پارلیمانی جمہوریت میں ضمنی انتخابات کا کوئی شور نہیں ہوتا۔ نہ صرف ووٹ ڈالنے والوں کی دلچسپی کم ہوتی ہے بلکہ میڈیا کی توجہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے لیکن گزشتہ دنوں ضلع سیالکوٹ سے پی پی 52 کا معاملہ قدرے مختلف تھا۔ اس حلقے میں امیدواروں کے حق میں ڈالے جانے والے ووٹوں کا تناسب نہ صرف فروری 2024ء والے عام انتخابات کے تقریباً قریب تھا بلکہ اس کے نتائج نے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں‘ جو وفاق میں ایک دوسری کی اتحادی بھی ہیں‘ کے مابین سیاسی چپقلش کو ایک دفعہ پھر تازہ کر دیا ہے۔ سرکاری نتائج کے مطابق اس نشست کو پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کی امیدوار حنا ارشد وڑائچ نے 78202 ووٹ لے کر جیتا ہے۔ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ فخر نشاط گھمن نے 39018 ووٹ لیے۔ پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر رہی جس کے امیدوار راحیل کامران چیمہ صرف 6832 ووٹ لے سکے۔ یکم جون کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والی امیدوار کے والد ارشد جاوید چار دفعہ اس حلقے سے ایم پی اے منتخب ہو چکے ہیں۔ اگرچہ ضمنی انتخاب میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا مگر غیر جانبدار مبصرین‘ جن میں انتخابی عمل کا جائزہ لینے والی ایک غیر سرکاری تنظیم بھی شامل ہے‘ کے مطابق ضابطے اور طریق کار سے انحراف کے اکا دُکا واقعات کے علاوہ وسیع پیمانے پر دھاندلی یا ایسے اقدامات اور مداخلت جو نتائج پر اثر انداز ہو سکے‘ کا ارتکاب نہیں کیا گیا۔ حلقے میں ووٹ ڈالنے کے عمل کے آغاز سے قبل پی ٹی آئی نے اعتراف کیا تھا کہ ماضی کے برعکس اس دفعہ انتظامیہ ان کی انتخابی مہم میں رکاوٹ نہیں ڈال رہی‘ مگر اس کے باوجود پارٹی کی قیادت نے (ن) لیگ کی امیدوار کی کامیابی کو پنجاب حکومت کی مداخلت کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی اپنے امیدوار کی ناکامی کو (ن) لیگ کی صوبائی حکومت کی طرف سے مداخلت کا نتیجہ قرار دیا ہے حالانکہ 2024ء کے عام انتخابات میں پی پی پی کے امیدوار کو اس حلقے میں یکم جون کے ضمنی انتخاب سے تقریباً دو ہزار ووٹ کم ملے تھے۔ تاہم پارٹی نے دھاندلی کا الزام عائد کر کے الیکشن کمیشن سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے بلکہ یکم جون کو صدر آصف زرداری اور وزیراعظم کی ملاقات کے بعد جو سرکاری بیان جاری کیا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدرِ مملکت نے یہ مسئلہ وزیراعظم کے سامنے اٹھایا ہے۔
پنجاب کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کا گڑھ ہوا کرتا تھا مگر 1977ء کے بعد یہاں پی پی پی کی حکومت نہیں بن سکی اور اس کا ووٹ بینک مسلسل سکڑتا چلا آ رہا ہے‘ یہاں تک 2018ء کے انتخابات میں پنجاب سے پارٹی کو امیدوار حاصل کرنے میں بھی دقت کا سامنا تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت مسلم لیگ (ن) کو اس کا ذمہ دار گردانتی ہے بلکہ اس کے ایک سینئر رہنما نے تو پی پی 52 کے ضمنی انتخاب میں حلقے کے لوگوں کی جانب سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ نہ ڈالنے کی وجہ (ن) لیگ کی موجودہ حکومت کی حمایت قرار دیا ہے۔ کیا پنجاب میں پیپلز پارٹی کے زوال کا سبب (ن) لیگ ہے یا اس میں پیپلز پارٹی کی اپنی غلطیوں کا بھی عمل دخل ہے؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو پنجاب اور سندھ کو سیاسی قوت کا سر چشمہ اور لاہور کو پاکستانی سیاست دل کا دل کہا کرتے تھے۔ اس لیے وہ سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب پر خاص توجہ اور لاہوریوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ مگر ان کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے حصولِ اقتدار کیلئے جو بیانیہ اپنایا اس میں پنجاب کے بدلے ہوئے حالات کے پیش نظر کوئی نیا پروگرام شامل نہیں تھا۔ ضیا الحق کے 11 سالہ دور میں پنجاب میں میاں نواز شریف کی حکومت کے تحت ترقیاتی کام پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے پنجاب کے عوام کی سیاسی ترجیحات میں تبدیلی آ چکی تھی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان تبدیلیوں کی روشنی میں اپنے سیاسی بیانیے کو ایڈجسٹ کرنے کی طرف توجہ نہ دی بلکہ صرف ''جئے بھٹو‘‘ کے نعرے پر اکتفا کرتے ہوئے یقین کر لیا کہ 1970ء کے انتخابات کی مانند کوئی پارٹی یا فرد اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا‘ لیکن اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ نواز شریف صوبے کے عوام کی بھاری اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ پیپلز پارٹی ان انتخا بات میں آئی جے آئی کی کامیابی کو ''اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی مدد کا نتیجہ قرار دیتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی جے آئی کی تشکیل سے 1988ء کے انتخابات تک ''اسٹیبلشمنٹ‘‘ نے پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی اور انتخابی عمل میں کھل کر مداخلت کی مگر 1988ء کے انتخابات میں آئی جے آئی کے بعد پیپلز پارٹی کو پنجاب اسمبلی میں دوسرے نمبر پر لا کر اس بات کا ثبوت دیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پیپلز پارٹی کا پنجاب میں ایک مخصوص ووٹ بینک محفوظ تھا جو بعد ازاں ہر انتخاب میں اس لیے سکڑتا گیا کیونکہ جن دانشوروں اور عام لوگوں کی پارٹی سے وابستگی تھی‘ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ان سے انحراف کیا۔ ان میں دسمبر 1988ء میں بلوچستان اسمبلی کی تحلیل اور گورنر راج کے نفاذ پر پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کی معنی خیز خاموشی‘ 1993ء میں پارلیمانی بالادستی کے مسئلے پر صدر غلام اسحاق خاں اور وزیراعظم نواز شریف کے مابین لڑائی میں اول الذکر کی حمایت کرنا‘ 2007ء میں چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کرنے کے باوجود یکطرفہ طور پر صدر مشرف سے ہاتھ ملانا‘ پنجاب میں گورنر راج لگانا‘ جنرل باجوہ کے عہدہِ ملازمت میں توسیع کی حمایت کرنا اور ملٹری کورٹس کے قیام کیلئے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے علاوہ 2022ء میں اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں شرکت کرنا شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاست میں عوامی اعتماد کی بہت اہمیت ہے۔ کسی لیڈر پر عوام کا اعتماد جلدی قائم نہیں ہوتا۔ اسے ایک عرصے تک انڈر واچ رکھ کر اپنے اعتماد کے قابل سمجھتے ہیں۔ پنجاب میں اب بھی پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے والے موجود ہیں مگر اب یہ حمایت ڈیڈ لیول تک پہنچ چکی ہے۔ اس لیے عوامی ہر دلعزیزی اور اعتماد کا ڈیم بھرنے کیلئے وقت‘ جدوجہد اور سب سے بڑھ کر ایک ایسے متبادل سیاسی بیانیے کی ضرورت ہے جو عوامی اعتماد کا باعث بن سکے ۔ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو نہ صرف اقتدار حاصل کرنے کی جلدی ہے بلکہ وہ ایک پُرکشش سیاسی بیانیہ پیش کرنے سے بھی قاصر ہے۔ اس کی بجائے وہ ایک شارٹ کٹ کے تلاش میں ہے اور اسی لیے اس نے ایک طرف اپنی سب سے بڑی سیاسی حریف (ن) لیگ کا ساتھ دیا بلکہ دوسری طرف مطلوبہ مقاصد کے حصول میں ناکامی دیکھ کر اس پر تنقید کا راستہ بھی اپناتی رہتی ہے کیونکہ پنجاب میں ایک دفعہ پھر سیاسی قدم جمانے میں وہ (ن) لیگ کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔ آصف علی زرداری نے سیالکوٹ کے حلقہ پی پی 52 ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی شکست کے بعد لاہور میں گورنر ہاؤس کو (ن) لیگ کے خلاف اپنی لڑائی میں ایک مورچے کے طور پر استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے‘ مگر انہیں یاد ہوگا کہ اس قسم کا اعلان وہ اپنی سابقہ ٹرم (2008-2013ء) کے دوران بھی کر چکے ہیں‘ مگر نتیجہ صفر رہا کیونکہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے احیا کیلئے (ن) لیگ کی مخالفت کے بیانیے کی بجائے پنجاب اور پاکستان کو درپیش مسائل کا دیانتدارانہ تجزیے کی روشنی میں ایک متبادل اور مثبت بیانیے کی ضرورت ہے۔