قیامِ پاکستان کے وقت ایک بے سرو سامانی کا عالم تھا لیکن اس پر آزاد ہو جانے کا احساس غالب تھا۔ اس احساس سے کچھ خواب وابستہ تھے جو قوم کی آنکھوں میں بھی تھے اور ادیب کی آنکھوں میں بھی‘ مگر پھر زمانہ بدل گیا۔ بہت سوں نے اپنے خوابوں کی تعبیر الاٹمنٹوں اور اونچے عہدوں میں دیکھ لی‘ پھر وقت گزرنے کے ساتھ خوابوں کا یہ چشمہ خشک ہوتا گیا۔ یہ اظہارِ خیال ایک انٹرویو کے دوران ایک ایسے معروف شاعر کا ہے جس نے لاکھوں لوگوں کے ساتھ مل کر ایک فلاحی ریاست‘ پاکستان کے قیام کے لیے جدوجہد کی۔ جان‘ مال و عصمتوں کی قربانیا ں دیں۔ مزید حیرانی ہوتی ہے کہ یہ اسی شاعر کے خیالات ہیں جس نے اپنی شاعری کے ذریعے پچاس کی دہائی میں امید کو ایک مضبوط عنصر کے طور پر پیش کیا اور عوام کو حوصلہ دیتے ہوئے لکھا:
شہر اجڑے تو کیا‘ ہے کشادہ زمین ِخدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر
لیکن پھر آہستہ آہستہ ناانصافی کے بتدریج بڑھتے ہوئے رجحان‘ سیاسی عدم استحکام اور وسائل کے چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جانے کے خلاف ان کے لہجے میں تلخی و اداسی دَر آئی۔ برگ نو کا دھیما احتجاج دیوان تک آتے آتے ''بدل سکو تو بدل دو یہ باغبان ورنہ/ یہ باغ سایۂ سرو و سمن کو ترسے گا‘‘ کے پُرزور مطالبے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ناصر کاظمی کا شمار ایسے باکمال شعرا میں ہوتا ہے جن کا کہا ہو ایک ایک مصرعہ آج بھی زبان زدِ عام ہے۔ خاک نشینوں کا درد رکھنے والے اس شاعر کا آج 98واں جنم دن ہے۔ انہوں نے اپنی شاعرانہ زندگی کا آغاز اس وقت کیا جب تحریکِ پاکستان اپنے عروج پر تھی اور برصغیر کے ہر مسلمان کی آنکھوں میں ایک آزاد ملک کا خواب تھا جس کی خاطر وہ ہر قربانی دینے کو تیار تھے۔ تقسیم کے دوران ہونے والے فسادات‘ ہجرت و بے سرو سامانی کے درد و کرب کی عکاسی ناصرؔ کاظمی کی شاعری کی اساس ہے۔ کامیاب ادب وہ ہے جو معاشرے کے اجتماعی حافظے میں محفوظ ہو کر عوام الناس کی زندگی کے تارپود میں شامل ہو جائے۔ کوئی ادب پارہ کتنا عرصہ زندہ رہ سکتا ہے‘ اس کا انحصار اس پر ہے کہ زندگی میں اس کی جڑیں کتنی گہری ہیں کیو نکہ ادب زندگی سے پھوٹتا ہے اور پھر زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ ایسا ادب تغیراتِ زمانہ کے باوجود غیر متعلق نہیں ہوتا۔ کلامِ ناصرؔ کاظمی کی جاودانی اسی منفرد انداز کی بدولت ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں سے نظر نہیں چراتے بلکہ معاشرتی مسائل‘ انسانی حقوق اور طبقاتی تقسیم کے خلاف احتجاج اس انداز میں کرتے ہیں کہ شعری جمالیات پر بھی حرف نہ آئے اور تلخ موضوعات کی جانب قاری متوجہ ہو جائے۔ ناصرؔ کاظمی نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے مسائل کو جس طرح محسوس کیا‘ اس کیفیت و احساس کو پوری دیانت داری کے ساتھ شاعری میں پیش کرنے کی سعی کی۔ دوسرے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں ان کی شاعری ایک حیرت کدہ ہے جس کے موضوعات وسیع و متنوع ہیں۔ ناصرؔ کاظمی نے شعری و نثری اظہار کے لیے نہایت سادہ و عام فہم زبان استعمال کرتے ہو ئے دھیمے و سرگوشیانہ لہجے میں اپنا وجود منوایا۔ جدید اردو غزل کے بنیاد سازوں میں ناصرؔ کاظمی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنے عہد کے سماجی مسائل کو غزل میں پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔ معاشرے میں موجود بے انصافی و طبقاتی کشمکش کو موضوعِ سخن بناتے ہوئے کہتے ہیں: میرا علاج میر ے چارہ گر کے پاس نہیں۔ اردو شعر و ادب میں ناصرؔ کاظمی ہی ہیں جنہوں نے ہجرت کے تجربے کو تہذیبی المیہ اور یادِ ماضی کو تہذیبی ناسٹلجیا بنا دیا۔ کفایت لفظی کے باوجود ناصرؔ کاظمی خیال و موضوع کی تکمیلیت کا جادو جگاتے ہیں۔ وہ لطیف محسوسات کے شاعر ہیں اور یہ حسیات ان کے اندر سے جنم لیتی ہے۔ ان کی غزلوں میں شعری تہذیب رچی ہوئی ہے۔ ناصرؔ کاظمی کے ہاں رات‘ چاند‘ یاد‘ شہر‘ گھر‘ پانی‘ ہوا‘ مسافر‘ سفر‘ تنہائی‘ سناٹا اور آواز وغیرہ کو علامتی طور پر برتا گیا ہے۔ ''اے دوست!‘‘ تخاطب میں اداسی کی دبیز لہریں چھپی ہوئی ہیں جیسے ہی وہ آواز دیتے ہیں ''اے دوست!‘‘ تو سارا کرب‘ درد‘ دکھ اور ہجر جو اس سے وابستہ ہے‘ قاری پر عیاں ہو جاتا ہے۔ ناصرؔ کاظمی نے ہجر کو سماجی معنی دیے‘ انہوں نے ادب کو نعرہ نہیں بنایا اور نظریات و میلانات سے بلند ہو کر شاعری کی‘ تاہم سماجی جبر‘ عدم مساوات و آمرانہ روش کے خلاف قلم سے جہاد کیا: اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی/ میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی۔ ادب کے ذریعے کسی عہد کی سیاسی‘ سماجی‘ معاشی و تہذیبی زندگی کی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ناصرؔ کاظمی نے اپنے عہد کی تنہائی‘ انتشار‘ احساسِ جرم‘ بے چینی‘ خوف کا اظہار مختلف نہج سے کیا ہے۔ ابتدا ہی سے یہ المیہ دامن گیر رہا ہے کہ اوپر والے چند لوگ ملک سے متعلق کسی بھی فیصلے میں عام لوگوں کو شریک نہیں کرتے۔ چند خاندانوں نے وسائل اپنے قبضے میں کر لیے اور مسائل عوام کے کھاتے میں ڈالے دیے۔ ترقی مفقود ہو گئی: چند گھرانوں نے مل جل کر/ کتنے گھروں کا حق چھینا ہے۔
وہ ادب کے دائرکار کو محدود کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ ان کے نزدیک اگر ادب کو کسی ضابطے کا پابند کر دیا جائے تو تخلیق و ایجاد کے امکانات کم اور بعض اوقات بالکل ختم ہو جاتے ہیں۔ شاعر جو کچھ دیکھتا‘ سنتا اور محسوس کرتا ہے‘ وہ ماضی اور مستقبل کی قید سے باہر نکل کر بیان کرتا ہے۔ شاعر وہ ہے جو ساری انسانیت کے بارے سوچتا ہے: ہے یہی عین وفا دل نہ کسی کا دکھا/ اپنے بھلے کے لیے سب کا بھلا چاہیے۔ ناصرؔ کاظمی ایسے منفرد تخلیق کار تھے جنہوں نے وہی لکھا جو دل پہ گزری۔ 1947ء سے لے کر مارچ 1972ء تک پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ ناصرؔ کاظمی کی تحریروں میں سانس لیتی نظر آتی ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبالؔ نے شاعر کو ''دیدہ بینائے قوم‘‘ کہا ہے اور ناصرؔ کاظمی اقبال کے شاعر کے پیکر پر پورا اترتے ہیں۔ ناصرؔ کا ماننا تھا کہ شاعر صرف اپنی ذات کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ وہ پوری انسانیت کا شاعر ہوتا ہے۔ دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنا ہی شاعر کا اصل کام ہوتا ہے۔ انہوں نے تلخ حقائق اور رنج و الم کو شعری قالب میں ڈھال کر امر کر دیا: عمارتیں تو جل کر راکھ ہو گئیں/ عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے/ یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا/ زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے۔ ناصرؔ کاظمی کی اداسی تمام تر کرب کے باوجود کبھی ناامیدی یا مایوسی میں تبدیل نہیں ہوئی: مایوس نہ ہو تُو اداس راہی/ پھر آئے گا دورِ صبح گاہی۔
سال کا یہ آخری مہینہ اپنے ساتھ ایک خاص اداسی لے کر آتا ہے۔ ہماری ملکی تاریخ کے کرب انگیز سانحات اس مہینے کے ساتھ جڑے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ نے پوری قوم کو صدمے سے دوچار کیا اور اس قومی صدمے کو جس انداز میں ناصرؔ کاظمی نے اشعار کے قالب میں منتقل کیا وہ اثر انگیزی ناصرؔ کاظمی کے کسی ہم عصر کے حصے میں نہیں آسکی: دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر/ لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر/ یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے/ وہ رَن پڑا ہے کہیں دوسرے کنارے پر۔ تاریخ کے برعکس ادب کسی واقعے کو احساس کی سطح پر لاکر زندہ کر دیتا ہے۔ ناصرؔ کاظمی جو وطن عزیز میں ایک فلاحی معاشرے کا قیام چاہتے تھے‘ جہاں جمہور کے فیصلوں کا احترام ہو‘ ناصرؔ کاظمی کا وہ خواب آج بھی تعبیر کا متلاشی ہے۔ ناصر نے کہا تھا کہ یہ خاص و عام کی بے کار گفتگو کب تک/ قبول کیجئے جو فیصلہ عوام کریں۔ عوام کے فیصلے سے گریز کی راہیں تلاش کرنے کی وجہ سے ملک و قوم پہلے ہی بہت نقصان برداشت کر چکے ہیں۔ ان تجربات کا ایک ہی سبق ہے کہ جمہور کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔