ روس‘ سعودی عرب‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات اور امریکہ نے جو ردعمل ظاہر کیا ہے اس میں کسی کی طرفداری یا ہلہ شیری نہیں ہے حالانکہ یہ خطہ امریکہ اور چین کے مابین محاذ آرائی کا مرکز بن چکا ہے اور بھارت اور پاکستان بالترتیب امریکہ اور چین کے انتہائی قریبی اور اہم سٹرٹیجک پارٹنر بن چکے ہیں مگر یہ کولڈ وار کا زمانہ نہیں اور مفادات کی نوعیت سٹرٹیجک نہیں بلکہ معاشی ہے‘ جس کیلئے امن اولین شرط ہے۔ اس لیے امن کا قیام اور جنگ سے گریز صرف پاکستان اور بھارت کیلئے ہی اہم نہیں بلکہ جنوبی ایشیا اور بحر ِہند کے خطے میں مفادات رکھنے والی طاقتوں‘ جیسے امریکہ‘ چین اور یورپی ممالک کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے ان کی تمام کوششیں اور توجہ اس مقصد کے حصول پر مرکوز رہیں گی۔ اس میں پاکستان اور بھارت‘ دونوں کے لیے ایک اہم سبق ہے۔ بھارت کیلئے اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ 1948ء سے اب تک اس نے پاکستان کو باہر رکھ کر یکطرفہ طور پر کشمیریوں کی مرضی کے خلاف مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور اب تک اس میں مسلسل ناکام رہا۔ اس لیے اسے ایک ایسے مسئلے کے بارے میں‘ جسے پوری دنیا ایک حقیقت تسلیم کرتی ہے‘ اپنی روش بدلنا ہوگی۔ پاکستان کو بھی ماضی سے یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو محض طاقت کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ افغانستان میں طاقت کے زور پر اپنی مرضی کی حکومت کے قیام میں ناکامی کے بعد یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ کوئی گروہ‘ جماعت یا ملک طاقت کا استعمال کر کے کشمیر پہ اپنی مرضی کا حل نہیں تھوپ سکتا۔
سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد امن وسلامتی کے بارے میں دنیا کی سوچ اور رویہ بدل چکا ہے۔ اب ٹیکنالوجی کے استعمال سے قدرتی وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر دنیا سے غربت‘ پسماندگی اور بیماریوں کو دور کرنے اور خوشحالی کو پروان چڑھانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ پاکستان اور بھارت جن میں کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کی تقریباً ایک چوتھائی تعداد آباد ہے‘ غربت و پسماندگی میں سب سے آگے ہیں اور صحت‘ تعلیم اور ٹیکنالوجی میں سب سے پیچھے ہیں۔ ان کو امن کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر معیشت کا پہیہ نہیں چل سکتا۔ پاکستان کے اس مؤقف سے کہ خطے میں آئے دن جنگ اور تصادم کی کیفیت پیدا کرنے والے بنیادی اسباب کی نشاندہی کر کے انہیں دور کیے بغیر مستقل امن قائم نہیں ہو سکتا‘ بین الاقوامی برادری متفق ہو چکی ہے‘ مگر اس کیلئے جو راستہ ہے یعنی پُرامن اور براہِ راست مذاکرات‘ اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ایک دیرینہ اور انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اور دونوں ملکوں میں بداعتمادی کی ایک گہری اور وسیع خلیج حائل ہو جانے کی وجہ سے اس کا حل مشکل بھی ہو چکا ہے۔ اس کے باوجود اس کا حل ناممکن نہیں کیونکہ یہ ایک زندہ مسئلہ ہے۔ بھارت نے اپنی پارلیمنٹ سے دو دفعہ کشمیر کو بھارت کا ''اٹوٹ انگ‘‘ قرار دینے کی قرارداد پاس کی مگر اس کے باوجود 2003ء میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو ایک انٹرویو میں اس مسئلے کے وجود کو نہ صرف تسلیم کرنا پڑا بلکہ اقرار کرنا پڑا کہ اس پر ابھی تک ''جم کر بات نہیں ہوئی‘‘۔ اگر پاکستان اور بھارت اس پر ''جم کر‘‘ بات کرنے پر تیار ہو جائیں تو اسے حل کرنا ناممکن نہیں۔