ایران اسرائیل جنگ بندی پر دونوں ملکوں کے عوام نے اطمینان کا اظہار کیا لیکن جنگ بندی کے فوراً بعد یہ بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ دیرپا ثابت ہو گی؟ اس بارہ روزہ جنگ میں کس کی فتح ہوئی ہے اور کس کی شکست؟ اور یہ کہ اس جنگ کے خطے‘ خصوصاً جنوبی ایشیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟1948ء میں اپنے قیام کے بعد اسرائیل نے اپنے ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ متعدد جنگیں لڑیں۔ جون 2025ء کی جنگ پہلی جنگ ہے جو اسرائیل نے ایران کے خلاف لڑی ہے۔ واضح رہے کہ 1979ء کے اسلامی انقلاب سے پہلے ایران اور اسرائیل کے درمیان خوشگوار تعلقات تھے۔ اگرچہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات نہیں تھے مگر تجارت‘ ثقافت اور سیاحت کے شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون قائم تھا۔ اس کی وجہ ایرانی شاہ کی مغرب نواز پالیسی تھی جس نے 1955ء میں ایران کو معاہدۂ بغداد‘ جسے امریکہ نے بنیادی طور پر اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے قائم کیا تھا‘ میں شامل کیا تھا۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی بنیادیں کتنی کمزور ہیں‘ اس کا اندازہ جنگ بندی کے اعلان کے فوراً بعد ہو گیا جب اسرائیل نے اپنی فضائیہ کو تہران سمیت ایران کے دیگر اہم شہروں کو نشانہ بنانے کا حکم دے دیا (جس پر بقول صدر ٹرمپ ان کی مداخلت سے عمل نہ ہو سکا) حالانکہ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ جن مقاصد کیلئے ایران پر حملے کیے گئے وہ حاصل کر لیے گئے ہیں اور اسرائیل کو ایران سے اپنی بقا کا جو خطرہ تھا‘ اسے ختم کر دیا گیا ہے۔
شنید ہے کہ اسرائیلی حکومت کی کابینہ میں شامل انتہائی دائیں بازو کے ارکان ایران کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں وزیراعظم نیتن یاہو نے جن مقاصد کے حصول کا اعلان کیا تھا وہ حاصل نہیں ہوئے۔ ان مقاصد میں ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کرنے کے علاوہ ایرانی حکومت کا خاتمہ اورایران کے حصے بخرے کرنا تھا تاکہ ایران مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کے راستے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ مخلوط اسرائیلی حکومت میں شامل انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ امریکی حملوں کے باوجود ایران کے جوہری پروگرام کو جزوی نقصان ہی پہنچا ہے اور ایران چند ماہ میں پھر سے جوہری پروگرام کو بحال کرنے کے بعد اسرائیل کے وجود کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ ادھر امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے ایک ابتدائی جائزے کے مطابق‘ جو کسی طرح میڈیا میں منظر عام پر آگیا‘ ایران کے سب سے بڑے ایٹمی مرکز‘ فردو پر 30ہزار پونڈ کے چھ بنکر بسٹر بم گرائے جانے کے باوجود امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طورپر تباہ نہیں کر سکا‘ بلکہ صرف اتنا نقصان پہنچا سکا ہے جو ایران تین ماہ کے اندر پورا کر کے یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ اس تاثر کو غلط اور اپنی حکومت کے خلاف چند امریکی چینلز کی مخالفانہ مہم قرار دے رہے ہیں مگر امریکہ اور اس کے باہر لوگ صدر ٹرمپ کی حکومت کے ان وضاحتی بیانات پر یقین کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے۔ اگر بی ٹُو بمبار طیاروں سے بھی ایران کے جوہری پروگرام کے دوبارہ فعال ہونے کا خدشہ موجود ہے تو نیتن یاہو اور اسرائیلی حکومت میں شامل دیگر انتہا پسند گروپ امریکی صدر پر ایران کے خلاف برسر عام یا خفیہ طریقوں سے تخریبی سرگرمیاں جاری رکھنے پر زور دیں گے۔ ایرانی حکومت جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی طرف سے اس قسم کی کارروائیوں پر اپنے خدشات کا پہلے ہی اظہار کر چکی ہے۔
جنگ بندی کو خطرہ اس بات سے بھی ہے کہ ہر فریق اپنی جگہ فتح کا دعویٰ کر رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں امریکہ‘ ایران اور اسرائیل میں سے کوئی بھی مکمل فاتح بن کر نہیں ابھرا۔ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کو جڑ سے اکھاڑنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر ایران کی طرف سے اس پروگرام کو دوبارہ فعال کرنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیتا۔ ایران کو اپنی چوٹی کی عسکری قیادت‘ ایٹمی سائنسدان اور میزائل پروگرام کی تباہی کے بعد ایک دفعہ پھر اسرائیل کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بننے کیلئے مہینوں نہیں بلکہ برسوں درکار ہوں گے۔ دو دہائیوں کی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی معیشت پہلے ہی زبوں حالی کا شکار تھی حالیہ جنگ نے اسے مزید کمزور کیا ہے۔ جنگ میں متحد اور ثابت قدم رہنے پر ایرانی قوم نے خوشی کا اظہار کیا لیکن دل میں یقینا دعا مانگتے ہوں گے کہ جنگ بندی کی صورت میں امن کا جو موقع ملا ہے وہ ضائع نہ ہو اور انہیں امن کے ثمرات سے مستفید ہونے کا موقع مل سکے۔
دیکھا جائے تو تینوں فریقوں کیلئے بارہ روز جنگ میں کوئی نہ کوئی اہم سبق موجود ہے۔ امریکہ اپنے ہتھیاروں کے ذخیرے میں سے سب سے بھاری اور خطرناک بم گرانے کے بعد بھی ایران کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کر سکا بلکہ جنگ بندی پر آمادہ کرنے کیلئے اسے قطر کی مدد لینا پڑی۔ 1945ء میں جاپان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کیلئے امریکہ کے دو ایٹم بم کافی تھے اور اسے کسی تیسری پارٹی کو اس کیلئے درخواست نہیں کرنا پڑی تھی کیونکہ امریکہ کے علاوہ باقی تمام بڑی طاقتیں جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہیں تھیں۔ صدر ٹرمپ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حالیہ حملے کا‘ اگست 1945ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر کیے گئے ایٹمی حملوں سے موازنہ کیا لیکن یہ موازنہ نہیں بنتا۔ ایران بارہ روزہ جنگ میں اکیلا اسرائیل اور امریکہ کا مقابلہ کرتا رہا۔ اقوام متحدہ‘ او آئی سی اور خطے کا کوئی ملک اس کی مدد کو نہیں آیا۔ اب یہ ایرانیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے قومی مفاد کی روشنی میں اس تجربے سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں۔ جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اسے اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ وہ مصر‘ لیبیا اور شام کی تاریخ نہیں دہرا سکتا کیونکہ ان ملکوں کے برعکس ایران میں شخصی آمریت کا نظام مسلط نہیں۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب سے اب تک ایران کو کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا مگر اس میں جمہوری سیاسی عمل بلاتعطل جاری رہا۔ عراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ کے باوجود ایران میں جمہوری عمل پٹڑی سے نہیں اُترا۔ پارلیمنٹ اور صدارتی عہدے کیلئے باقاعدہ انتخابات ہوتے رہے۔ یہی ایران کی اصل قوت ہے جس نے اسے اسرائیل ہی نہیں بلکہ دنیا کی سب سے طاقتور عسکری قوت امریکہ کے مقابلے میں جم کر کھڑا ہونے کے قابل بنایا۔ ایرانیوں کا حوصلہ‘ ثابت قدمی اور جرأت کئی ملکوں اور حکومتوں کیلئے سبق آموز ہے کہ اگر ایک غیر متنازع‘ صاف اور شفاف جمہوری عمل کے ذریعے ایک منتخب حکومت اقتدار میں ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ عوام اسے اپنی حکومت سمجھتے ہیں‘ وہ ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر کی فوجیں فرانس پر قبضے کے بعد برطانیہ پر چڑھ دوڑیں تو چرچل کا ماتحت دوڑتا ہوا آیا اور بتایا کہ جرمن فوجیں برطانیہ کے سر پر پہنچ گئی ہیں۔ چرچل نے اطمینان سے پوچھا کہ کیا برطانیہ میں عدالتیں کام کررہی ہیں؟ماتحت افسر نے جواب دیا کہ جی ہاں عدالتیں کام کررہی ہیں۔جس پر چرچل نے کہا کہ پھر برطانیہ کو کوئی ملک زیر نہیں کر سکتا۔