کوپ 28 سربراہی اجلاس کا اعلامیہ: سنگِ میل یا سراب

اقوامِ متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کے فیصلہ ساز پلیٹ فارم ''کانفرنس آف پارٹیز (کوپ)‘‘ کا قیام 1994ء میں ہوا۔ یہ کنونشن کرۂ ارض کے ماحولیاتی نظام کیساتھ خطرناک انسانی مداخلت کی روک تھام کیلئے بنایا گیا تھا۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا باعث بننے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کیساتھ کرۂ ارض کا درجہ حرارت کم کرنے کیلئے اقدامات کرنے تھے۔ کوپ کا پہلا اجلاس 1995ء میں برلن میں منعقد کیا گیا۔ دنیا کے تقریباً سبھی ممالک فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کے رکن ہیں۔ 2015ء میں پیرس میں منعقد ہونیوالے پلیٹ فارم کے 21ویں اجلاس کو ایک تاریخی اجلاس مانا جاتا ہے جس کے دوران پیرس معاہدہ طے پایا تھا۔ پیرس معاہدہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے والا ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس پر دنیا بھر کے ممالک کو عملدرآمد کرنا لازمی ہے۔ معاہدے کے تحت 2050ء تک کرۂ ارض کا درجہ حرارت دو ڈگری سیلسیس سے زائد نہ ہو اور ترجیحی طور پر درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے کیلئے اقدام کیے جائیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا چیلنج صرف ایک مسئلہ نہیں بلکہ ماحولیات کا تحفظ عالمی قیادت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
کوپ 28سربراہی اجلاس رواں سال دبئی میں 30نومبر سے 12دسمبر تک جاری رہا۔ اجلاس کے اختتام پر جاری کیا جانیوالا اعلامیہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک اور اداروں کیلئے حوصلہ افزا نہیں تھا۔ کوپ 28سال بھر کے دوران شدید موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والی آفات کے بعد منعقد کی گئی تھی اور یہ امید کی جا رہی تھی کہ عالمی رہنما سرمایہ دارانہ سوچ سے بلندتر ہوکر کرۂ ارض پر زندگی کے مستقبل کو بہتر اور محفوظ بنانے کیلئے معدنی ایندھن کے استعمال کے مرحلہ وار خاتمہ کے روڈ میپ پر متفق ہو جائیں گے اور اعلامیے میں معدنی ایندھن کے استعمال کے مرحلہ وار خاتمے کا مطالبہ کیا جائے گا لیکن اس کے برعکس اعلامیہ میں توانائی کے قابلِ تجدید ذرائع کی جانب منتقلی پر زور دیا گیا۔ دبئی اجلاس کے دوران آئل پروڈیوسنگ کمپنیوں کیلئے لابنگ کرنے والی 2400سے زیادہ فرمز کی موجودگی نے شکوک کو جنم دیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ معدنی ایندھن کے استعمال سے ہی ایسی موسمیاتی تبدیلیاں ہورہی ہیں جو سمندری طوفانوں اور تباہ کن قدرتی آفات کا سبب ہیں۔ عالمی حدت ریکارڈ بلندیوں کو چھو رہی ہے اور موسمی شدت کے واقعات دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود جنگلات کی بحالی کو کوپ28 کے اعلامیے میں نظر انداز کرنا افسوس ناک و مایوس کن ہے۔
گلوبل ساؤتھ کو قابلِ تجدید توانائی پر منتقلی میں متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ آب و ہوا اس بات کی پروا نہیں کرتی کہ کون گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کر رہا ہے اور گلوبل ساؤتھ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ ایسے میں صرف ایک ہی قابلِ عمل راستہ ہے کہ تقریباً تمام معدنی ایندھن کے استعمال کو جلد از جلد ختم کیا جائے۔ کوپ 28 کے کمزور اعلامیے کے باوجود کیا ہم یقین کر سکتے ہیں کہ اس کمزور معاہدے پر عمل اور قابلِ تجدید توانائی کی طرف منتقلی کیلئے ترقی یافتہ اور اوپیک ممالک اپنے عزم کو عملی جامہ پہنا پائیں گے؟ ہمیں تاریخ کا مطالعہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔ 1992ء سے کلائمیٹ چینج کے حوالے سے تشویش اور گفتگو کا آغاز ہوا‘ تب سے اب تک پانچ اہم ترین فیصلے کیے گئے ہیں لیکن ان فیصلوں کے بعد کیا ہوا... 1997ء میں کوپ 3 سمٹ جاپان کے شہر کیوٹو میں منعقد ہوا۔ 1997ء کا سال 20ویں صدی میں ریکارڈ کیے گئے گرم ترین سالوں میں سے ایک تھا۔ کیوٹو میں کوپ 3سمٹ میں طے پانے والا معاہدہ کیوٹو پروٹوکول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے نے دنیا بھر میں گرین ہاؤس گیسوں کا زیادہ اخراج کرنے والے 41 ممالک اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 1990ء کی سطح کے مقا بلے میں پانچ فیصد سے کچھ زیادہ کمی کریں۔ کیوٹو پروٹوکال پر عمل درآمد کیلئے بالآخر 2005ء میں اتفاق کیا گیا۔ امریکہ اور چین نے اس پروٹوکال پر دستخط نہیں کیے تھے۔ وعدوں پر قائم رہنے اور عمل کے معاملے میں کیوٹو پروٹوکال کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بعد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں بہت زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا لیکن کیوٹو سمٹ کو اب بھی موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں ایک تاریخی لمحہ سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ پہلی بار تھا کہ اتنے سارے ممالک نے اس مسئلے کو تسلیم کیا اور اسے حل کرنے کا عہد کیا تھا۔ 2009ء کوپن ہیگن ڈنمارک میں کوپ کے سربراہی اجلاس میں صاف توانائی کی طرف منتقلی کیلئے امیر ممالک نے فنڈز فراہم کرنے کا عندیہ دیا‘ ہنوز یہ وعدہ بھی وفا نہیں ہو سکا۔ 2015ء میں پیرس فرانس میں کوپ سربراہی اجلاس کے دوران طے پانیوالے معاہدے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو اجتماعی طورپر کم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ پیرس معاہدے کو وسیع پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں اقوامِ متحدہ کی واحد سب سے بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ 2021ء گلاسگو برطانیہ میں کوپ سمٹ کے حتمی اعلامیے کے الفاظ پر آخری لمحات میں اختلاف کے بعد کوئلے کے استعمال کو ختم کرنے کے بجائے کوئلے کے استعمال میں کمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔ کوئلے کو جلانا کسی بھی دوسرے معدنی ایندھن سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔ اب تک کوپ کے رُکن ممالک گلاسگو ڈیل کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایشیا کی دو بڑی معیشتیں انڈیا اور چین کوئلے پر انحصار کرتی ہیں۔ انڈیا 70فیصد سے زیادہ بجلی کی پیداوار کیلئے کوئلے پر انحصار کرتا ہے اور کوئلے کی بنیاد پر بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں توسیع کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔
گزشتہ سال شرح الشیخ مصر میں کوپ 27سربراہی اجلاس کے دوران ممبر ممالک نے پہلی بار ایک فنڈ قائم کرنے پراتفاق کیا تاکہ غریب ممالک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث آنیوالی آفات کے سبب ہونیوالے نقصانات کا کسی حد تک ازالہ کیا جا سکے۔ مذکورہ فنڈ کیسا ہونا چاہیے‘ اس بارے میں اختلافِ رائے کے بعد اس سال دبئی میں منعقد سربراہی اجلاس کے پہلے روز باضابطہ طورپر فنڈ قائم کیا گیا اور 700ملین ڈالر اس فنڈ میں دینے کے وعدے کیے گئے۔ دبئی سربراہی اجلاس کے ابتدائی چار روز کے دوران عالمی مالیاتی اداروں اور امیر ملکوں کی جانب سے کل 57ارب ڈالر دینے کے وعدے کیے گئے جس میں نقصانات کے فنڈ کیلئے 725ملین ڈالر‘ 3.5ارب ڈالر گرین کلائمیٹ‘ صحت کیلئے 2.5ارب ڈالر‘ بحالی کیلئے 1.2ارب اور میتھن کے اخراج کو کم کرنے کیلئے 1.2ارب اور 467ملین ڈالر شہروں کی آب و ہوا کو بہتر بنانے کیلئے رکھے گئے ہیں۔ موسمیاتی آفات سے متاثرہ ممالک کو اس فنڈ سے رقم گرانٹ کی صورت نہیں بلکہ قرض کے طور پر دی جائے گی‘ یہ گرانٹ غریب ممالک کو مزید قرض کی دلدل میں پھنسانے کا سبب بن سکتی ہے۔
تاریخی طور پر یہ وہ پانچ بڑے وعدے ہیں جو آج بھی عملدرآمد کے منتظر ہیں۔ دنیا دہائیوں سے جانتی ہے کہ معدنی ایندھن گلوبل وارمنگ کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ یہ تسلیم کرنے کے باوجود کرۂ ارض کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کیلئے معدنی ایندھن کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنا ضروری ہے۔ عالمی رہنما ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ایسے میں کوپ 28 کا کمزور اعلامیہ کس حد تک معدنی ایندھن کے استعمال کے بجائے قابلِ تجدید توانائی کی جانب منتقلی میں کامیاب ہوگا‘ یہ سنگِ میل سے زیادہ سراب لگتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں