"DRA" (space) message & send to 7575

جنگ بندی ہو گئی‘ امن کب قائم ہو گا؟

تقریباً دو ہفتوں کی سخت کشیدگی کے بعد‘ جس میں بھارت کی طرف سے چار روز (7سے 10مئی) تک پاکستان پر ڈرونز اور میزائل حملے کیے گئے جبکہ پاکستان کی طرف سے 10مئی کو جوابی کارروائیاں کی گئیں‘ پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی ہو گئی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جنوبی ایشیا کے ان دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان اس تازہ ترین جھڑپ کے خاتمے پر سرحد کے دونوں طرف عوام نے خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا ہے‘ لیکن ساتھ ہی انکی طرف سے امید اور خوف کے ملے جلے جذبات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ امید کا پہلو یہ ہے کہ 22اپریل کو مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد جنوبی ایشیا میں ایک خطرناک جنگ کے جو بادل چھائے ہوئے تھے‘ وہ وقتی طور پر چھٹ گئے ہیں۔ دونوں ملکوں میں زندگی معمول پر واپس آ رہی ہے۔ لائن آف کنٹرول کے آر پار رہنے والے لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر کے باسیوں کو امید ہے کہ جنگ بندی کے بعد ملکی اور غیر ملکی سیاح لوٹ آئیں گے۔ کشمیر کی معیشت کا تقریباً تمام انحصار سیاحت پر ہے اور سیاحت کا سیزن شروع ہونیوالا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران لائن آف کنٹرول پر امن کی وجہ سے آزاد جموں و کشمیر میں بھی سیاحت کے شعبے کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ خصوصاً وادیٔ نیلم کے سیاحتی مقامات سے لطف اندوز ہونیوالے ملکی اور غیرملکی سیاحوں کی آمد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رواں برس وادیٔ نیلم میں تقریباً تین لاکھ سیاحوں کی آمد متوقع ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے باعث سیاحوں کی آمد کا سلسلہ رک گیا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں گیٹ ہاؤس اور ہوٹل خالی پڑے تھے۔ جنگ بندی کے بعد مقامی لوگ امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ سیاحوں کی آمد پہلے کی طرح شروع ہو جائے گی اور اس طرح انہیں سال بھر کی کمائی کے حصول کا موقع میسر آ جائے گا۔ مگر اس کیساتھ عوام خاص طور پر لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف کے شہریوں میں ڈر اور خوف بھی پایا جاتا ہے کہ کیا یہ جنگ بندی دیرپا ہو گی یا نہیں؟ اس خدشے کا اظہار بین الاقوامی سطح پر بھی کیا جا رہا ہے اور اس کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ دونوں ملک ایک دوسرے سے الگ اور مختلف انداز میں اس جنگ بندی کی تعبیر پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان اپنا مؤقف واضح کر چکا ہے کہ جنگ بندی کی خواہش کی ابتدا اس کی طرف سے نہیں بلکہ بھارت کی طرف سے ہوئی ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے جنگ بندی کی خواہش کا اظہار کیا اور اس کیلئے پاکستان سے رابطہ قائم کرنے کی درخواست کی۔ اسکے برعکس بھارتی سیکرٹری خارجہ وکرم مسری نے جنگ بندی پر پاکستان اور بھارت کی رضا مندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان مفاہمت کی بنیاد طے پائی ہے۔ بھارتی بیان میں امریکی صدر ٹرمپ کے کردار کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ پاکستان اور بھارت کی جانب سے جنگ بندی پر اتفاق کے اعلان سے پہلے صدر ٹرمپ سوشل میڈیا پر اس کا انکشاف کر چکے تھے۔ صدر ٹرمپ نے اس کا کریڈٹ نائب صدر جے ڈی وینس اور سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو کو دیا ہے جنہوں نے امریکی میڈیا کے مطابق جمعہ یعنی نو مئی کو کچھ خفیہ معلومات کی بنا پر فوری طور پر مداخلت کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ اس سے قبل امریکی نائب صدر ایک بیان میں کہہ چکے تھے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان اور بھارت لڑائی بند کریں اور باہمی بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کریں لیکن اگر وہ اس پر تیار نہیں تو امریکہ ان کو رضامند کرنے کیلئے کوئی اقدام نہیں کرے گا بلکہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان اور بھارت کی موجودہ لڑائی سے امریکہ کا کوئی سروکار نہیں۔ لیکن امریکی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بھارت کے میزائل حملوں کے جواب میں پاکستان نے جو بھرپور جوابی کارروائی کی اور بھارت کے 26 کے قریب عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا‘ اس سے بھارت بوکھلا گیا تھا۔ اگر اس موقع پر مداخلت کرکے جنگ کو نہ روکا جاتا تو حالات قابو سے باہر ہو سکتے تھے۔ اس سلسلے میں سیکرٹری آف سٹیٹ مارکو روبیو نے بہت اہم کردار ادا کیا‘ انہوں نے نہ صرف بھارتی اور پاکستانی حکام سے رابطہ قائم کیا بلکہ جنگ بندی کیلئے سعودی عرب‘ قطر‘ یو اے ای سے بھی رابطہ کیا۔ بین الاقوامی میڈیا ک مطابق 30 کے قریب ممالک‘ جن میں امریکہ اور عرب ممالک کے علاوہ چین‘ برطانیہ‘ بنگلہ دیش بھی شامل تھے‘ کی اجتماعی کوششوں سے جنوبی ایشیا میں ایک ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹل سکا ہے۔ مگر بھارت ان بین الاقوامی کوششوں کو جان بوجھ کر ڈاؤن پلے کر رہا ہے کیونکہ پاکستان کے ساتھ مسائل خصوصاً مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے اس کی پالیسی کسی تیسرے ملک کی مخالفت پر مبنی ہے۔
جنگ بندی کے مستقبل کے بارے میں تشویش کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارت نے اس جنگ بندی کے بعد کسی غیرجانبدار مقام پر پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے بات چیت کا امکان مسترد کر دیا ہے بلکہ ان کی طرف سے جو بیانات جاری کیے جا رہے ہیں ان کے مطابق ''آپریشن سندور‘‘ ابھی جاری ہے اور پہلگام میں 26 افراد کے قاتلوں کو ہر قیمت پر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان نے جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس کیلئے صدر ٹرمپ کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ پاکستان جنگ بندی پر پورا پورا عمل کرے گا بلکہ لائن آف کنٹرول پر‘ جہاں کہیں اس کی خلاف ورزی کی جا رہی تھی وزیراعظم شہباز شریف نے مقامی کمانڈرز کو جنگ بندی پر پوری طرح عمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ البتہ22اپریل سے اب تک بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جو اقدامات کیے جا چکے ہیں‘ ان کی روشنی میں محض جنگ بندی کافی نہیں بلکہ بھارت سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جیسے اقدامات کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ یہ اقدام پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے براہِ راست خطرہ ہے اور جب تک اسے واپس نہیں لیا جاتا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی جاری رہے گی اور تصادم کا امکان موجود رہے گا۔ اس کے ساتھ بھارت نے پاکستان کے ساتھ مواصلاتی روابط ختم کرنے اور اپنی فضا سے پاکستانی ایئر لائنز کے طیاروں کی پرواز پر جو پابندی لگائی ہے‘ وہ ختم ہونی چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان دیگر مسائل خصوصاً کشمیر پر نتیجہ خیز مذاکرات کیلئے مناسب ماحول پیدا ہو سکے۔ پہلگام واقعہ کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان جھڑپوں میں مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت ابھر کر سامنے آئی ہے اور اب یہ بات بین الاقوامی سطح پر بھی کھل کر کی جا رہی ہے کہ جب تک ان دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوتا جنوبی ایشیا کا امن خطرے میں رہے گا۔ اس لیے وقتی جنگ بندی کو اگر خطے میں ایک مستقل امن میں ڈھالنا ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسائل‘ جن میں سرفہرست کشمیر ہے‘ کو حل کرنا ہوگا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ اس وقت اس کے فوری حل کا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان اور بھارت کی موجودہ قیادت اس کے حل کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تب بھی اس پر مذاکرات کیلئے وقت درکار ہے کیونکہ بھارتی میڈیا نے اپنے عوام کے جذبات کو اس حد تک بھڑکا دیا ہے کہ بھارتی حکومت کو یہ قدم اٹھانے کیلئے ہیجانی کیفیت کے دور ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔ اس لیے دونوں ملکوں کے درمیان بہترین تعلقات کے قیام کیلئے سب سے پہلے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اگلے اقدام کے طور پر ان روابط کی بحالی عمل میں آنی چاہیے جو گزشتہ تقریباً چھ سال سے معطل چلے آ رہے ہیں‘ تب جا کر موجودہ جنگ بندی سے ایک مستقل اور پائیدار امن کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اس کیلئے دونوں ملکوں کو اپنے طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ امریکہ یا بین الاقوامی برادری کا اس میں کردار بہت محدود ہوگا کیونکہ اس کا انحصار فریقین کی رضامندی پر ہے‘ جو اس وقت معدوم نظر آتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں