"DRA" (space) message & send to 7575

جنوبی ایشیا‘پاک بھارت جنگ سے پہلے اور بعد

پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ کا دورانیہ چار دنوں (7تا 10مئی) پر محیط تھا اور اس لڑائی میں بات دونوں ملکوں کی ہوائی فوجوں میں مقابلے اور ایک دوسرے پر میزائل اور ڈرون حملوں سے آگے نہیں بڑھی‘ نہ ہی بری افواج کو زمینی حملوں کیلئے موبلائز کیا گیا‘ نہ ایک دوسرے پر ٹینک چڑھ دوڑے اور نہ ہی بحری افواج کے مابین مقابلہ ہوا مگر اس کے باوجود اس مختصر مگر شدید معرکے نے نہ صرف جنگ کے شعبے میں ابھرتے ہوئے جدید ترین رحجانات سے پردہ اٹھایا بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر ایک عرصہ سے جاری جیو پولیٹیکل تبدیلیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ ذیل میں پانچ ایسی بڑی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جا رہا جن کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ کے بعد کھل کر سامنے آئی ہیں:
1۔ آئندہ جنگوں میں ایئر فورسز نہ صرف لیڈ بلکہ سب سے اہم کردار ادا کریں گی۔ جس فریق کے پاس جتنی طاقتور اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ایئر فورس ہوگی اس کی کامیابی اتنی ہی یقینی ہوگی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ماضی کی جنگوں میں ایئر فورس نے ہر اول دستے کا کام نہیں کیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ جسے 'چھ روزہ جنگ‘ بھی کہا جاتا ہے‘ کو اس ضمن میں ایک بڑی بلکہ پہلی مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ مئی 1967ء میں مصر اور شام نے ٹینکوں‘ توپوں اور دیگر بھاری اسلحے سے لیس اپنی فوجیں اسرائیل کی سرحدوں پر جمع کر دی تھیں مگر اسرائیل کی ایئر فورس نے چھ جون کی سہ پہر کو مصر اور شام کے ہوائی اڈوں پر کھڑے تقریباً تمام لڑاکا اور بمبار جہازوں کو تباہ کر کے‘ ان ممالک کی فوجوں کے حرکت میں آنے سے پہلے ہی جنگ کا خاتمہ کر دیا کیونکہ ان ملکوں کی فوجوں کو ایئر کور (Air Cover) مہیا کرنے والی فضائی قوت ختم ہو چکی تھی۔ تقریباً چھ دہائیوں کے بعد مئی 2025ء میں پاکستان اور بھارت کی جنگ نے ثابت کر دیا کہ ایئر فورس کا کردار محض زمینی افواج کو کورفراہم کرنے تک محدود نہیں رہا بلکہ اب عسکری برتری کا بہت حد تک انحصار فضائی قوت پر ہو گا۔ -2 اس جنگ میں چین علاقائی اور عالمی سطح پر ایک اہم فریق کی حیثیت سے مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔ معاشی شعبے میں چین پہلے ہی امریکہ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی قوت کا مقام حاصل کر چکا ہے مگر حالیہ پاک بھارت جنگ سے چین کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی برتری ثابت ہوئی ہے۔ حربی ماہرین کی تقریباً متفقہ رائے ہے کہ پاکستان کی فضائیہ بھارتی فضائیہ کے فرانسیسی ساختہ جدید ترین رافیل طیارے اس لیے مار گرانے میں کامیاب ہوئی کیونکہ اول الذکر کے پاس چینی ساختہ J10-C زیادہ طاقتور ریڈار سے مسلح تھا اور اس کی مدد سے پاکستانی جنگی جہاز دور سے رافیل کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ بھارت کے ایک معروف صحافی اور دفاعی تجزیہ کار پراوین سواہنی کے مطابق مغرب خصوصی طور پر امریکہ کو اس وقت چین کی طرف سے سب سے اہم چیلنج ٹیکنالوجی خصوصاً آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) کے شعبے میں ہے اور چار روزہ پاک بھارت جنگ میں چینی لڑاکا طیاروں کی کارکردگی نے اس کو سچ ثابت کر دکھایا ہے۔ ا س شعبے میں اگرچہ اب بھی امریکہ کو سبقت حاصل ہے مگر خود امریکی ماہرین کے مطابق چین نہ صرف اس خلا کو جلد پورا کر لے گا بلکہ امریکہ سے آگے نکل سکتا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ فکر ہے کہ چین اپنی دفاعی صلاحیت کو بڑھانے کیلئے ہتھیاروں میں سائبر ٹیکنالوجی اور آرٹی فیشل انٹیلی جنس استعمال کر رہا ہے‘ جس سے آئندہ جنگوں کا تصور اور شکل مکمل طور پر بدل جائے گی کیونکہ یہ ایک الیکٹرانک وار فیئر ہوگی جس میں چین تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ 3۔ یہ جنگ پاک چین دوستی کیلئے ایک ٹیسٹ ثابت ہوئی اور اس ٹیسٹ میں اسے شاندار نمبروں سے کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بھارتی ماہرین اب یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ آئندہ بھارت کو ایک نہیں بلکہ دو محاذوں پر جنگ لڑنا پڑے گی۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں چین نے ہمیشہ برملا کہا کہ پاکستان کے ساتھ اس کا باہمی تعاون پر مبنی سٹرٹیجک پارٹنر شپ کا رشتہ ہے اور یہ کہ چین پاکستان کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کیلئے ہر ممکن مدد کرے گا۔ موجودہ جنگ میں بھارت نے پہل کر کے پاکستان کی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت پر وار کیا اس لیے چین نے پاکستان کی مدد کی۔ بھارت کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ چین اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے سے ٹاپ آف دی لائن طیاروں‘ ایئر ٹو ایئر میزائل اور ڈرونز سے پاکستان کی مدد کرے گا۔ بھارتی ماہرین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں اس جنگ میں اپنا ہاتھ دکھائے بغیر چین نے پاکستان کی بھرپور مدد کی اور آئندہ بھی چین ایسا ہی کرے گا۔
4۔ جیو پولیٹیکل حرکیات کے لحاظ سے جنوبی ایشیا اپنے مشرق‘ مغرب اور شمال میں واقع بالترتیب جنوب مشرقی ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا سے ایک لحاظ سے نمایاں طور پر مختلف ہے کہ اس میں ایک ملک یعنی بھارت باقی تمام ہمسایہ ممالک سے آبادی‘ رقبے‘ وسائل‘ معاشی اور عسکری قوت میں کئی گنا بڑا ہے۔ اس جغرافیائی حقیقت نے بھارت کے حکمرانوں کے ذہن میں یہ سوچ راسخ کر دی ہے کہ اس کے ارد گرد واقع ممالک کو اپنی خارجہ اور سکیورٹی پالیسیوں میں بھارت کی پیروی کرنی چاہیے۔ حالانکہ یہ سب آزاد اور خود مختار ملک ہیں مگر بھارت ان کے ساتھ برابری کی سطح پر معاملات کرنے کو تیار نہیں۔ خطے میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے شروع سے بھارت کی علاقائی بالادستی کو رد کرتے ہوئے آزاد خارجہ پالیسی اپنائی۔ امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدوں میں شمولیت اور چین کے ساتھ گہرے دوستانہ اور قریبی تعاون پر مبنی تعلقات اس کی مثال ہیں۔ اب مئی 2025ء میں پاکستان پر بھارت کے حملے کا مؤثر جواب دے کر تمام دنیا خصوصاً جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک کو یہ باور کروا دیا ہے کہ پاکستان اپنی آزادی‘ خود مختاری اور علاقائی سالمیت پر بھارت کے حملے کو ناکام بنا سکتا ہے۔ اس سے خطے کے دیگر ممالک جو پہلے ہی علاقے میں بھارت کی بالادستی کی کوششوں سے تنگ ہیں‘ میں مزید حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا ہوگی اور وہ اپنے آپ کو بھارت کے دبائو سے آزاد محسوس کریں گے۔ چار دن کے اس معرکے نے جنوبی ایشیا میں بھارت کے ایک بالادست طاقت بننے کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ نیپال‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا کے بھی چین کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون پر مبنی قریبی تعلقات قائم ہیں اور اب ان ممالک کے ساتھ چین کے دوطرفہ تعلقات اور تعاون میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ 5۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ محدود جنگ ایسے وقت میں شروع ہوئی جب امریکہ بھارت کو علاقے میں چین کے خلاف اپنا ایک قریبی حلیف سمجھتا ہے مگر جنگ کے دوران امریکہ کے رویے میں تبدیلی دیکھی گئی۔ پاکستان اور بھارت کو ایک سطح پر لا کر نہ صرف جنگ بند کرائی گئی بلکہ بنیادی ایشو‘ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے بھی امریکہ نے اپنی خدمات پیش کرنے کی آفر کی۔ بھارتی حکام اور تجزیہ کاروں کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر سخت مایوسی ہوئی ہے جن میں انہوں نے پاکستان اوربھارت کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہوئے دونوں میں مصالحت کی پیشکش کی۔ اس سے مستقبل میں امریکہ اور بھارت کے تعلقات کی نوعیت اور سمت کے بارے میں نئے سوالات پیدا ہوئے ہیں اور جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ چار ملکی اتحاد 'کواڈ‘ کا مستقبل بھی مخدوش ہو گیا ہے۔
اس چار روزہ جنگ نے مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی اہمیت کو پہلے سے کہیں زیادہ اجاگر کیا ہے۔ پہلے بھارت پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات عائد کر کے دنیا کی نظروں سے مسئلہ کشمیر کی اصل اہمیت اوجھل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تھا مگراس معرکے کے بعد دنیا اس بات پر اب کہیں زیادہ قائل ہو چکی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کی اصل وجہ کشمیر کا مسئلہ ہے اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا‘ نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں