تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر

یوکرین میں جاری جنگ کو تین ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ جنگجو رضاکار دنیا بھر سے‘ خاص طور پر یورپ کے ممالک سے‘ یوکرین کے حق میں لڑنے کے لیے آرہے ہیں (یا لائے جارہے ہیں)۔ ہر طرح کا جدید اسلحہ یوکرین کو دیا جارہا ہے۔ اسلحہ کی بڑی سپلائی کا انداز ہ اس سے لگائیں کے پنٹاگان کے پاس موجود سٹنگر میزائل کا ذخیرہ ختم ہوگیا ہے۔ سٹنگر میزائل ساز کمپنی کو سپلائی کا آرڈر دیا گیا ہے۔ اس آرڈر کی تکمیل کے لیے کمپنی کو 30 ماہ کا وقت درکار ہے۔ یہ وہی مشہور زمانہ میزائل ہیں جن کی وجہ سے سوویت فضائیہ کو افغانستان میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یوکرین کے اہم حصوں پر قبضہ کرنے کے لیے روسی افواج کو یوکرینی فوج کی جانب سے جس طرح کی مزاحمت کا سامنا ہے‘ اس کا اندازہ پوتن انتظامیہ کو نہیں تھا۔ فروری میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تب سے اب تک مغرب اور روس کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس کشیدگی کی وجہ سے یہ خدشات بھی بڑھ رہے ہیں کہ یوکرین میں ہونے والی لڑائی وسیع تر مسلح تصادم میں تبدیل ہوکر تیسری عالمی جنگ کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔
پہلی نظر میں تویہ دعوے بے حد مبالغہ آمیزلگتے ہیں لیکن باریک بینی سے پورے عالمی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو تیسری عالمی جنگ کی بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہو گی۔ تاریخ کے جھروکے سے دیکھیں توعالمی جنگ کا تصور پہلی جنگِ عظیم سے دو دہائی قبل وجود میں آیا تھا کیونکہ سلطنت ِعثمانیہ کی کمزور ہوتی طاقت کے پیش نظر بلقان‘مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں موجود اس کے زیادہ سے زیادہ حصوں پر قبضہ کرنے کے لیے دیگرطاقتوں نے دنیا کو عظیم جنگ سے دوچار کرتے ہوئے اپنی اپنی نوآبادیات کے تمام تروسائل مزید طاقت کی ہوس میں جنگ میں جھونک دیے۔ اسی وجہ سے لینن نے ''عالمی جنگ‘‘ کی اصطلاح کو سرمایہ دارانہ جنگ کے ساتھ بدل کر استعمال کیا تھا۔ 1930ء کی کساد بازاری کی وجہ سے ایک بار پھر عالمی جنگ کے خدشے کو ہوا دی گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے اسباب 1918ء میں پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر ہونے والے مختلف معاہدوں میں پنہاں تھے۔ دوسری عالمی جنگ کا اختتام جوہری بموں کے استعمال پر ہوا لیکن اس مرتبہ ایک بار پھر مالِ غنیمت کے حصے بخرے کرتے ہوئے سرد جنگ کا آغاز ہوگیا جس نے تقریباً نصف صدی تک دنیا کو دو حصوں میں منقسم رکھا۔ بالآخر اس جنگ کا خاتمہ سوویت یونین کے انہدام پر ہوا۔ منطق تو یہی کہتی ہے کہ سرد جنگ کے بعدیک قطبی (Unipolar) دنیا میں فوجی اتحادوں کی کو ئی جگہ نہیں بنتی لیکن بڑی بڑی اسلحہ سازی کمپنیاں اور فوجی اتحاد اپنے ہونے کا جواز‘ کبھی افغانستان‘ عراق‘لیبیا تو کبھی یمن‘ شام اور اب یوکرین میں‘ تلاش کرہی لیتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے روس کو دی جانے والی یہ یقین دہانی کہ نیٹو روسی سرحدوں سے دور رہے گا‘ کے باوجود مشرقی یورپ کے ممالک کو نیٹو کی رکنیت دے کر نیٹو کے جدید اسلحے کی ان ممالک میں تنصیب نے روس کو پیش قدمی کی طرف مائل کیا۔ مغربی اور امریکی رہنماؤں کے مختلف عالمی فورمز پر دیے جانے والے بیانات نے تلخی میں اضافہ کیا اور یہ تلخی اس حد تک بڑھی کے روسی افواج بین الاقوامی سرحد عبور کرکے یوکرین میں داخل ہوگئیں۔ ماسکو اور مغرب کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے باعث روس کی کوشش ہے کہ وہ جنوبی یوکرین پرقابض ہو جا ئے اس طرح اسے مالڈووا سے الگ ہونے والی غیر تسلیم شدہ ریاست Transnistria تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔ ماسکو کا یہ منصوبہ نہ صرف مالڈووا کے لیے پریشان کن ہے بلکہ یورپ میں جنگ کے پھیلاؤ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ سویڈن اور فن لینڈ جیسے غیر جانبدار ممالک بھی روس کی جا رحیت کو دیکھتے ہوئے مجبور اً اپنی سلامتی اور دفاع کے پیش نظر نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دینے کا عندیہ دے رہے ہیں جیسا کہ سویڈن اور فن لینڈ نے نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواست دی ہے۔ یہ تو براعظم یورپ کا منظر ہے۔ دوسری جانب براعظم ایشیا کو دیکھیں تو یہاں کشمیر اور فلسطین کے نہتے انسانوں پربھارت اور اسرائیل کے مظالم روکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ یہ دونوں ملک انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ان کی جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی قانون نہیں۔
چین کی عسکری و اقتصادی طاقت مغرب کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ جو بائیڈن کی صدارت کے آغاز کے بعد سے ہی بیجنگ واشنگٹن تعلقات زیادہ کشیدہ ہوگئے ہیں۔ بحیرہ جنوبی چین میں بھی تناؤ بڑھ رہاہے۔ امریکہ اور چین اقتصادی و تجارتی روابط میں ڈی کپلنگ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ یورپی یونین‘ برطانیہ اور امریکہ‘ بیجنگ کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کو روکنے کے لیے ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ دوسری جانب جنوبی بحیرہ چین میں متنازع جز ائر چین اور خطے کے دیگر ممالک کے درمیان کشیدگی کا سبب تو ہیں ہی لیکن کھلے سمندر میں امریکی بحریہ کی موجودگی خطرے کو بڑھا رہی ہے۔ امریکہ‘ آسٹریلیا‘ جاپان اور بھارت کے درمیان 2007ء میں کو اڈ کے نام سے بنائے جانے والے ڈائیلاگ فورم کو 2017ء میں چاررکنی اتحاد کی شکل دے دی گئی تھی۔ چین اسے اپنے خلاف ایک اتحاد کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکہ چین کے گرد سٹریٹیجک دائرہ بنا رہا ہے‘ امریکی تھنک ٹینکس کا خیال ہے کہ بیجنگ اگلی دہائی میں تائیوان پر حملہ کر دے گا۔ امریکی صدر کا تائیوان کے دفاع کے حوالے سے حالیہ بیان کے بعد دونوں طاقتوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے۔ ان طاقتوں میں سے کوئی بھی اس کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش نہیں کررہا جو دنیا کے امن پسندوں کے لیے زیادہ تشویش کا سبب ہے۔
شمالی کوریا نے گزشتہ چند دنوں میں تین بیلسٹک میزائلوں کے تجربے کیے جن میں ایک اس کا سب سے بڑا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل تھا۔ ان تجربات کے بعد شمالی کوریا پر مزید اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی گئی جسے چین اور روس کی جانب سے ویٹو کردیا گیا۔ 2006ء کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب کسی قرار داد کو ویٹو کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ایران کے معاملے میں عالمی طاقتوں کا خیال ہے کہ ایران حزب اللہ کو دوسرے ممالک میں سیاسی انتشار کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایران کی سائبر صلاحیت بھی کافی بڑھ گئی ہے اور وہ جوہری ٹیکنالوجی تیار کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران کی ان سرگرمیوں پر اس کے ہمسایہ ممالک کی تشویش بڑھ رہی ہے۔ اس تشو یش کا واضح اشار ہ ہے کہ خلیجی عر ب ریاستوں نے پچھلے سال امریکی بحریہ کے زیر اہتمام مشترکہ فوجی مشقوں میں پہلی بار اسرائیل کے ساتھ حصہ لیا۔ 2020ء میں ''Abraham Accords‘‘ کے بعد سے اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان سفارتی‘ فوجی اور انٹیلی جنس رابطوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایران نے روس کو مغربی پابندیوں سے بچنے کے لیے مدد کی پیش کش بھی کی ہے‘ اس طرح خطے میں تناؤمزید بڑھ گیا ہے۔ اس صورت حال میں تیسری عالمی جنگ کی بات مبالغہ آمیز نہیں لگتی۔ جنگ شروع کرنا آسان ہے لیکن اس کو ختم کرنا یا اس سے ہونے والے نقصانات کو محدود کرنا آج کے جدید اسلحے کی موجودگی میں خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔ دنیا کے اربابِ اختیار پر فرض ہے کہ وہ انسانی تاریخ کو سامنے رکھیں جس میں انسانیت کی پامالی کبھی بھی ا فراد یا اقوام کے لیے باعثِ توقیر نہیں رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں