جواں سال فلسطینی شاعر رفعت العرعیر کا قصور یہ تھا کہ وہ غزہ کے مظلوم عوام کی آواز دنیا میں پھیلا رہے تھے۔ انہوں نے غزہ کے ایک سکول میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس دوران انہیں اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی سے دھمکی آمیز فون کال موصول ہوئی کہ وہ جانتے ہیں کہ رفعت کہا ں چھپے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی حملوں کے دوران اپنے آبائی شہر شجائیہ کو چھوڑنے سے انکا ر کرتے ہوئے رفعت العرعیر نے کہا تھا کہ ہم بے بس ہیں اور ہمارے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ اگر میرے گھر پر دھاوا بولا گیا تو آخری حربے کے طور پر میں اپنا قلم سپاہیوں کے چہرے پر پھینک دوں گا۔ قلم سے جنگ لڑنے والے نڈر فلسطینی شاعر‘ ادیب اور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر رفعت العرعیر‘ جو کہ غزہ کے محصور فلسطینیوں کیلئے امید کا استعارہ بنے ہوئے تھے‘ اسرائیلی فوج کے ٹارگٹڈ حملے میں اپنے خاندان کے چھ افراد سمیت شہید ہلاک کر دیے گئے۔ رفعت العرعیر کوئی عام دانشور نہیں تھے‘ وہ ایک ایسے ماہرِ تعلیم تھے جنہوں نے غزہ کے لاتعداد نوجوانوں کو اپنی داستان کی ذمہ داری سنبھالنے اور اپنے تجربات کی بنیاد پر غزہ اور فلسطین کی کہانی سنانے کی ترغیب دی۔ رفعت شمالی غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے فلسطینیوں پر اثرات کو دستاویزی شکل دے رہے تھے۔ سات اکتوبر سے اب تک 18ہزار سے زیادہ شہید کیے جانیوالے افراد میں 89صحافی اور تقریباً 8000بچے بھی شامل ہیں۔ زمینی حقائق‘ میڈیا تک پہنچنے والی اطلاعات سے کہیں زیادہ دہشت ناک ہیں۔
رفعت کا کہنا تھا کہ 2009ء میں غزہ پر اسرئیلی حملوں کے دوران میں نے فیصلہ کیا کہ اگر میں زندہ رہا تومیں اپنی زندگی فلسطین کی کہانیاں سنانے اور نوجوان آوازوں کی پرورش کیلئے وقف کر دوں گا۔ کہانی سنانا رفعت العرعیر کی مزاحمت کا طریقہ تھا۔ وہ ایک قلم کار تھے۔ ان کے پاس قلم کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسلامی یونیورسٹی غزہ کے شعبۂ انگریزی سے وابستہ رفعت نے ماسٹر ز یونیورسٹی کالج لندن اور پی ایچ ڈی کی ڈگری 2017ء میں پترا یونیورسٹی ملائیشیا سے حاصل کی تھی۔ وہ انگریزی زبان کو ایک ایسا میڈیم سمجھتے تھے جو ان کے نزدیک غزہ کے طویل محاصرے سے آزاد ہونے کا ذریعہ تھا۔ اسی میڈیم کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے ایک ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس سے اسرائیل کی باڑ اور غزہ کے فکری‘ علمی و ثقافتی ناکہ بندی کی خلاف ورزی کی۔''We Are Not Numbers‘‘ ایک غیرمنافع بخش تنظیم ہے‘جو غزہ کے مصنفین کو دنیا کے ادباء کیساتھ جوڑتی ہے‘ رفعت اس تنظیم کے بانیوں میں سے تھے۔ رفعت نوجوانوں کو تخلیقی تحریر کی تربیت دینے کیساتھ ساتھ ان کی مدد کرتے تھے کہ وہ اپنے تجربات کے بارے میں انگریزی زبان میں کہانیاں لکھیں تاکہ دنیا غزہ کے باسیوں کے مصائب سے آگاہ ہو سکے۔ انہوں نے اپنی زندگی غزہ کے لوگوں کی مشکلات‘ دکھوں کی داستان کو دستاویزی شکل دینے کیلئے وقف کر دی تھی۔ 2014ء میں Gaza Writes Backاور 2015ء میں Gaza Unsilenced کے عنوان سے غزہ کے نوجوان ادباء کی مختصر کہانیوں کو شائع کیا۔ رفعت مختلف ٹی وی شوز اور ریڈیو پروگراموں کے ذریعے‘ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اسے مغربی سامعین کے سامنے لائے جس سے عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف بدلنا شروع ہو گئی تھی‘ اسی وجہ سے اسرائیل غزہ کی اس آواز سے خوف زدہ تھا اور اسے خاموش کروانا چاہتا تھا۔
دنیا کے تیسرے گنجان خطے غزہ کا شمار دنیا کے سات قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ 365مربع کلو میٹر پر مشتمل اس علاقے کے جنوب میں مصر‘ مشرق اور شمال میں اسرائیل اور مغرب میں بحیرۂ روم واقع ہے۔ اس کی تاریخ 4000 سال پر محیط ہے۔ درحقیقت یہ کنعانی بستی تھی اور غالباً انھوں نے ہی غزہ کو اس کا نام دیا جس کا مطلب قدیم سامی زبانوں میں ''طاقت و ہمت‘‘ ہے۔ آج بھی غزہ کے باسی اسرائیلی مظالم کا مقابلہ ہمت سے کر رہے ہیں۔ وہ یہودی ریاست‘ جس کی تجویز نپولین بونا پارٹ نے پیش کی تھی‘ اس تجویز کو 41سال بعد برطانیہ نے دوبارہ دہرایا۔ مغربی طاقتوں نے مشرقِ وسطیٰ پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے 1799ء میں شروع کیے جانے والے نپولین کے گھناؤنے منصوبے کو 1948ء میں مکمل کیا۔ اس دن سے مشرقِ وسطیٰ کا امن تباہ ہو گیا ہے۔
سات اکتوبر سے اب تک اسرائیل 18ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے۔ فلسطینیوں کی اس نسل کشی کی ذمہ داری سے امریکہ اور خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن کہنے والی یورپی طاقتیں کیسے بری الذمہ ہو سکتی ہیں؟ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کردیا جبکہ جنرل اسمبلی سے 153ووٹوں سے منظور ہونیوالی قراداد کی مخالفت میں 10ممالک نے ووٹ دیا اور 23ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اسرائیل نے غزہ کی زمینی‘ سمندری اور فضائی ناکہ بندی کی ہوئی ہے۔ اب اس کا منصوبہ تھا کہ غزہ کے 20لاکھ نہتے لوگوں کو صحرائے سینا میں دھکیل دیا جائے۔ اس منصوبے کی ناکامی کے بعد اسرائیل نے وحشیانہ بمباری کر دی۔ بحیرۂ روم سے متصل پٹی المواصی جو صرف 8.5مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے‘ اس علاقے میں انسانی بنیادوں پر ایک زون بنا کر عام شہریوں کو وہاں جانے کی ہدایت کی جارہی ہے۔ فلسطینیوں کو کم سے کم جگہ پر منتقل ہونے پر مجبور کرنے کے باعث بیماریوں کیلئے سازگار ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ پہلے ہی غزہ میں صرف 36ہسپتال ہیں جن کو اسرئیل نے بمباری سے تباہ کر دیا ہے۔ زخمیوں کیلئے علاج معالجے کی کوئی سہولت موجود نہیں۔ آدھی سے زیادہ آبادی فاقہ کشی کا شکار ہے‘ 150افراد کیلئے ایک ٹوائلٹ اور 750افراد کیلئے ایک غسل خانہ موجود ہے۔ کیا مہذب دنیا کو یہ مناظرکسی بھی طرح ہٹلر کی نازی حکومت کے یہود مخالف اقدامات سے مختلف نظر آتے ہیں؟ اسرائیل کو نازی جرمنی سے مماثل قرار دینے پر مغرب کیوں تلملا اٹھتا ہے؟ حماس کے اسرائیل پر حالیہ حملے کا دفاع کرتے ہوئے جب رفعت العرعیر نے مغربی میڈیا پر اس حملے کو Warsaw Ghetto Uprising 1943 کے مترادف قرار دیا (نازی جرمنی کے زیر قبضہ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کی ایک یہودی بستی میں بسنے والوں نے سمگل شدہ ہتھیاروں کی مدد سے نازی فوجیوں کو لوگوں کو قتل کیمپوں میں لے جانے کے خلاف مزاحمت کی تھی) تو اُن کے اس بیان کو متنازع قرار دے کر عالمی میڈیا نے رفعت کو متنازع شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرتے ہوئے رفعت آنیوالے وقتی اندھیرے کو دیکھ رہے تھے‘ شاید اسی لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو امید دلاتے ہوئے یکم نومبر کو سوشل میڈیا پر ''اگر مجھے موت نے آلیا تو‘‘ نامی نظم پوسٹ کی تھی:
اگر مجھے موت نے آلیا تو/ تمہیں زندہ رہنا ہوگا/ میرا قصہ سنانے کیلئے/ میری میراث بانٹنے کیلئے/ کپڑے کا ایک ٹکڑا خریدنے کیلئے/ اور کچھ دھاگے بھی/ تم ایک پتنگ بنانا/ لمبی دم والی سفید پتنگ/ تاکہ غزہ میں کہیں کوئی بچہ/ اپنے باپ کا انتظار کرتے/ اگر آسمان کی طرف دیکھے/ اس باپ کا انتظار/ جو شعلوں میں گھیرا رخصت ہوا/ بغیر کسی کو الودع کہنے کی مہلت پائے/ اپنے گوشت پوست کے بغیر/ تاکہ وہ بچہ اگر یہ پتنگ فضا میں دیکھے/ تو ایک لمحے کو سوچے کہ جیسے کو ئی فرشتہ/ اس کے باپ کو ہمراہ لیے/ آسمان سے اب آنے کو ہے/ اگر مجھے موت نے آلیا/ تواس پتنگ کو امید بننے دینا/ ایک داستان بننے دینا۔
رفعت العرعیر کی یہ نظم نہ صرف فلسطینیوں کی بہادری‘ جذبۂ جدوجہد‘ مظلومیت کی عکاس اور فکری مزاحمت کے ایک نئے باب کا آغاز ہے بلکہ مظلوم فلسطینیوں کی ایسی درخواست ہے جو عالمی عدالتِ انصاف کے فوری توجہ کی منتظر ہے۔