لہو لہان غزہ

کرسمس کی رات غزہ کے باسیوں کے لیے گزشتہ دو مہینوں میں سب سے ہولناک رات تھی جس میں اسرائیل نے 2000پاؤنڈ بھاری بم برسائے۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر اور ہلالِ احمر کی عمارت کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اسرئیلی فورسز نے بیت اللحم سمیت مغربی کنارے کے متعدد قصبوں اور جنین پناہ گزین کیمپ پر حملے کیے۔ بیت اللحم (ایک روایت کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیت اللحم میں پیدا ہوئے تھے) میں کرسمس کی تقریبا ت منسوخ کردی گئیں اور کرسمس کے موقع پر معمول کی تقریبات کے بجائے غزہ میں امن کے لیے شمعیں روشن کی گئیں۔ غزہ میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فلسطینی قیدیوں کی تصاویر مہذب دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں جبکہ غزہ میں جاری اسرائیل کی بمباری سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 21ہزار سے متجاوز ہو گئی ہے۔ اس سب جارحیت کے باوجود سلامتی کونسل سے منظور ہونے والی قرارداد میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہ ہونا عالمی بے بسی ہی تو ہے۔ اسرائیل کی یہ ہٹ دھرمی‘ انسانی حقوق کی پامالی‘ جنگی جرائم کا ارتکاب امریکی پشت پناہی کے سبب ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے امریکہ کو سفارتی سطح پر تنہا کر دیا اور بطور سپرپاور اس کا اخلاقی بھرم توڑ دیا ہے۔ امن کیلئے نتین یاہو نے تین شرائط پیش کی ہیں: اول حماس کا مکمل خاتمہ‘ دوم: غزہ کی پٹی کو مکمل طور پر غیر مسلح کرنا‘ سوم: فلسطینی معاشر ے کا خاتمہ۔ ان شرائط سے اسرائیل کے عزائم ظاہر ہیں۔
دوسری جانب امریکی اسلحے کا وہ ذخیرہ‘ جو اس نے 1980ء کی دہائی سے مشرقِ وسطیٰ میں کسی بھی غیرمعمولی صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے اسرائیل کے گوداموں میں رکھا ہوا ہے‘ اس ذخیرے سے اسرائیل بھی مختلف ادوار میں اسلحہ استعمال کرتا رہا ہے۔ اسلحے کے اس ذخیرے کو وار ریزرو سٹاکس فار الائیز-اسرائیل (WRSA-I) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سٹاک سے اسرائیل بے حساب اسلحہ‘ گولا بارود بغیر کسی پیشگی قانونی اجازت کے غزہ پر گرا رہا ہے۔ WRSA-I کے ذخیرے سے اسرائیل نے تین ہزار پاؤنڈ وزنی بم جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر گرائے ہیں۔ ان پناہ گزین کیمپوں پر حملوں کی وجہ غزہ کی آبادی کو زبردستی یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کرنا ہے تاکہ اسرائیل غزہ پر قابض ہو سکے۔ اسرائیل کی مدد کیلئے امریکہ نے عراق میں مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے ہیں تاکہ عراق سے غزہ کے مظلوم انسانوں کی مدد کے بارے میں آواز اٹھنا تو دور کی بات کوئی اس بارے میں سوچے بھی نہیں۔ اپنے ہدف کے حصول کیلئے اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے‘ اُردن‘ لبنان اور شام پر بھی مسلسل حملے کر رہا ہے۔ اسرائیل کے اس جنگی جنون سے لبنان‘ اُردن اور مصر کو دس ارب ڈالر کی معاشی قیمت چکانا پڑی ہے اور ان تینوں ملکوں میں مزید دو لاکھ 30ہزار افراد غربت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99کو استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل کو خط تحریر کیا کہ غزہ میں جاری جنگ‘ مغربی کنارے‘ لبنان‘ شام‘ عراق اور یمن میں بڑھتے تنازعات عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق نتین یاہو کی حکومت نے کہا کہ انتونیوگوتریس حماس کو بچانے کیلئے جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں‘ اس لیے وہ عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں۔
زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کیلئے اسرائیل نے ان سرنگوں میں سمندری پانی پمپ کرنے کے منصوبے پر عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اس منصوبے کے مستقبل میں خطے کے قدرتی ماحول پر بے پناہ خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔ ماہرینِ ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ غزہ کو زیر زمین پینے کے قابل پانی سے محروم کر دے گا اور 141مربع کلومیٹر کے علاقے میں جو تھوڑی بہت زراعت ممکن ہے‘ وہ بالکل ناممکن ہو جائے گی۔ در حقیقت یہ منصوبہ نسل کشی کے جرم کے عناصر میں سے ایک ہے۔ دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاج اور اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم جاری ہے۔ بائیکاٹ مہم اور جنگی اخراجات سے اسرئیل کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے‘ اس مہم کا دائرہ وسیع کرنے سے اسرائیل کی معیشت کی کمزوری میں تیزی آئے گی جو اسے جنگ بند کرنے اور خطے میں دو ریاستی منصوبے پر عمل درآمد کیلئے رضامند کر سکتی ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے غیرقانونی بستیوں کی تعمیر اور آباد کاری کیلئے امریکہ‘ کینیڈا اور مختلف یورپی ممالک میں فنڈ ریزنگ کیلئے مہمات چلانے کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا ہے کہ نیم فوجی گروپوں‘ یونٹوں اور آباد کاروں کو مغربی کنارے میں غیرقانونی طور پر آباد کرنے کیلئے لاکھوں ڈالر عطیہ کیا جاتا ہے۔ کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارم‘ جو غیرمنافع بخش اداروں اور بین الاقومی نیٹ ورک سے منسلک ہے‘ یہ مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری کیلئے فنڈز اکٹھے کرتا ہے۔ کراؤڈ فنڈنگ سائٹ اسرائیل گوز (Crowdfunding site IsraelGives) نامی پلیٹ فارم نے حالیہ اسرائیل حماس تنازع کے بعد سے مغربی کنارے کی غیرقانونی بستیوں‘ نیم فوجی گروپوں اور اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے یونٹس جو اس وقت غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں نہتے فلسطینیوں کو مار رہے ہیں‘ کیلئے فنڈ ریزنگ مہم سے لاکھوں ڈالر جمع کیے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ اسرائیل کو عطیہ کرنے والوں پر شاذو نادر ہی امریکی ٹیکس قوانین کا نفاذ ہوتا ہے۔ امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘ یورپی یونین اور آسٹریلیا اسرائیلی غیرمنافع بخش اداروں کو عطیات پر اپنے شہریوں کو ٹیکس سے استثنا دیتے ہیں۔
بین الاقوامی برادری مغربی کنارے کی یہودی بستیوں کو غیرقانونی سمجھتی ہے لیکن نیتن یاہو حکومت نے جون میں مقبوضہ علاقوں میں تعمیر کو بڑھانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ ان فنڈ ریزنگ مہمات میں سات اکتوبر سے اب تک نیم فوجی دستوں اور آبادکاروں کیلئے 5.3ملین ڈالر عطیات جمع کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب غزہ میں اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے حملوں کی وجہ سے عام شہریوں اور معصوم بچوں کی ہلاکتوں کے باعث انسانی بحران سنگین تر ہو گیا ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے کی ان غیرقانونی بستیوں کے احاطے میں کھڑے ایک ٹرک میں 80فلسطینیوں کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ دوغلے پن کی انتہا تو یہ ہے کہ تمام تر عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی اور غیرقانونی بستیوں کی مالی اعانت کے باوجود دہشت گرد وہ ہیں جو اپنے ہی وطن میں پناہ گزین بنا دیے گئے ہیں۔ دہشت گرد وہ ہیں جو زندہ رہنے کا حق مانگ رہے ہیں۔ دہشت گرد وہ ہیں جو مظلوم انسانوں کی مدد کرنے اور جارح اسرائیل کو جارحیت سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ بہادر اسرائیلی ظلم کو روکنے کے بجائے حوثی ملیشیا کو بحیرۂ احمر میں کارروائیوں سے روکنے کیلئے اتحاد بنا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنی کرپشن اور ملکی سیاست میں اپنی کمزور پوزیشن کو چھپانے کے لیے جنگ کو طول دے رہااور فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ امریکہ کو امن کے قیام میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کے بنیادی مقاصد میں ایک اہم نکتہ تنازعات کو روکنا اور ان کے سفارتی حل میں سہولت فراہم کرتے ہوئے زیادہ مستحکم اور محفوظ دنیا بنانا ہے لیکن اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کی جانے والی قرار داد پر کئی دنوں تک ووٹنگ مؤخر ہوتے رہنا اور قرار داد کے متن پر طویل بحث کے بعد جب قرار داد منظور کی گئی تو بیشتر ممالک کی خواہش کے باوجود اس میں فوری و غیرمشروط جنگ بندی کے مطالبے کے شامل نہ ہونے سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ اقوام متحدہ بڑی طاقتوں کے سامنے بے بس ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں