کپاس کے پھول سے ٹیکسٹائل کی صنعت تک

سخت سردی میں بجلی اور گیس کی طویل لوڈشیڈنگ اور اشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے دوران مثبت خبر کے طور پر پاکستان ادارۂ شماریات کی ایک رپورٹ سامنے آئی۔ اس رپورٹ کے مطابق دسمبر 2023ء میں ملک کی برآمدات کی آمدن دو ارب 83 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی جو کہ 2022ء کے اسی مہینے کے مقابلے میں تقریباً 22فیصد زیادہ ہے۔ مجموعی برآمدی قدر میں اضافہ زیادہ تر ٹیکسٹائل سیکٹر میں نیم تیار شدہ اشیا کی وجہ سے ہوا جبکہ ویلیو ایڈڈ گارمنٹس کی برآمد منفی رہی۔ وادیٔ سندھ میں کپاس کی کاشت اور اس سے کپڑا تیار کرنے کا فن صدیوں پرانا ہے۔ قدیم ہڑپہ ثقافت برصغیر پاک و ہند کی قدیم ترین شہری ثقافت تھی۔ یہاں نہ صرف کاٹن کا کپڑا تیار کیا جاتا تھا بلکہ اسے نامیاتی رنگوں سے رنگا اور بلاک پرنٹنگ کے ذریعے اس پر مختلف ڈئزائن بنائے جاتے تھے۔ یہ فن پاکستان کا ورثہ ہے۔ ایک طویل عرصے تک عالمی مارکیٹ میں پاکستان میں تیار کردہ کاٹن کا کپڑا ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اس وقت بھی پاکستان دنیا میں کپاس کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے مگر ٹیکسٹائل کے بڑے برآمدی ممالک میں شامل نہیں۔ دنیا میں ٹیکسٹائل مارکیٹ کا حجم تقریباً دس کھرب ڈالر ہے جس میں سے چین 266ارب ڈالر کیساتھ پہلے نمبر ہے۔ بنگلہ دیش کپاس کی پیداوار میں چالیسویں نمبر پر ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل میں 39ارب ڈالر کی برآمدات کیساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ 2022ء میں یورپی یونین کو گارمنٹس برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بنگلہ دیش تھا۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل سیکٹر سب سے بڑا صنعتی شعبہ ہے جس کیساتھ ملک کی کل صنعتی لیبر کا تقریباً 40فیصد منسلک ہے۔ افسوس کہ ملک کی کل ٹیکسٹائل ملز میں سے آدھی بند پڑی ہیں۔ اس سیکٹر میں تنزلی کی کئی وجوہات میں سے ایک ملکی سطح پر کپاس کی پیداوار میں مسلسل کمی بھی ہے۔ 1997ء میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ 32لاکھ ہیکٹر تھا۔ زیر کاشت رقبے میں کمی کے باوجود 2010ء تک کپاس کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھیں تھی۔ 2021ء میں کپاس کا زیر کاشت رقبہ کم ہو کر 22لاکھ ہیکٹر اور پیداوار صرف 74لاکھ گانٹھیں رہ گئی ہے۔ ٹیکسٹائل صنعت کو اپنی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ایک کروڑ 60لاکھ گانٹھوں کی ضرورت ہوتی ہے اس ضرورت کا نصف ہی اب پاکستان میں پیدا ہو رہا ہے جبکہ کپاس اور اس سے وابستہ دوسرا خام مال برآمد کرنا پڑتا ہے۔ در اصل کمزور ملکی معیشت‘ توانائی کا بحران‘ شرحِ سود میں اضافہ‘ قومی کرنسی کی قدر میں کمی‘ دو ہندسوں کی افراطِ زر‘ پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث ہے۔ ان مشکلات کے سبب ہی ٹیکسٹائل سیکٹر ویتنام‘ انڈیا‘ بنگلہ دیش اور چین کیساتھ مقابلہ نہیں کر پا رہا۔ انفراسٹرکچر‘ ٹیکنالوجی‘ جدید ترین مشینری اور ہنر مند افرادی قوت کی کمی بھی اس شعبے کی ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ ان تکنیکی مسائل کے علاوہ سیاسی عدم استحکام‘ پالیسیوں کا عدم تسلسل‘ امن و امان کی خراب صورتحال اور بین الاقوامی خریداروں کے درمیان پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی ساکھ جیسے عوامل مارکیٹ شیئر میں تشویشناک کمی کے موجد ہیں۔ توانائی کا بحران‘ درآمدی پالیسی میں عدم تسلسل اورکپاس کی ناکافی سپلائی نے صنعت کے کام کرنے اور ترسیل کی ٹائم لائنزکو پورا کرنے اور سپلائی چین کو موثر طریقے سے منظم کرنے کی صلاحیت کو متاثر کیا ہے۔ نتیجتاً ٹیکسٹائل سیکٹر میں فیکٹریوں کا بند ہونا ایک معمول بن گیا ہے۔ یہ مسائل سرمایہ کاروں اور غیرملکی خریداروں کو خطے کے دیگر ممالک کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی خریداری و سرمایہ کاری کی طر ف راغب کر رہے ہیں۔ اگر ان رکاوٹوں کو ختم کرنے اور سازگار ماحول فراہم کر نے کیلئے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں تو ٹیکسٹائل سیکٹر میں توسیع کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے۔
یوکرین جنگ سے پیدا ہونیوالی عالمی معاشی سست روی اور توانائی کے اخراجات میں اضافے کے درمیان پاکستان میں بھی صنعتی مینوفیکچرنگ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ رکھنے کیلئے حکومتی فیصلے نے ٹیکسٹائل کی صنعت کو بیرونِ ملک سے خام مال کی فراہمی میں مشکلات پیدا کیں۔ خام مال اور مشینری پر مشتمل ہزاروں کنٹینرز بن قاسم پورٹ پر مہینوں تک رکے رہے۔ پاکستان میں نئی ٹیکسٹائل مصنوعات تیار کرنے کیلئے تحقیقاتی اداروں اور صنعتی شعبے کے درمیان موثر روابط کا فقدان ہے۔ کاٹن سیکٹر میں ریسرچ کی کمی کے باعث کپاس پیدا کرنے والے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں یہاں کی کپاس کا معیار کم ہے۔ یہاں کسانوں کو اچھا بیج دستیاب نہیں ہے اور باہر سے اچھا بیج درآمد کرنے کی انہیں اجازت نہیں دی جاتی۔ خراب بیج سے کپاس کے کمزور پودے پر کم پھول آنے کی وجہ سے فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہوتی ہے۔ کپاس کی فصل کا بیماریوں اور مختلف کیڑوں کے حملوں سے بچاؤ کا پائیدار حل ہمارے زرعی ماہرین کسانوں کو دینے سے قاصر ہیں۔ کم منافع نے جہاں کسانوں کو دیگر نقد فصلوں کی طرف منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے وہیں حکومتوں سے منسلک لوگوں نے ان علاقوں میں‘ جہاں کپاس کاشت کی جاتی تھی‘ شوگر ملیں لگا لی ہیں۔
آج کے انتہائی مسابقتی ماحول میں ٹیکسٹائل کے شعبے کو زندہ رہنے کیلئے حکومتی سطح پر سپلائی چین کو بہتر بنانے‘ پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ ویلیو ایڈیشن کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان روایتی طور پر اپنے معیاری گھریلو ٹیکسٹائل کیلئے جانا جاتا ہے تاہم نئی منڈیوں کی تلاش اور ان میں جگہ بنانے کیلئے صارفین کی طلب اور بین الاقوامی رجحانات کے مطابق انڈسٹریز کو ڈھالنے اور جدت کو اپناتے ہوئے تکنیکی اپ گریڈیشن‘ موثر وسائل کے انتظام اور تحقیق میں سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ قدرتی سے انسانی ساختہ ریشوں کی طرف عالمی سطح پر تبدیلی ایک نا قابلِ تردید حقیقت ہے جسے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے اپنانا تو دور‘ تسلیم تک نہیں کیا۔ یہ حقیقت تحقیق اور ترقی کے ایک ایسے آلے کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتی ہے جو صنعت کی جدت پر مبنی پائیدار ٹیکسٹائل ماڈل کی طرف رہنمائی کر سکے۔ اس شعبے کی مصنوعات میں جدت و تنوع لاکر ہی عالمی مارکیٹ میں اپنا حصہ بڑھا یا جا سکتا ہے۔ ملک کی کل ٹیکسٹائل کمپنیوں میں سے صرف پانچ فیصد سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ 423ٹیکسٹائل انڈسٹریز‘ 442سپننگ ملز‘ 1280جننگ یونٹس‘ 2550گارمنٹس مینوفیکچرنگ کمپنیاں اور 600نٹ وئیر تیار کرنے والے یونٹ ہیں۔ پاکستان کے اس شعبے میں اتنی صلاحیت ہے کہ یہ مصنوعی اور قدرتی یارن کپڑے کی سپلائی کر سکتا ہے۔ یہ سیکٹر بڑے عرصے سے ملکی معیشت کا اہم ستون رہا ہے۔ شہری روزگار اور برآمدی آمدنی میں اس کا حصہ زیادہ رہا ہے۔ ادارۂ شماریات کی حالیہ رپورٹ اس امر کی دلیل ہے۔ مشکل کاروباری ماحول سرمایہ کاری کو روکتا ہے۔ مارکیٹ پر حکومتی گرفت‘ ٹیکس تحریف بھی پیداواری سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ پیداواری اثاثوں کی فروخت میں تیزی لانے یا غیرملکی سرمایہ کاری کے سودوں کو منتخب طور پر راغب کرنے سے مختصر مدت میں غیرملکی زرِمبادلہ کے ذخائر تو بڑھ سکتے ہیں لیکن مستقل بنیادوں پر ملکی معیشت کو مضبوط کر نے کیلئے گرتی ہوئی پیداواری ترقی اور کم سرمایہ کاری کے پس منظر میں موجود بنیادی مسائل کو فوری طور پر حل کرنا ناگزیرہے۔ سرخ فیتے کی رکاوٹ کو شعوری طور پر سختی سے ختم کر تے ہوئے‘ مسابقت کا ماحول فراہم کرنا اور پالیسی میں تسلسل کو اپنانا ہو گا۔ عالمی مارکیٹ میں مقابلہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہر آنے والی حکومت پالیسیوں کو یکسر بدلنے کے بجائے ان پر صحیح معنوں میں عمل درآمد کو ممکن بنائے۔ اس سلسلے میں زمینی حقائق اور عالمی رجحانات کو سامنے رکھ کر صنعتی پالیسی کو نہ صرف کم از کم دس سالہ منصوبے کے طور پر تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے بلکہ ان پالیسیوں کو تیار کرتے وقت تمام سٹیک ہولڈرز‘ ریسرچ انسٹیٹیوٹس‘ تھنک ٹینکس کے اِن پٹ کو بھی یقینی بنانا ہو گا۔ تبھی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں