نیپالی یوگی اور ٹلہ جوگیاں

ممتاز نیپالی سکالر ڈاکٹر بھولا ناتھ یوگی‘ جو کہ سوشل ورکر اور ہتھا یوگا کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں‘ عالمی مذاہب کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے جہاں سے ان کی اسلام آباد آمد پر نیپالی سفارت خانے میں پاکستان میں نیپال کے سفیر جناب تاپس ادھیکاری کی جانب سے ''پُر امن بقائے باہمی اور ناتھ روایت‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر یوگی کے لیکچر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس علمی نشست میں شرکت میرے لیے زیادہ دلچسپی کا سبب اس لیے بھی تھی کہ وادیٔ سندھ کی تہذیب‘ بشریات اور تاریخ میرے پسندیدہ مضامین ہیں۔ صوبہ سندھ میں جوگی خانہ بدوش قبائل صحرائے تھر سے لے کر کوہ سلیمان کے سنگلاخ پہاڑی علاقے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ سندھ کے صوفی شعرا خصوصاً شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے کلام میں ان جوگیوں اور ناتھوں کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ اس پس منظر اور اس کے حوالے سے چند سوالوں کے جوابات کی تلاش مجھے اس علمی نشست میں لے گئی۔
اسلام آباد سے تقریباً 143کلو میٹر دور ٹلہ جوگیاں کوہ نمک کی دوسری بلند چوٹی ہے جو سطح سمندر سے 3200 فٹ بلند ہے۔ اس چوٹی پر کیکر اور جنگلی زیتوں کے گھنے درختوں کا جنگل ہے جو اس کی کرشماتی کشش کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ قدیم روایات کے مطابق ٹلہ جوگیاں پر اس خانقاہ کی بنیاد ''کن پھٹے‘‘ جوگیوں کے سلسلے کے بانی گورکھ ناتھ نے ایک صدی قبل مسیح میں رکھی تھی۔ یہ خانقاہ دوہزار سال آباد رہی۔ اس ٹلہ اور خانقاہ کا ذکر وارث شاہ نے اپنی مشہور نظم ہیر رانجھا میں بھی کیا ہے۔ رانجھے کے جوگ کی یادگار‘ تخت نما پتھر‘ ٹلہ جوگیاں پر موجود ہے۔ زمانۂ قدیم میں کسی مہا پُرش نے یہاں ایک عبادت گاہ بنائی تھی‘ مہا بھارت کے اختتام پر پانچوں پانڈو بھائی یاترا کرنے یہاں آئے تھے۔ ٹلہ جوگیاں پر رہنے والے جوگی گیان دھیان میں مصروف رہتے تھے‘ ان ہی جوگیوں نے آیو ویدک علاج متعارف کراویا تھا۔ جڑی بوٹیوں سے علاج کا فن‘ علمِ نجوم‘ وقت کے تعین کے لیے آٹھ پہر بھی ان ہی جوگیوں کے مرتب کردہ ہیں۔ یوگا کی ایجاد اور قواعد و ضوابط بھی ان جوگیوں کے مرہونِ منت ہیں۔ ٹلہ پر رہنے والے جوگی انسانی آبادیوں سے دور جنگلوں میں جڑی بوٹیاں تلاش کرتے‘ ان سے ادویات تیار کر کے بیماروں کا علاج کرتے تھے اورلوگ ان جوگیوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ مغل شہنشاہ جلال الدین کے دربار سے منسلک مورخ ابولفضل لکھتے ہیں کہ جلاالدین اکبر نے دو مرتبہ ٹلہ جوگیاں کا دورہ کیا اور 1581ء میں ٹلہ پر رہنے والے جوگیوں کے لیے ایک تالاب بنوایا جس کے آثار یہاں موجود ہیں۔ ابوالفضل نے بال ناتھ کا ذکر بھی کیا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر نے 1607ء میں قلعہ روہتاس میں پڑاؤ ڈالا اور ٹلہ جوگیاں میں دربار لگایا تھا۔ جوگیوں کا یہ ٹلہ برصغیر میں مذہبی ہم آہنگی کی بہترین مثال رہا ہے‘ جہاں ہر مذہب کے جوگی آزادی سے اپنی عبادت کر سکتے تھے۔
18ویں صدی میں نیپال میں قائم ہونے والی گورکھا بادشاہت دراصل گرو گورکھ ناتھ سے عقیدت رکھتی تھی۔ ایک اسطور کے مطابق ''پہلی بار گورکھ ناتھ نیپال کے جس علاقے میں نمودار ہوئے اس علاقے کا نام گورکھا رکھاگیا‘ وہاں ان کے پاؤں کے نشان کے ساتھ ایک غار موجود ہے‘‘۔ گورکھ ناتھ کے پیروکارں کی ایک بڑی تعدا د آج بھی نیپال میں موجود ہے۔ خطہ پوٹھوہار کے علاقے میں واقع ٹلہ جوگیاں اور فلسفہ گورکھ ناتھ کی روایت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر یوگی کا کہنا تھا کہ رَگ وید کے کچھ منڈل اور منتر یہیں تخلیق ہوئے ہیں۔ ٹلہ جوگیاں گورکھ ناتھ‘ بال ناتھ‘ گرو نانک‘ راجا سلوہن‘ راجا بھرت ہری‘ سکندرِ اعظم‘ جلال الدین اکبر‘ نورالدین جہانگیر‘ ہیرکا رانجھا‘ غرض ہر عہد میں سلاطین اور غمِ جاناں و غمِ دوراں کے ماروں کو مرہم فراہم کرتا رہا ہے۔ گورکھ ناتھ نے راجہ بکرماجیت کے عہد میں ٹلہ جوگیاں میں اپنا ڈیرہ ڈالا اور مہا یوگی شیو کی تعلیمات کے مطابق ناتھ پنتھ قائم کیا۔ راجا بھرت ہری اور پورن بھگت جیسی شخصیات کا تعلق گورکھ ناتھ کے دور سے ہی ہے۔
ناتھ‘ جسے ناتھا بھی کہا جاتا ہے‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی سہارا‘ مالک‘ اور گُرو کے ہیں۔ در حقیقت یہ قرونِ وسطیٰ کی ایک تحریک تھی جو سماج میں مذہبی شدت پسندی اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں درپیش بناوٹی مشکلات کے خلاف ایک ردِعمل کے طور پر سامنے آئی تھی۔ یہ تحریک انسان اور اس کے خالق کے درمیان کسی بھی رکاوٹ کی نفی کرتی ہے۔ اس تحریک نے بدھ مت اور شیو مت کی روایات کو یکجا کیا۔ ناتھ ان عقیدت منددوں کا اتحاد رہا جو شیو کو اپنا گُرو مانتے ہیں۔ اس روایت کے پیروکاروں کو جوگی یا یوگی کہا جاتا ہے۔ ناتھ روایات کی جڑیں یوگک اور تانترک طریقوں سے بھی ملتی ہیں۔ ان روایات میں مختلف فلسفے شامل ہیں جو شیومت اور تانترک دونوں طریقوں سے اخذ کیے گئے ہیں۔ ان کے فلسفے کا مرکزی خیال خود شناسی اور روحانی بالیدگی کا حصول ہے۔ وہ عالم گیر شعور کے ساتھ انفرادی روح کے اتحاد پر زور دیتے ہیں۔ ناتھ اس بات کی وکالت کرتے ہیں کہ تزکیۂ نفس نظم و ضبط اور مراقبے سے ممکن ہے۔ ناتھ یوگی تپسیا کے لیے اپنی لگن سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک جامع رستہ اختیار کرتے ہیں جس میں جسمانی اور ذہنی مشقیں ان کے روحانی سفر میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں۔ ناتھ روایات برصغیر کے بھرپور اور متنوع روحانی ورثے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس تحریک نے الہیات کو سمجھنے کے لیے سماج کے غیر روایتی پہلوؤں کو تلاش کرکے روایتی عقائد کو چیلنج کیا۔ جوگیوں نے خانقاہیں بنائیں‘ فطرت کے مطالعے کے لیے گھومنے پھرنے والے گروپس تشکیل دیے جنہوں نے روحانی سفرکا آغاز کیا اور جنگل و بیابان میں حقیقتِ مطلق کی تلاش کے لیے خود کو فطرت سے جوڑا۔ اس تحریک کا دیگر تحریکوں پر بھی خاصا گہرا اثر رہا بشمول ویدانت‘ وشنوازم اور بھگتی تحریک وغیرہ۔ نام دیو اور بھگت کبیر بھی ناتھ روایت سے متاثر تھے۔ نو آبادیاتی عہد میں شماریات کے سروے کے دوران جوگیوں کو نچلے درجے کی ذات میں شامل کیا گیا جس کے ردِ عمل میں جوگیوں نے اپنے سماجی روابط میں ناتھ کی اصطلاح کو زیادہ نمایاں طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ آج کے پُر آشوب دور میں پُر امن بقائے باہمی کیلئے بین المذاہب مکالمے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ مکالمۂ بین المذاہب کا مقصد نہ صرف ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہے بلکہ اختلاف پر قائم رہ کر ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرنا ہے۔
برصغیر ایشیا کا وہ خطہ زمین ہے جس میں سندھ و گنگ کا وسیع و عریض زرخیز میدان بھی واقع ہے۔ سندھ اور گنگا دریا اس میدان کو سیراب کرتے ہیں۔ یہ میدان چار ملکوں پاکستان‘ انڈیا‘ بنگلہ دیش اور نیپال تک پھیلا ہوا ہے۔ انسانی تہذیب کے قدیم ترین آثار اس خطے میں موجود ہیں۔ اگر صرف پنجاب میں انسانی آبادی کے ابتدائی شواہد کی کھوج کریں تو ماہرین کے مطابق یہ شواہد پوٹھوہار کی وادیٔ سون سے ملتے ہیں۔ جہاں سوانی ثقافت 11700 قبل مسیح میں موجود تھی۔ یہا ں سے پتھر اور چقماق کے اوزار کی باقیات ملی ہیں۔ گندھارا تہذیب کے آثار‘ جو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہیں‘ ٹیکسلا میں موجود ہیں۔ اسی طرح ہڑپہ‘ موہنجودڑو‘ کوٹ ڈیجی‘ مہرگڑھ وغیرہ آثارِ قدیمہ کی معروف سائٹس تو ہیں ہی لیکن صرف ایک پوٹھوہار کے خطے کو ہی تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو ٹلہ جوگیاں کی طرف جاتے ہوئے قلعہ روہتاس‘ کٹاس راج‘ قلعہ روات‘ مانکیالہ اسٹوپا وہ تاریخی مقامات ہیں جو ماضی بعید میں حقیقتِ مطلق کی تلاش میں سرگرداں انسانوں کے مرکز رہے ہیں۔ تاریخ کے ان عظیم مقامات کی بحالی سے نہ صرف سر زمینِ پاکستان کے متنوع روحانی روایات کی بھرپور تاریخ کو عالمی سطح پراجاگر کیا جا سکتا ہے بلکہ حکومتی سطح پر مذہبی سیاحت کے فروغ سے ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں سیاحوں کو پاکستان لایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں