حالیہ عام انتخابات میں اسمبلی کی چھ سو نشستوں میں سے 121نشستوں پر خواتین کو اولیت دینے والا‘ سیاسی طور پر مستحکم جمہوریہ ترکیہ دفاع‘ توانائی اور Automotive industry کے اہم شعبہ جات میں تکنیکی اختراعات کی راہ ہموار کرتے ہوئے تیزی سے صنعتی ترقی کر رہا ہے۔ آج ترکیہ دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔ سرکاری ائیرلائن مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سر فہرست ائیرلائن ہے۔ سیاحت کے حوالے سے دیکھیں تو 2022ء میں ترکیہ دنیا کا چوتھا ملک تھا جہاں بڑی تعداد میں سیاحت کیلئے سیاح آئے۔ 2019ء میں اس نے اپنی پہلی الیکٹرانک کار Toggمتعارف کروائی جو ہائی ٹیک میں ملکی ترقی کی علامت کے طور پہچانی جاتی ہے۔ بغیر پائلٹ کے جہاز (UAVs) اور جنگی جہاز (UCAVs) کی کامیاب تیاری اور برآمد کے ذریعے انسدادِ دہشت گردی کے جدید اقدامات اور ٹیکنالوجی میں خود مختار ہونے میں یہ برادر ملک مثالی پیش رفت کر چکا ہے۔ گزشتہ دودہائیوں میں جمہوریہ ترکیہ اپنے دفاعی شعبے میں غیرملکی انحصار کو 80فیصد سے کم کر کے 20فیصد تک لانے کے ساتھ اسلحے کا بڑا برآمد کنندہ بن گیا ہے‘ جس کی واضح مثال نہ صرف ترکیہ کے Bayraktarڈرونز کا یوکرین جنگ میں بہت کارگر ثابت ہونا ہے بلکہ اس کے جنگی ڈرونز کے خریداروں میں یوکرین کے علاوہ آذربائیجان‘ پولینڈ اور عرب امارات کا شامل ہونا بھی ہے۔ 2018ء میں اپنے خلائی مشن کا آغاز کرنے والا ترکیہ 2019ء میں ریزولوشن ارتھ آبزرویشن سیٹلائٹ کو خلا میں لانچ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ جمہوریت کے اس صد سالہ سفر کے دوران ترکیہ اپنے ریلوے نیٹ ورک‘ جو 1950ء میں 7671کلومیٹر پر مشتمل تھا‘ اسے بتدریج 2022ء تک 13919 کلومیٹر تک نہ صرف بڑھا کر پورے ملک کو ٹرین کے ذریعے جوڑنے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ اس ریلوے ٹریک کے ذریعے ترکیہ نے خود کو پورے یورپ کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ توانائی کے شعبے میں بحیرۂ اسود میں تیل و گیس کی تلاش کے علاوہ ترکیہ قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع میں زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ملک بھر میں شاہراہیں‘ پل‘ سرنگیں‘ گیس و تیل پائپ لائنز‘ نئے ہوائی اڈے‘ جدید ہسپتال اور لاتعداد رہائش گاہوں کی تعمیر اور نئے انفراسٹرکچر نے عالمی سطح پر غازی مصطفی کمال اتاترک کے ترکیہ کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ کیا ہے۔
تقریباً 600 سال تک سپر پاور رہنے والی سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد 1299ء میں رکھی گئی تھی۔ یہ سپر پاور تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی مگر پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کو مغربی طاقتوں کی جانب سے پیش کردہ معاہدۂ سیور پر دستخط کرنا پڑے تھے۔ یہ معاہدہ سخت ترین شرائط لیے ہوئے تھا جسے ترک قوم نے اپنی تذلیل جانا اور اس کے خلاف 19مئی 1919ء کو مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں ضلع سامسون سے ترک ملت کی نجات کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود انہیں فتح کا پورا یقین تھا۔ مسلسل چار سال تک آزادی کی جنگ لڑنے کے بعد فتح حاصل ہوئی اور مغربی طاقتوں کو مصطفی کمال کے ساتھ معاہدۂ لوزان پر دستخط کرنا پڑے۔ 29اکتوبر 1923ء کو ترکیہ کی گرینڈ اسمبلی نے ملک کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا اور خفیہ رائے شماری سے مصطفی کمال ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے سیاست‘ سماج‘ تعلیم‘ قانون‘ ثقافت‘ اقتصادیات اور خواتین کے سیاسی حقوق غرضیکہ اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی اصلاحات نافذ کیں اور ترکیہ کو جدید عصری اور جمہوری ملک کی حیثیت سے عالمی برادری میں شامل کیا۔ جمہوریت کی راہ پر یہ سفر آسان نہیں تھا چار مرتبہ (1960‘ 1971‘ 1980‘ 1997) ملک میں جمہوریت پر شب خون مارا گیا۔ تاہم مصطفی کمال اتاترک نے جن خطوط پر ترک معاشرے کی بنیادیں استوار کی تھیں‘ وہ اتنی مضبوط و گہری تھیں کہ تمام تر رکاوٹوں و مشکلات کے باوجود ترک قوم جمہوریت پر یقینِ کامل کے ساتھ اتاترک کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہی اور جولائی 2016ء میں ایک بار پھر جب عوامی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی تو جمہوری حکومت کے خلاف ہونے والی اس بغاوت کو عوام نے ناکام بنا دیا۔ ترک معاشرے میں خواتین کے سیاسی حقوق اور قومی معاملات میں ان کی شراکت کے حوالے سے جو اصلاحات اتاترک نے نافذکیں تھیں‘ ان کا ہی ثمر تھا کہ جون 1993ء میں پروفیسر و سیاسی کارکن تانسو چیلر ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔
ترکیہ کو ایک عظیم طاقت میں تبدیل کرنے کے خواہش مند اتاترک اور اردوان کے اہداف میں مماثلت موجود ہے۔ 2017ء میں پارلیمانی نظام تبدیل کر کے صدارتی نظام نافذ کیا گیا۔ صدارتی نظام نے صدر کے اختیارات کو بڑھا دیا ہے۔ مارچ 2003ء کے عام انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (AKP) نے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرکے اقتدار سنبھالا اور مسلسل جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار اس سیاسی جماعت کے پاس ہے۔ رواں برس مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں طیب اردوان تیسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ترکیہ ان کی قیادت میں ترقی کے سفر پر گامزن ہے۔ ان کی پالیسیوں نے ملک کو داخلی و خارجی ہر دو حوالوں سے مستحکم کیا ہے۔ جمہوریہ کے قیام پر اتاترک نے ایک پُر امن خارجہ پالیسی کا آغاز کیا تھا جس کا مقصد ملک کو بین الاقوامی بحرانوں سے بچانا تھا۔ طیب اردوان نے اتاترک کے پُرامن خارجہ پالیسی کے اصولوں کو اپناتے ہوئے ہی عالمی فورمز پر ہمیشہ امن کی کوششوں کا ساتھ دیا ہے۔ ترکیہ نے یوکرین روس جنگ کی مخالفت تو کی لیکن نیٹو کا رکن ہونے کے باوجود روس کے ساتھ تعلقات بحال رکھے۔ کسی بھی یورپی ملک کے مقابلے میں ترکیہ اس تنازع کے حل میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ بحیرۂ اسود و بحیرۂ روم کے درمیان نیٹو کے رکن ملک کے طور پر باسفورس آبنائے ڈارڈینلیس پر کنٹرول عالمی سیاست میں ترکیہ کی پوزیشن کو تقویت دیتا ہے۔ طیب اردوان نے حالیہ برسوں کمال مہارت سے غیرجانبداری برقرار رکھتے ہوئے عالمی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کیا اور وہ ملکی جیو سٹریٹجک پوزیشن بہتر طور پر استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مثال کے طور پر روس اور یوکرین کے درمیان زرعی اجناس کی ترسیل کا معاہدہ‘ شام میں خانہ جنگی کے دوران شامی مہاجرین کی دیکھ بھال‘ شمالی افریقی ممالک کے ساتھ تجارتی و فوجی معاہدے‘ قطر کے ساتھ تجارتی و دفاعی معاہدے‘ ناگورنو کارا باخ تنازع میں کھل کر آذربائیجان کی مدد‘ ترک ریاستوں کی تنظم کا قیام‘ روہنگیا مہاجرین کی مدد اور حماس اور اسرئیل کے درمیان جاری حالیہ جنگ کے خلاف استنبول میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت اور واضح موقف اختیار کرنا وغیرہ۔
29اکتوبر 1923ء کو جس ترک جمہوریہ کی بنیاد غازی مصطفی کمال پاشا نے رکھی تھی‘ گزشتہ اتوار کو اس جمہوریہ نے اپنے صد سال مکمل کیے۔ صد سالہ سالگرہ کی تقریب کو غزہ کی پٹی میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے پس منظر میں سادگی سے منایا گیا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے صد سالہ تقریبات کے افتتاح کے موقع پر اتاترک اور ان کے ساتھیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 29 اکتوبر 1923ء کو جس جمہوریہ ترکیہ کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا‘ وہ ترقی و استحکام کی ایک صدی مکمل کر کے دوسری صدی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے اور اسے ''ترک صدی‘‘ کے نام سے یاد کیا جائے گا۔ اقتصادی توسیع کی نئی بلندیوں کو چھوتا ہوا‘ 20ترقی یافتہ ممالک کے گروپ کا رکن اور خطے میں غیر متنازع طور پر اثرو رسوخ بڑھانے والے جمہوریہ ترکیہ کے سو سال مکمل ہونے پر ترک بہن بھائیوں کو دلی مبارک باد!