دو دن پہلے ٹیلی ویژن سکرین پر چلنے والے ٹِکرز میں موجود ایک خبر کو پڑھ کر انتہائی دکھ اور تکلیف ہوئی کہ دریائے سندھ میں پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے روہڑی میں دریا کے کنارے دو ڈولفن (جس کا مقامی نام بلھن ہے) مردہ حالت میں ملی ہیں۔ پاکستان میں پائی جانے والی ڈولفن کی یہ نازک قسم دنیا کے نایاب ممالیہ جانوروں میں سے ایک ہے جو زندہ فوسل(Living fossil) کے طور پر جانی جاتی ہے۔ یہ قدرت کی ایک ایسی نایاب و منفرد مخلوق ہے جوکروڑہا سالوں سے خود کو بدلتے ماحول کے ساتھ ڈھالتے ہوئے ایک ہی شکل کو برقرار رکھتے ہوئے آج تک زندہ ہے۔ اس ڈولفن کو اب موسمیاتی تبدیلیاں‘ آبی آلودگی اور انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے معدومیت کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ 1960ء میں حکومتِ پاکستان نے دریائے سندھ کی ڈولفن کو معدوم قرار دے دیا تھا لیکن قدرت کا کرشمہ دیکھیں کہ ماہی گیروں کے ایک گروپ نے دورانِ شکار ڈولفن کا ایک جوڑا دیکھنے کی اطلاع دی۔ حکومت نے اطالوی ماہرین کی مدد سے جلد ہی 150ڈولفنز دریافت کر لیں۔ 1974ء میں انٹر نیشنل یونین فارکنزرویشن آف نیچر نے اسے ریڈ لسٹ میں شامل کر دیا۔ صوبہ سندھ میں محکمہ جنگلی حیات کے قیام کے بعد سے ان مچھلیوں کی نگہداشت اور دو سے تین سال بعد ان کی گنتی کی جاتی ہے۔ اس وقت ان ڈولفنز کی کل آبادی2100 کے قریب ہے جو ان کی افزائش کی نشاندہی کرتی ہے‘ تاہم اب بھی یہ خطر ے سے باہر نہیں ہیں۔
ڈولفن سمندر کا ممالیہ ہے اور کہیں بھی دریاؤں میں یہ ممالیہ مچھلی نہیں پائی جاتی۔ صرف ایشیا اور جنوبی امریکہ کے چند دریا اس جاندار کا مسکن ہیں۔ آخر براعظم ایشیا اور جنوبی امریکہ کے میٹھے پانیوں کے چند ذخائر میں ڈولفنز کی مختلف انواع کیوں موجود ہیں؟ اس کی سادہ سی وضاحت یہ ہے کہ ماقبل تاریخ دھرتی کا وہ حصہ جو آج ایشیا اور جنوبی امریکہ کہلاتا ہے‘ ٹیتھیس سمندر نے اسے ڈھانپا ہوا تھا‘ یہ سمندر ان سب انواع کا مسکن تھا۔ جیسے جیسے ٹیتھیس سمندر کی سطح کم ہوتی گئی تو برصغیر‘ ایشیا اور جنوبی امریکہ کے خطے اُبھرے اور ڈولفن نے ہمالیہ سمیت ایشیا کے اونچے پہاڑوں سے بہنے والے دریاؤں میں رہنے کے لیے خود کو ڈھال لیا۔ نیپال‘ انڈیا اور بنگلہ دیش میں دریائے گنگا‘ برہم پترا اور ان کے معاون دریاؤں میں گنگا ڈولفن (جسے اس کی آواز کی وجہ سے مقامی طور پر سوسو کہا جاتا ہے) پائی جاتی ہے۔ گنگا کی سوسو ڈولفن اور سندھ کی بلھن ڈولفن میں کچھ مشابہت کے باوجود کلاڈسٹک اور ڈی این اے کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ ان کا تعلق دو مختلف خاندانوں سے ہے۔ دریائے سندھ کی ڈولفن سیٹاسیئن خاندان سے ہے۔ یہ خاندان ممالیہ جانوروں کا ایک گروہ ہے جس میں وہیل اور پورپوزز (Porpoises) شامل ہیں۔ سندھ کی ڈولفن کا رنگ ہلکا بھورا اور ناک چونچ نما ہوتی ہے جس میں نوکیلے دانت ظاہر ہوتے ہیں (یہ چونچ نما ناک اسے اُتھلے پانی سے گزرنے اور دریا کی تہہ میں غذا تلاش کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے) اس کی چھوٹی سی پِن ہول جیسی آنکھوں کی وجہ سے اسے اندھی ڈولفن بھی کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ڈولفن دریائے سندھ میں رہنے کیلئے تیار ہوئی۔ ڈولفن کا اعلیٰ قسم کا سونار سسٹم اسے دریا میں سفر کرنے اور غذا تلاش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ دریائے سندھ کے مٹیالے پانی میں ڈولفن کو ایکو لوکیشن کلکس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دریا پر بیراجوں اور ڈیموں کی تعمیر سے قبل 2100میل کے علاقے میں یہ مچھلی آزادانہ گھومتی تھی لیکن اب اس کا علاقہ سکڑ کر صرف 429 میل رہ گیا ہے جس میں خاص طور پر گڈو اور سکھر بیراج کا درمیانی علاقہ شامل ہے۔
ڈولفن کی بقا مقامی ایکو سٹرکچر کے لیے بہت اہم ہے۔ انہیں ایک Indicator Specieسمجھا جاتا ہے جو ان دریاؤں کی صحت کی علامت کے طور پر کام کرتی ہیں جن میں وہ رہتی ہیں۔ ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے تو یہ اشارہ ہے کہ دریا کا ایکو سسٹم بہتر ہے۔ اگر ان کی تعداد میں کمی آتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ دریا کے ماحولیاتی نظام میں گڑبڑ ہے۔ میٹھے پانی کی ڈولفن انتہائی نازک مخلوق ہے‘ اسے ہر دو سے تین منٹ بعد سانس لینے کے لیے پانی کی سطح کے اوپر آنا پڑتا ہے اور اگر یہ ماہی گیروں کے جال میں پھنس جائے تو پانچ منٹ میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مچھلیاں پکڑنے والے ایک مخصوص کیمیاوی مواد پانی میں پھینکتے ہیں جس سے مچھلیاں سطح آب پر نمودار ہو جاتی ہیں‘ یہی مواد اس نایاب مچھلی کی موت کا سبب بن رہا ہے۔ صنعتی و میونسپل فضلے کے بڑے پیمانے پر دریا میں اخراج کی وجہ سے پیدا ہونے والی آبی آلودگی اور گلوبل وارمنگ وغیرہ میٹھے پانی کی ڈولفن کو درپیش خطرات کو بڑھا رہے ہیں۔ پچھلے سو سالوں میں دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں 99فیصد کمی آئی ہے۔ یہ سال کے آٹھ مہینے خشک رہتا ہے اور دریا کا پانی سمندر تک نہیں پہنچ پاتا۔ اب دریائے سندھ حیدر آباد سے آگے بہنا بند ہو گیا ہے۔ صرف سیلاب کے موسم میں دریا کے آخری تین سو کلومیٹر رقبے میں پانی پہنچ پاتا ہے۔
پاکستان کی 80فیصد سے زائد زرعی اراضی کو دریائے سندھ کا پانی سیراب کرتا ہے۔ ملک کی 90فیصد آبادی اور تین چوتھائی سے زیادہ معاشی سرگرمی کسی نہ کسی طور اس دریا سے وابستہ ہے۔ ہمارے ملک کے نو بڑے شہر دریائے سندھ سے صرف 50کلومیٹر یا اس سے بھی کم فاصلے پر واقع ہیں۔ اس دریا کو موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی سے سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اگر دریا کا طاس ٹوٹ جاتا ہے تو ملک کی 80فیصد آبادی فاقہ کشی کا شکار ہو جائے گی۔ زیادہ درجہ حرارت‘ پگھلتے ہوئے گلیشیرز‘ کم یا زیادہ بارش سبھی دریا کی سطح‘ انسانی آبادیوں‘ آبی حیات اور ڈولفن کو متاثر کر سکتے ہیں۔ گزشتہ سال برازیل میں دریا کے پانی کا درجہ حرارت غیرمعمولی طور پر بڑھ جانے کی وجہ سے وہاں 200 سے زائد ڈولفنز ہلاک ہو گئی تھیں۔ اگر دریائے سندھ کے درجہ حرارت میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے تو ہماری ڈولفن کا انجام بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے خطرات کا سامنا کرنے والی دوسری کئی انواع معدوم ہو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر چین کے دریا میں پائی جانے والی بائیجی(Baiji) ڈولفن آبی آلودگی اور دریا میں چلنے والی کشتیوں کے شور کی وجہ سے 2007ء میں معدوم ہو گئی تھی۔ اسی طرح مگرمچھ کی ایک قسم گھڑیال‘ پاکستان کے متنوع حیاتیاتی منظرنامے سے غائب ہو چکی ہے‘ آخری مرتبہ اسے 1985ء میں دیکھا گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے مطابق عالمی جی ڈی پی کے نصف سے زیادہ کا انحصار فطرت پر ہے۔ حیاتیاتی تنوع کے نقصان سے ماحول اور انسانی آبادی دونوں پر دور رس منفی نتائج مرتب ہو سکتے ہیں۔ معدومیت سے دوچار انواع کو بچانے کیلئے جنگلی حیات کے تحفظ کے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔ دھرتی کی 26ہزار 500سے زیادہ حیاتیاتی انواع کو معدومیت کا خطرہ ہے جس میں سے تقریباً 20سے زیادہ پاکستان میں موجود ہیں۔ ان سب کا تحفظ ضروری ہے لیکن اس وقت پاکستانی ڈولفن کی نسل کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ دریائے سندھ کی ڈولفن‘ جو ایک زندہ فوسل کہلاتی ہے‘ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ جب تک وہ ہمارے دریا میں موجود ہے تو یہ دریا کی صحتمندی کا فطری سگنل ہے کہ دریا کاپانی قابلِ استعمال ہے اور دریا زندہ ہے‘ لہٰذا اس طرح کے واقعات پر حکومت کے متعلقہ تمام محکموں کو ازخود نوٹس لینا چاہیے کیونکہ دریا کی صحتمندی کے فطری سگنل ڈولفن کی نسل کو خطرات دراصل دریا کی زندگی کے خطرات کی علامت ہیں۔