قومی رہبر پارٹی اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنی قوم کی تعمیر و تربیت کرتے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے 18 مارچ کو چناق قلعے کی فتح کے 107 سالہ جشن کے موقع پر براعظم یورپ اور ایشیا کو ملانے والے دنیا کے بلند ترین پل بنام ''1915 چناق قلعے پل‘‘ کا افتتاح کیا۔ یہ پل 2023 میٹر لمبا ہے۔ پل کی لمبائی 2023 میٹر اتفاق سے نہیں بن گئی بلکہ سوچ سمجھ کر رکھی گئی ہے کیونکہ 2023 میں جمہوریہ ترکی کے سو سال مکمل ہوں گے۔ صد سالہ جشن کی تقریبات ترکی کے چپے چپے میں شایان شان طریقے سے منائی جائیں گی۔ پل کا نام ''1915 چناق قلعے پل‘‘ رکھنے کا مقصد اپنی نوجوان نسل کو ذہن نشین کروانا ہے کہ ان کے اجداد نے کس طرح جنگ عظیم اول کی خونریز اور مثالی جدوجہد میں چناق قلعے میں بحری فتح کی صورت، بہادری کی داستان رقم کی تھی۔ اس پل کی لمبائی 2023 میٹر رکھنے کی بنیادی وجہ ایک طرف جمہوریہ ترکی کے سو سالوں کے مکمل ہونے پر ملک کی آزادی کے لیے دی جانی والی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے تو دوسری طرف اس پل کی معرفت نئی نسل کوآبائواجداد کی قومی جدوجہد کی تاریخ ازبر کروانا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے 2020 میں پاکستان کے دورے کے دوران پاکستان کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے ترکی اور پاکستان کے دیرینہ اور قابل رشک برادرانہ تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا تھا ''ان تعلقات کو تاریخ سے تقویت ملی ہے‘‘۔ انھوں نے اس واقعے کا حوالہ خوشی اور عقیدت سے دیا کہ جب 1915 میں ترک درا دانیال میں اپنی سرزمیں کا دفاع کر رہے تھے تو اس وقت 6000 کلومیٹر دور لاہور میں ترکوں کے حق میں علامہ اقبال کی قیادت میں ریلی نکالی گئی تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جنگ عظیم اول کے دوران ترکی کے چناق قلعے میں ہونے والے واقعات کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں دہرایا جارہا ہے‘ کشمیر کا مسئلہ ہمارے اتنا ہی قریب اور اہم ہے جتنا کہ پاکستان کے لیے۔
تاریخ گواہ ہے کہ قومی شعور کی تعمیر میں چند واقعات بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چناق قلعے کا دفاع اور گیلی پولی کی جنگ ترکوں کے قومی تشخص کی تشکیل میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ چناق قلعے اور گیلی پولی ترک قومی شعور کی علامت ہیں۔ 18 مارچ کی بحری جنگ کی فتح اور 25 اپریل سے شروع ہونے والی زمینی جنگ ساڑھے 8 ماہ جاری رہی اور دشمن کو آخر کار پسپا ہونا پڑا۔ نڈر اور بہادر ترک فوجیوں کی گھمسان کی لڑائی لڑتے ہوئے حاصل کردہ فتوحات جمہوریہ ترکی کے قیام کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ یہ جنگ ایک قوم کے اپنے وجود کو سلامت رکھنے کی جنگ تھی اور اس قوم نے ثابت کیا کہ یہ سرزمین ان کی پہچان ہے۔ ترک اس فتح کی یاد کو عید کے طرح مناتے ہیں۔ نوجوان مصطفی کمال اس کے عظیم ہیرو تھے‘ جنھوں نے مسلسل جدوجہد کے بعد 1923 میں سلطنت عثمانیہ کے بکھرے ہوئے شیرازے کی بنیادوں پر جمہوریہ ترکی جیسے مضبوط ملک کی تعمیر کی۔ ترکوں کا ماننا ہے کہ اس جنگ (چناق قلعے) کی روح ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے۔
جنگِ عظیم اول کی سب سے خونریز مہم ترکی میں 18 مارچ 1915ء چناق قلعے کے مقام پر لڑی گئی۔ اس مہم میں مجموعی طور پر تقریباً 48000 اتحادی افواج اور ان کے مدمقابل 253000 ترک سپاہ نے حصہ لیا۔ ترکی کے بہادر سپوتوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر اپنی مادر وطن کا کامیاب دفاع کیا۔ جب اتحادی طاقتوں کو بحری محاذ پر بدترین شکست ہوئی تو انہوں نے 25 اپریل 1915ء کو زمینی حملہ کر دیا۔ ترکوں نے بہادری سے اپنی سرزمین کا دفاع کیا، ''چناق قلعے ناقابلِ تشخیر ہے‘‘ اس بات کو قبول کرنے والی دشمن قوتیں شکست کھا کر 9 جنوری 1916ء کو پسپا ہوئیں۔
ونسٹن چرچل‘ جو اس وقت رائل برٹش نیوی کے فرسٹ سی لارڈ تھے‘ نے قسطنیطنہ (استنبول) پر قبضہ اور ترکی کو فتح کرنے کا یہ منصوبہ بنایا تھا اور برٹش پارلیمنٹ نے اس منصوبے پر عمل درآمد کی جازت دی تھی۔ اتحادیوں کا منصوبہ یہ تھا کہ رائل نیوی درا دانیال سے گزر کے قسطنیطنہ پر قابض ہو گی۔ فرانس اور زارِ روس کی فوجیں بھی اس مہم میں شامل تھیں۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی فوجیں ANZAC کے نام سے اس مہم کا حصہ بنیں۔ اتحادیوں کا خیال تھا کہ قسطنیطنہ پر اگر وہ قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ترکی جنگِ عظیم سے نکل جائے گا۔ 18 مارچ 1915ء کی صبح اتحادی افواج کا بحری بیڑا جو 18 جنگی جہازوں پر مشتمل تھا درا دانیال (ڈار ڈنیلیس) کے تنگ ترین مقام پر حملہ آور ہوا۔ اس حملے کا ترک فوج نے بھرپور جواب دیا جس کی وجہ سے مخالفین کو سخت جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ غرض اس ہزیمت کو چھپانے کے لیے اتحادیوں کی جانب سے زمینی حملے کا آغاز کردیا گیا۔ ترک فوج نے عددی کمی کے باوجودحملہ آوروں کو ساحل کے قریب ہی روک دیا۔ سکولوں، یونیورسٹیوں کے طلبہ، کسان، چرواہے، مستری، لوہار، درزی، اساتذہ غرض ہر شخص اپنی فوج کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر مادر وطن کے دفاع کی جنگ میں شامل ہوا۔ مصطفیٰ کمال پاشا (اتاترک) اس وقت انفنٹری ڈویژن کی کمان کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنی ڈویژن کو حکم دیتے ہوئے تاریخی کلمات ادا کیے۔ انھوں نے کہا: میں تمھیں لڑنے کا حکم نہیں دیتا‘ میں تم کو مرنے کا حکم دیتا ہوں‘ یہ وقت گزر جائے گا یہاں تک کہ ہم مر جائیں اور دوسرے فوجی اور کمانڈر آگے آئیں اور ہماری جگہیں لے لیں۔ ان کی ڈویژن نے اپنے کمانڈر کے حکم پر لبیک کہا اور ڈویژن کا ہر فوجی یا تو شہید ہوا یا زخمی اور مغرب کے قسطنیطنہ پر قبضے کا قدیم خواب چکنا چور کر دیا۔
ترکی کا صوبہ چناق قلعے درا دانیال کے دونوں جانب واقع ہے‘ جو بحیرہ مرمرہ کو بحیرہ ایجین سے ملاتا ہے۔ اس کے ساحل براعظم یورپ میں جزیرہ نما گیلی پولی اور ایشیا میں جزیرہ نما بگا (Biga) کو چھوتے ہیں۔ یہ خطہ اپنی ایک قدیم تاریخی قدامت وہ اہمیت رکھتا ہے۔ چھ ہزار سال پر انی تہذیب کے آثار یہاں موجود ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اس خطے کی ابتدائی بستیاں Kumtepe میں قائم کی گئیں تھیں۔ Kumtate 4000 قبل مسیح اورٹرائے‘ جس کے آثار چناق قلعے کے مرکز سے 30 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہیں‘ 3500 تا 3000 قبل مسیح کے درمیان آباد ہوئے۔ چھٹی صدی قبل مسیح میں اس پر ایرانیوں کا قبضہ ہوگیا۔ سکندر اعظم جب ایشیا کی مہم پر نکلا تو اس نے دریائے گرانیکس کے کنارے ایرانیوں کو شکست دی اور اس پر قبضہ کرلیا۔ 1367 میں عثمانیوں نے گیلی پولی جزیرہ نما پر کنٹرول حاصل کرلیا۔ 1464 فاتح محمد (فاتح سلطان مہمت) نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کروایا۔ ابتدا میں اسے قلعے سلطانیہ کہا جاتا تھا۔ قلعے کی مشابہت مٹی کی صراحی سے ہونے کی وجہ سے اسے چناق قلعے (Canakkale) کہا گیا۔ ترکی زبان میں چناق (Canak) مٹی کے برتن یا پیالے کو کہتے ہیں۔ چناق قلعے اناطولیہ اور مشرق وسطیٰ کا جغرافیائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ فاتح محمد کا یہ قلعہ آبنائے کے تنگ ترین مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا محل وقوع بہت اہم ہے کیونکہ اس مقام پر درے کی چوڑائی 1.6 کلومیٹر ہے جس کی وجہ سے سمندری ٹریفک پر کنٹرول اور فوجیStrategic حوالے سے اس کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ 2023 میں جمہوریہ ترکی کے سو سال مکمل ہوں گے اور قومی رہبر طیب اردوان نے 2023 میٹر لمبا دنیا کا بلند ترین پل بنا کر آنے والی کئی نسلوں تک اپنی تاریخی جدوجہد کو منتقل کرنے کا جو انداز اپنایا ہے وہ نہ صرف قابل رشک بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔