بنیادی انسانی حقوق بمقابلہ تجارت

اسرائیل غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی اور جنگی جرائم کا مرتکب ہے‘ اس حوالے سے اس کو دی جانے والی فوجی امداد کو مشروط کر نے کی سینیٹر برنی سینڈرز کی جانب سے پیش کردہ قرارداد امریکی ایوانِ بالا میں 11کے مقابلے میں 72ووٹوں سے مسترد کر دی گئی۔ اس سے قبل سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ ویٹو کر چکا ہے۔ غزہ میں 24ہزار سے زیادہ انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں جس کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نظر میں کوئی قیمت نہیں لیکن جب یمن کے مسلح حوثیوں نے اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے دباؤ ڈالنے کی خاطر باب المندب سے گزرنے والے اسرائیل سے وابستہ بحری جہازوں پر حملے کرکے عالمی تجارت میں خلل ڈالا تو 2023ء کے آخری دو مہینوں میں ہر روز بحیرۂ احمر کو عبور کرنے والے کنٹینرز کی تعداد میں 66فیصد کمی واقع ہوئی۔ اب زیادہ تر بحری جہاز کیپ آف نیو ہوپ کے ذریعے پورے افریقہ کا چکر لگانے پر مجبور ہیں جس سے شپنگ کے اخراجات میں 170فیصد اضافہ ہو گیا ہے اور عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ بحیرۂ احمر کے تجارتی راستے میں رکاوٹ سے مصر کو نہر سویز ٹرانزٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں بھی بہت کمی ہوئی ہے۔ اس تجارت کی قدر و قیمت سرمایہ دار دنیا میں بہت زیادہ ہے‘ اس لیے مجبوراً امریکہ اور اس کے دیرینہ اتحادی برطانیہ نے یمن میں حوثیوں کے 30سے زیادہ ٹھکانوں پر حملے کیے۔ یمن میں 2014ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے بعد سے حوثی اب ملک کی زیادہ تر آبادی والے شمال پر قابض ہیں جس میں حدیدہ کی بندرگاہ بھی شامل ہے۔ حوثیوں نے یہیں سے بحیرۂ احمر میں کچھ بحری جہازوں کو حراست میں لیا تھا۔ باب المندب پر حوثیوں کا کنٹرول اور مال بردار بحری جہازوں پر ان کے حملوں کی اس مہم سے وہ دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب رہے کہ وہ دباؤ کے سامنے جھکنے والے نہیں‘ ان کے پاس جدید اسلحہ بشمول چار سو کلومیٹر فاصلے تک مار کرنے والے جہاز شکن بیلسٹک میزائل موجود ہیں جنہیں وہ مغربی جنگی جہازوں کے خلاف استعمال کرنے سے ہچکچائیں گے نہیں۔ انہوں نے بحیرۂ احمر میں بحری جہازوں پر 27سے زیادہ حملوں سے دنیا کے سامنے اپنی فلسطین کے لیے حمایت کے علاوہ مغرب کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو سو سے زیادہ دن ہو چکے ہیں۔ غزہ کی زیادہ تر آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ لاکھوں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں اور قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ 61ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے بعض تاحال ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا سڑکوں کے کنارے موجود ہیں جن تک رسائی میں مشکل پیش آرہی ہے۔ امدادی کارروائیوں کے دوران بھی اسرائیلی بمباری جاری رہتی ہے۔ سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود اسرائیل امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
اسرائیل کو سفاکیت و جارحیت سے روکنے کے بجائے امریکہ اور برطانیہ کی افواج نے گزشتہ ہفتے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرکے غزہ میں اسرئیلی مظالم سے دنیا کی توجہ کو ہٹا کر 250میل سے زیادہ دور یمن پر مرکوز کر دی ہے۔ ان حملوں سے خطے میں کشیدگی کا دائرہ وسیع ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ یہ صورتحال حوثی ملیشیا اور اسرائیل دونوں کے لیے موزوں ہے۔ حوثیوں کے لیے اس طرح کہ یہ ان کے اس پیغام کی تائید کرتا ہے کہ وہ مغرب کو چیلنج کرنے والے ہیں اور عرب دنیا میں فلسطینی کاز کے حقیقی حامی ہیں۔ ان کی سٹریٹجک صلاحیت کی بدولت انہوں نے ایک اہم سمندری تجارتی راستے میں رکاوٹ کھڑی کر دی ہے جس سے عالمی بحری تجارت کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جو کہ سرمایہ دار دنیا قطعاً برداشت نہیں کر سکتی! کشیدگی کا بڑھتا ہوا دائرہ اسرائیل کیلئے زیادہ سود مند ہے کیونکہ حوثیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور اسرائیل ایران کو اپنے لیے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ اسرائیل نے شام میں پاسداران انقلاب‘ لبنان میں حماس اور حزب اللہ پر حملے کیے تاکہ ایک نیا محاذ کھو ل کر اپنے بڑے اتحادی امریکہ کو تنازع میں شامل کیا جا سکے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہا۔ حوثیوں پر براہِ راست تین مراحل میں امریکی حملوں کے بعد دنیا اور خطے کے عرب ممالک کی نظریں غزہ سے ہٹ کر بحیرۂ احمر کی بڑھتی ہوئی کشیدگی پر جمی ہوئی ہیں۔ سٹیک ہولڈرز اپنے اپنے مخالف متحارب گروہوں کی عسکری طاقت کے خاتمے کی امید میں خاموش ہیں۔ اس صورتحال میں نہ صرف اسرائیل اپنے مخالفین کا خاتمہ یا انہیں کمزور تر کر سکے گا بلکہ آسانی سے مغربی کنارے پر قبضہ اور غزہ کے فلسطینیوں کو صحرا میں دھکیلنے کے اپنے منصوبے پر عملدرآمد کر سکتا ہے۔ ماضی میں جب بھی عرب اسرائیل جنگ ہوئی ہمیشہ اسرائیل کو فائدہ ہوا ہے اور وہ شام‘ مصر‘ اردن اور لبنان کے علاقوں پر قبضہ کر نے میں کامیاب رہا ہے۔
یمن جو طویل عرصے تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے باعث تبا ہ حال ہے اور تقریباً 21ملین یمنی آبادی کا دوتہائی حصہ زندہ رہنے کیلئے امداد پر انحصار کرتا ہے ایسے میں اگر امریکی حملوں کو سلسلہ مزید بڑھتا ہے تو نہ صرف اس کی وجہ سے وہاں کے حالات مزید ابتر ہو جائیں گے بلکہ ان حملوں سے حوثی اپنے سیاسی مقاصد کیلئے فلسطینی حامی ہونے اور غیرملکی مداخلت کے مخالف جذبات سے فائدہ اٹھائیں گے۔ پہلے ہی غزہ میں فلسطینیوں کے قتلِ عام کے خلاف کھل کر اسرائیل کے مذمت کرنے کی وجہ سے یمن اور دیگر عرب ممالک میں حوثیوں کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کی جانب سے کھول کر اسرائیل کی مذمت نہ کرنے اور آبنائے باب المندب میں جہازوں پر حملوں کے خلاف آواز اٹھانے کے باعث ملک میں اس کی حمایت میں کمی آئی ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنعا میں امریکہ اور برطانیہ کے فضائی حملوں کے خلاف اور حوثیوں کے حق میں لاکھوں لوگ مظاہرے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ سولہ عرب ممالک میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق 94فیصد لوگوں نے غزہ کے بحران میں امریکہ کے موقف پر کڑی تنقید کی‘ ان کا ماننا ہے کہ اگر تنازع کا دائرہ بڑھتا ہے تو یہ آگ پورے خطے کو جلا دے گی۔ دنیا اسرائیل کی اس سفاکیت کو سیلف ڈیفنس کا نام نہ دے۔ عالمی برادری کو اپیلوں سے آگے بڑھ کر اسرائیل کا معاشی بائیکاٹ کرنا ہو گا کیونکہ اسرائیلی حکام و اقوام متحدہ کے فیصلوں‘ بین الاقوامی قوانین اور عالمی عدالتِ انصاف میں اس کے خلاف مقدمے کی کارروائی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی جنگ جاری رکھنے پر فخر کرتے ہیں۔
آپریشن پراسپیرٹی گارڈین کے نام سے یمن میں کیے جانے والے حملوں میں امریکہ اور برطانیہ کو آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ بحرین اور نیدر لینڈ نے انٹیلی جنس اور لاجسٹک مدد فراہم کی۔ تاہم اٹلی‘ سپین اور فرانس نے خود کو ان حملوں سے لاتعلق رکھا۔ جرمنی‘ ڈنمارک‘ نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا نے ان چھ ممالک کے ساتھ مشترکہ بیان پر دستخط کیے جس میں ان حملوں کا دفاع کیا گیا اور حوثیوں کے پیچھے نہ ہٹنے کی صورت میں بحیرۂ احمر کی تجارت کے آزادانہ بہاؤ کے تحفظ کے لیے مزید کارروائیوں کی تنبیہ کی ہے۔ کاش اس طرح کی کارروائیوں کی تنبیہ انسانی جانوں کو بچانے کے لیے جنگی جرائم میں ملوث اسرائیل کو بھی کی جاتی تو حالات یکسر مختلف ہو سکتے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں