"DRA" (space) message & send to 7575

فلسطین کا دو ریاستی حل

ایران اسرائیل جنگ شروع ہونے سے قبل اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائیک ہُکابی (Mike Huckabee) نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کے خیال میں امریکہ اب مسئلہ فلسطین کو دو ریاستی فارمولے کے تحت حل کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ امریکی سفیر کے اس بیان پر کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت سے اب تک فلسطین کے دو ریاستی فارمولے کو ناکام بنانے کیلئے اسرائیل کے ہر غیرقانونی اقدام کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ وہاں منتقل کیا۔ 1967ء کی جنگ میں قبضہ کردہ گولان کی پہاڑیاں‘ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں انہیں اسرائیل میں ضم کرنے کے فیصلے کو تسلیم کیا تھا حالانکہ گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اُردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل کے قبضے کو بین الاقوامی عدالت انصاف ناجائز اور غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ صدر ٹرمپ نے 1993ء کے اوسلو معاہدات کے تحت فلسطین کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے دو ریاستی فارمولے پر عملدرآمد کو سبوتاژ کرنے کیلئے اسرائیل کے ہر غیرقانونی اور ناجائز اقدام کی حمایت کی ہے۔ رواں سال اپریل میں صدر ٹرمپ نے جب مائیک ہکابی کو اسرائیل میں امریکہ کا سفیر نامزد کیا تو اس سے عیاں ہو گیا تھاکہ وہ مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کے غیرقانونی اقدام اور دو ریاستی فارمولے کو ناکام بنانے کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔ مائیک ہکابی ایک قدامت پسند مسیحی اور اسرائیل کے کٹر حامی ہیں جنہوں نے اپنے پورے کریئر میں دریائے اُردن کے مغربی کنارے‘ جسے اسرائیلی جودیہ اور سمیریا کے نام سے پکارتے ہیں‘ کو اسرائیل میں ضم کرنے اور مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی بستیاں بسانے کی حمایت کی ہے۔ اپنے انٹرویو میں مسٹر ہکابی نے کہا کہ فلسطینیوں کی آزاد ریاست دریائے اردن کے مغربی کنارے میں ہی کیوں قائم کی جائے‘ اس کیلئے باقی عرب علاقوں میں کیوں نہ جگہ دی جائے؟
یاد رہے کہ اسرائیل کی کسی حکومت نے فلسطینیوں کا اپنی سرزمین پر حق تسلیم نہیں کیا حالانکہ جب نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد (181)کے تحت فلسطین کو دو ریاستوں‘ اسرائیل اور فلسطین میں تقسیم کیا تو اس وقت فلسطین میں یہودیوں کے مقابلے میں فلسطینیوں کی تعداد کئی گنا زیادہ تھی۔ مگر 1948ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی صہیونی حکومت نے اپنے حصے میں آنے والے فلسطینی علاقوں سے تقریباً آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو بزور طاقت اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کیا۔ اس وقت سے ان فلسطینیوں کی اولاد مہاجرین کی حیثیت سے ہمسایہ عرب ممالک میں رہ رہی ہے۔ اقوام متحدہ ان فلسطینی مہاجرین کا اپنے چھوڑے ہوئے گھروں کو واپسی کا حق تسلیم کر چکی ہے‘ مگر اسرائیل اسے تسلیم نہیں کرتا۔ پہلی عرب اسرائیل جنگ 1949ء میں سیز فائر پر منتج ہوئی مگر خطے میںNo War No Peace کی کیفیت جاری رہی کیونکہ عرب ممالک نے فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا‘ تاہم دریائے اردن کے مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس پر اردن اور غزہ پر مصر کا مستحکم قبضہ تھا مگر اسرائیل اپنی سرحدوں سے مطمئن نہ تھا اور دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ گولان کی پہاڑیوں اور مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرنے کیلئے موقع کی تلاش میں تھا۔ یہ موقع اسے 1967ء میں میسر آیا جب اپنی سرحدوں پر جمع شامی اور مصری افواج پر اچانک حملہ کرکے اسرائیل نے چھ دن کی جنگ میں گولان‘ دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ بیت المقدس‘ غزہ اور نہر سویز کے مشرقی کنارے تک صحرائے سینا کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ جنگ بندی کے بعد اسرائیل نے ان علاقوں کو خالی کرنے سے انکار کر دیا جس کی بنا پر 1973-74ء میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان چوتھی جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل کی فوجوں کو ابتدا میں مصر اور شام کے ہاتھوں شکست اور بھاری جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں اسرائیل مکمل شکست کے دہانے پر کھڑا تھا کہ عین موقع پر امریکہ نے بھاری مقدار میں اسلحہ اور ہتھیار اسرائیل کو سپلائی کرکے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ اسرائیل نے امریکی ہتھیاروں کی مدد سے نہ صرف مصری افواج کو نہر سویز کے مشرقی کنارے تک دھکیل دیا بلکہ اس کی فوجیں نہر سویز عبور کرکے مصری علاقے میں داخل ہو گئیں۔ اسرائیل کو امریکی مدد کے خلاف ردِعمل کے طور پر جب سعودی عرب کی قیادت میں تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک نے امریکہ اور یورپی ممالک کو تیل کی سپلائی بند کر دی تو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی کوششوں سے جنگ بندی ہوئی اور مصر اور اسرائیل کے مابین امن معاہدے پر بھی دستخط ہوئے جس کے تحت اسرائیل نے صحرائے سینا کا علاقہ خالی کر دیا۔ البتہ شام میں گولان کی پہاڑیوں پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔
عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگوں کے بعد نہ صرف امریکہ بلکہ عربوں اور اسرائیل کے بعض حلقوں میں بھی فلسطین کے مسئلے کو ہمیشہ کیلئے حل کرنے اور خطے میں مستقل امن کے قیام کی خاطر فلسطین میں اسرائیل کے ساتھ ایک علیحدہ آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی گئی اور 1993ء کے اوسلو معاہدے کے تحت اس پر فلسطینی رہنما یاسر عرفات اور اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم Yitzhak Rabinنے دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ مشرقی بیت المقدس اور غزہ پر مشتمل ایک نیم خود مختار فلسطینی ریاست ''فلسطینی اتھارٹی‘‘ قائم کر دی گئی جسے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی شکل دینے کا پروگرام تھا مگر اسرائیل کی سیاست میں دائیں بازو کی سیاسی پارٹیاں فلسطینی ریاست کے خلاف تھیں۔ نیتن یاہو انہی سیاسی پارٹیوں کا نمائندہ ہے جس نے مختلف اقدامات کے ذریعے دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد کو ناممکن بنا یا ہے‘ کیونکہ اسرائیل نے نہ صرف دریائے اردن کے مغربی کنارے بلکہ بیت المقدس کے اردگرد فلسطینی آبادی کے گھروں کو مسمار کرکے یہاں باہر سے آنے والے یہودیوں کی بستیاں تعمیرکر دی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان سینکڑوں بستیوں میں سات لاکھ یہودی رہتے ہیں۔ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف ان یہودی بستیوں کو غیرقانونی قرار دے چکے لیکن اسرائیل نہ صرف ان فیصلوں کونہیں مان رہا بلکہ مزید غیرقانونی بستیاں قائم کر رہا ہے۔ سات اکتوبر 2023ء سے اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے قتلِ عام اور نسل کشی میں مصروف ہے اور ا ب تک 55 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے‘ ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔ غزہ کے علاوہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر آباد تیس لاکھ کے قریب فلسطینی بھی اسرائیلی جارحیت کے نشانے پر ہیں۔ سات اکتوبر 2023ء سے اب تک مغربی کنارے میں 870 فلسطینی اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے متواتر اپیلوں کے باوجود اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے امریکی حکومت کی طرف سے نہ صرف مکمل اور متواتر جنگی مدد بلکہ سفارتی حمایت بھی حاصل ہے۔ حال ہی میں سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے 14 اراکین‘ جن میں چار مستقل اراکین بھی شامل ہیں‘ نے جنگ بندی کیلئے قرار داد پیش کی مگر امریکہ نے اسے ویٹو کر کے مسترد کروا دیا۔ اس تاریخی ریکارڈ کے پیشِ نظر امریکہ سے فلسطینیوں کیلئے انصاف کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ اسرائیل میں امریکی سفیر کا بیان فلسطین پر امریکی پالیسی کے تسلسل کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے اس پر کسی کو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں