گزشتہ روز رواداری کا عالمی دن غزہ کے ہسپتالوں کو اسرائیلی فوجی ٹینکوں کے ذریعے مسمار کرتے ہوئے منایا گیا۔ یہ دن 1996ء سے ہر سال عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے خطرات کے خلاف لوگوں میں آگہی پیدا کرنے کیلئے منایاجاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں کے باوجود دنیا میں برداشت و رواداری ختم ہورہی ہے۔ عالمی سطح پر 27 سال سے مسلسل رواداری کا دن منانے کے باوجود بڑھتی ہوئی عدم رواداری اور شدت پسندی کو کنٹرول نہ کرسکنے کی وجہ عالمی اداروں کے نظریے و عمل میں یکسانیت کا نہ ہو نا ہے۔غزہ میں اسرائیل کی جانب سے تمام تر عالمی قوانین کو پیروں تلے روندتے ہوئے بچوں اور نہتے شہریوں کا قتلِ عام ‘ہسپتالوں پرمسلسل بمباری ‘ جنگی جرائم اور اقوام متحد ہ کی بے عملی ‘عالمی عدالتِ انصاف ‘ اسلامی ملکوں کی تنظیم اور عالمی برادری کا مذمتی قراردادں ا و ر بیانوں سے آگے بڑھ کر اقدام نہ کرسکنا یہ سب کچھ عالمی رواداری کی کوئی مثبت مثال نہیں ہے‘ بلکہ یہ طرزِعمل مستقبل قریب و بعید میں دنیا کیلئے مزید خطرات کا باعث بنے گا۔ ''ہم ہسپتا ل میں مسلح لڑائی نہیں دیکھنا چاہتے ‘‘ کیایہ بیان دے کر خود کو واحد عالمی طاقت سمجھنے والا امریکہ‘ جس نے کیمیائی ہتھیاروں کا ڈرامہ رچا کر عراق کو تاراج کیا ‘ایران پر نیوکلیئر ہتھیار وں کی تیاری کو بہانہ بنا کر عرصہ سے معاشی پابندیاں لگا رکھی ہیں‘ اپنی عالمی ذمہ داری سے بری الذمہ ہونے میں حق بجانب ہے ؟ رواداری و برداشت صرف اخلاقی فریضہ ہی نہیں‘سیاسی و قانونی ضرورت بھی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ نے جہا ں قوموں کے درمیان فاصلوں کو کم کیا ہے وہیں انسان ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔مختلف مذاہب کو ماننے والوں ‘مختلف زبانیں بولنے والوں کے درمیان میل جول بڑھ رہا ہے لیکن اخوت کم ہو رہی ہے ۔ منفی معاشرتی رویوں کو ختم کرنے کیلئے عالمی و ملکی سطح پر باقاعدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ تعلیمی شعبے میں اصلاحات اور شرح خواندگی میں اضافے کیلئے مزید بہتر اقدامات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہر ملک کے مذہبی و سیاسی رہنما عدم رواداری کے خاتمے کیلئے کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ عوام اپنے راہنماؤں کی طرف دیکھتے ہیں‘ انکا اثر قبول کرتے اور انکے نقش ِقدم پر چلتے ہیں۔ اختلاف کا احترام کرتے ہوئے ایک ایسی فضا بنائی جاسکتی ہے جہاں ہرایک تعصب و تضحیک کے خوف کے بغیر اپنی مذہبی رسومات اداکر سکے۔ رواداری قائم کرنا ایک بنیادی حق سمجھا جاتا ہے ‘اس پر عمل کرنے کی توقع صرف افراد سے نہیں بلکہ ریاستوں سے بھی کی جانی چاہیے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں برداشت اور رواداری کے حوالے سے احکامات موجود ہیں ‘تمام مکاتبِ فکر کا بنیادی فلسفہ بھی برداشت ہی ہے‘لیکن ان زریں احکامات پر عمل عالمی معاشرے میں ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
پاکستان کو گزشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کے رویے کی جھلک سیاسی رہنماؤں سے لے کر عام آدمی تک ہر ایک میں دیکھی جا رہی ہے یہ ایک خطرناک علامت ہے۔ لوگوں کے رویوں میں عدم رواداری اور شدت پسندی میں اضافے کی وجوہ میں ناانصافی‘اقرباپروری ‘بے روز گاری ‘ناخواندگی ‘میرٹ کا استحصال ‘ غربت ‘مہنگائی اور معاشی عدم استحکام شامل ہیں۔عدم تحفظ کی فضا میں جب لوگ معاشی مسائل کا بھی شکار ہو جائیں تو ایسے میں عدم رواداری کا رویہ مزید تقویت پکڑتا ہے۔صبر و تحمل کی کمی کا خمیازہ ہم شدت پسندی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ یہ رویے ہمارے معاشرتی خدوخال کو مسخ کر رہے ہیں۔ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا پر پرُ تشدد موادکی موجودگی اورآن لائن گیمز ز بچوں اور نوجوانوں پرمنفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔روزمرہ کی زندگی میں یہ منفی اثرات اب مزید نمایاں ہورہے ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پیش آنے والے حالات انسانی رویوں پر اثرانداز ہوتے ہیں ‘مختلف ذہنی و نفسیاتی بیماریوں میں اضافے کی بڑی وجہ بھی عدم برداشت ہے۔ ملک کے سیاسی اکابرین کو مل بیٹھ کرسوچنا ہو گا کہ معاشرے میں درآنے والے اس بگاڑ کو کیسے درست کیاجائے اور اختلاف کا احترام اور مکالمے کا فروغ کس طرح ہو؟ رائے کے اختلاف کو قبول کرنے سے ہی معاشرہ بقائے باہمی کے اصول پر آگے بڑھ سکتا ہے ۔ تحمل ‘برداشت‘ بردباری اور رواداری ان اخلاقی صفات میں سے ہیں جو فرد اور اقوام کیلئے اجتماعی طور پراستحکام و ترقی کا زینہ ہے۔
رواداری اور احترام کا رویہ اسلامی تعلیمات کا جزوِلاینفک ہے۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر برداشت و روادری کے حوالے سے احکامات موجود ہیں: ''دین کے معاملے میں کوئی زور و زبردستی نہیں ‘‘ (البقرہ 256)۔اسی طرح سورہ یونس کی آیت 99 میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ''اگر تیرے رب کی مشیت یہ ہوتی تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔‘‘ سورہ الاسرا میں رب کریم فرماتے ہیں کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی‘(70)۔یہ چند مثالیں ہیں کہ مذہب اسلام کس طرح تنوع و اختلاف کو قبول کرتے ہوئے احترام انسانیت و عفوو درگزر کا حکم دیتا ہے۔ دنیا بے شمار مذہبی عقائد کا گھر ہے‘ پُرامن بقائے باہمی کیلئے مختلف عقائد کے تئیں رواداری ضروری ہے۔رواداری کا جدید تصور صدیوں کی مذہبی جنگوں کے نتیجے میں روشن خیالی میں ابھرا۔سترہویں صدی کے انگریز فلسفی جان لاک A Letter Concerning Toleration (1689)نے مذہبی روداری پر جدید مباحث کی بنیاد رکھی۔لاک کے ان جدید مباحث کو فرانسیسی مفکر Voltaire نے اپنی تحریر:Treatise on Toleranceمیں مذہبی آزادی کا دفاع اور روشن خیال معاشرے کا تصور پیش کیا۔ عدم برداشت اکثر لاعلمی ‘خوف‘یا غلط معلومات سے جنم لیتی ہے۔
سیاسی رہنمارواداری کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔وہ رہنما جو تنوع ‘شمولیت اور سفارت کا ری پر زور دیتے ہیں وہ اپنے معاشروں کیلئے مثبت مثال قائم کر تے ہیں ۔اسکے برعکس سیاسی مفادات کیلئے اختلافات کا فائدہ اٹھانے والے رہنما تناؤ اور عدم برداشت کو بڑھاوا دے کر معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔تعلیم رواداری پیدا کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ ہے ‘کثیر الثقافتی نصاب کو شامل کرنا‘ہمددری کی تعلیم دینااور تنقیدی سوچ کی مہارتوں کو فروغ دینا آنے والی نسلوں کو متنوع اور باہم جڑی ہوئی دنیا کی سمت شناسی کیلئے درکار ذہنیت سے آراستہ کرسکتا ہے۔ ہائی ٹیک سماجی روابط جہاں اصولِ اشتراک کی بنیاد پر انسانوں کیلئے سیکھنے اور سمجھنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں وہیں مختلف معاشروں کے مابین ثقافتی رچاؤ کو بھی تحرک دیتے ہیں۔ ثقافتی رچاؤ نے دنیا کے تقریباً سبھی معاشروں کو متاثر کیاہے ۔ اس کا ایک اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ مختلف خطوں میں بسنے والے انسان اپنے باہمی تعلقات میں رواداری کے شعار کو اپنائیں تاکہ اپنے نظریے اور مؤقف پر کاربند رہتے ہوئے وہ اپنے تنازعات کو پُرامن طور پر حل کر سکیں۔
کرہ ٔارض پر رہنے والے انسان‘ جنہیں اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے‘کے اپنے پیداکردہ مسائل کا حل رواداری میں ہے۔ اکیسویں صدی سائنس و ٹیکنالوجی کی صدی کہلانے کے باوجود ابھی تک انسان کرہ ٔارض میں موجود معدنیات و ذخائر اور اس میں سمائے کئی رازوں سے ناواقف ہے۔کائنات بہت وسیع ہے کئی سولر سسٹم اور کہکشائیں انسانی کی رسائی کی منتظر ہیں‘ اس طرف کا سفر اورخدائی کرشمات کو دیکھنے ‘ سمجھنے اور مستفید ہونے کیلئے ضروری ہے کہ لاکھ اختلاف کے باوجود نسلوں کی درست تربیت کی جائے تاکہ انسان اپنی نسل سے زندگی چھیننے والے رویوں کے مستقل اور پائیدار حل پر اپنی توانائیاں صرف کرے‘ جس کے لیے رواداری کا ہونا ضروری ہے جو کہ جامد تصور نہیں بلکہ جاری عمل ہے۔