بظاہر معیشت اور صحتِ عامہ کے درمیان براہِ راست کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن تعلیم اورزراعت کی طرح صحت کے سیکٹرکو کسی قوم کی ترقی کے اہم ترین پہلوؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں صحت ِعامہ ملک کی خوشحالی اور اچھی معاشی حالت کی علامت بھی ہوتی ہے۔ صحت مند لوگ ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ بیماریوں سے بچنا بیماریوں سے پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پانے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ مضر صحت پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں‘ ہیپا ٹائٹس‘ ایچ آئی وی‘ ایڈز وغیرہ بہت خاموشی سے معاشرے میں سرایت کر رہی ہیں ان کے علاوہ کینسر ‘ ہائی بلڈ پریشر‘ ذیابیطس اور دل کی بیماریاں جن کے بارے میں عام خیال تھا کہ یہ امیر ملکوں کی بیماریاں ہیں اب ہمارے ملک میں ہر دوسرا شخص ان کا شکار ہے۔ ان بیماریوں سے متعلق ڈیٹا جمع کرنا ان کی روک تھام کیلئے اشد ضروری ہے۔ رواں سال صحت کیلئے 19.03 بلین روپے رکھے گئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ہر شہری کی صحت کیلئے 87 روپے مختص کیے گئے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالتِ زار سب کے سامنے ہے۔پرائیوٹ ہسپتال غریب عوام کی پہنچ سے دور ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ جعلی ادویات کے پھیلاؤ پر کنٹرول نا ممکن دکھائی دے رہا ہے۔ غریب آدمی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر اگر دوائی خرید بھی لے تو جعلی دوائی اس کیلئے مزید خطرہ بن جاتی ہے۔ صحت مند افراد کا ہونا ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں وسائل اور انفراسٹر کچر کی کمی کے علاوہ ترجیحات کا تعین ایک بڑا چیلنج ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان اقتصادی ترقی کا فرق 50فیصد خراب صحت اور کم اوسط عمر کی وجہ سے ہے۔ کسی ملک کے شہری جتنے صحت مند ہوں گے افرادی قوت اتنی ہی زیادہ مؤثر ہوگی۔ 2021ء کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں اوسط عمر 66 سال سے بڑھ کر 67 سال ہوگئی ہے‘ ماں اور بچے کی شرح اموات میں بھی کمی آئی ہے اور سالانہ آبادی کی شرح دو فیصدسے کم ہوکر1.9 فیصد ہوگئی ہے۔ یہ مثبت اشارے ہیں لیکن ابھی اس ضمن میں بہت کام کی ضرورت ہے۔ صحت پر اخراجات کو انسانی وسائل میں سرمایہ کاری سمجھاجاتا ہے۔ اسی طرح تعلیم کو تسلیم شدہ یونیورسل اہمیت حاصل ہے۔1973ء کے آئین کے آرٹیکل A 25 کے مطابق تعلیم پانچ سے 16 سال کی عمر کے ہر بچے کا بنیادی اور آئینی حق ہے لیکن آج بھی پانچ سے 16 سال کی عمر کے 25 ملین بچے سکول سے باہر ہیں۔Education 2030 Incheon Declaration and Framework for Action کے دستخط کندہ کے طور پر پاکستان کو اپنی جی ڈی پی کا کم از کم چار فیصد تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے مگر حالیہ بجٹ میں1.7فیصد فنڈز تعلیم کیلئے رکھے گئے ہیں جو خطے کے دیگر ممالک سے بہت کم ہیں۔ ورلڈ بینک‘ یو این ڈی پی اور یونیسکو کی رپورٹ2021۔2020ء کے مطابق بھارت اپنے جی ڈی پی کا 3.3 فیصد ‘بنگلادیش 2.6 فیصد‘ نیپال 3.2فیصد ‘ ایران 5.3فیصد اور پاکستان 2.1فیصد تعلیم کے شعبے پر خرچ کرتا ہے۔ مذکورہ بالا ملکوں کی شرح خواندگی‘ معیارِ تعلیم اور صحت کی سہولیات بہت بہتر ہیں۔
صحت مند قوم کی ترقی اور افرادی قوت کوSkilled worker میں تبدیل کرنے کیلئے تعلیم وہ اہم سیکٹر ہے جو ملک اور قوم کی ترقی کیلئے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ تعلیم مائیکر و اور میکرو دونوں سطحوں پر طویل مدتی پیدا واری صلاحیت اورنمومیں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس کا انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پرCross-cuttingاثر پڑتا ہے۔ کوئی بھی ملک انسانی سرمائے میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کیے بغیر پائیدار اقتصادی ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔ معیارِ تعلیم کے گرتے ہوئے اثرات کسی ملک کی اخلاقی‘ شہری‘ ثقافتی اور اقتصادی استحکام پر بہت زیادہ منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ تعلیم اور اس میں اصلاحات اور قومی ترقی میں بامعنی کردار ادا کرنے کیلئے بتدریج اور منظم طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے شعبہ کیلئے قومی بجٹ میں زیادہ فنڈز مختص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ انسانی ترقی میں ایک بڑی سرمایہ کاری ہے جو ملک کے استحکام کا سبب بنتی ہے۔ زندہ رہنے اور آگے بڑھنے دونوں کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ skill based learningکے ذریعے ملک کی افرادی قوت کو ہنرمند بنایا جاسکتا ہے۔اس سے ہنر مند افراد نہ صرف خود کفیل ہوں گے بلکہ Entrepreneurship کے ذریعہ دوسروں کو بھی روزگار مہیا کریں گے۔
پاکستان میں شرح خواندگی 57 فیصد ہے‘ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو صرف اپنا نام لکھ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بہتر کمائی کی سطح کیلئے اضافی ہنراور تکنیکی علم حاصل کرنے کے مواقع کی نمایاں طور پر کمی ہے۔ملکی زرمبادلہ میں ایک بڑا حصہ ان ترسیلات کا ہے جو پاکستانی دوسرے ملکوں میں کام کر کے اپنے ملک کو بھیجتے ہیں ‘مشرق وسطیٰ کے ممالک میں زیادہ تر پاکستانی محنت مزدوری کرتے ہیں اگر حکومت ٹیکنیکل ایجوکیشن پر توجہ دے تو یہ ہنرمند ورکر اپنے خاندان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ملک کیلئے زیادہ زرمبادلہ کما سکیں گے۔ ایک وقت تھا کہ خلیجی ممالک ‘یورپ اور امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف بڑی تعداد میں کام کرتے تھے لیکن اب یہ جگہ انڈین‘ بنگالی اور سری لنکنز نے لے لی ہے۔سیاسی وجوہات کے علاوہ معیارِ تعلیم میں گراوٹ بھی اس کا ایک سبب ہے۔جگہ جگہ میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کے قیام نے معیارِ تعلیم پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ایک کامیاب ملک بننے اور پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے پاکستان میں تعلیم اور اس کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے با اختیار حلقوں کی توجہ درکار ہے۔ تعلیم کے شعبے کیلئے فنڈز کم مختص کئے جاتے ہیں‘ لیکن اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ کم فنڈز بھی پوری طرح خرچ نہیں کیے جاتے۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد سے تعلیم بنیادی طور پر صوبائی موضوع ہے لیکن تعلیم کی حالت کو درست کرنے کی ذمہ داری کابوجھ بنیادی طور پر وفاقی حکومت پر ہے۔ تعلیمی بحران پر قابو پانے کیلئے جی ڈی پی کا کم از کم چھ فیصد تعلیم کے شعبہ کیلئے مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ اور تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تعلیم سے متعلق بنیادی حکمت علمی طے کرنے کے ساتھ اس پرمنظم طور سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی پالیسی ایک یا دو سال کیلئے نہیں بنتی اور نہ ہی ان کے نتائج اتنی جلدی سامنے آتے ہیں بلکہ یہ پالیسی کم از کم بیس سال کیلئے مرتب کر کے اس پر بلا تعطل عمل کیا جائے تب جاکر اس کے نتائج بر آمد ہوں گے۔
صحت اورتعلیم کے بعد تیسرا اہم سیکٹر جسے ہمیں قومی ترجیح بنانا چاہیے وہ زراعت کا شعبہ ہے۔ پاکستان کو خدا نے زرخیز زمین اور چار موسم عطا کیے ہیں ‘ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔خوراک میں خود کفیل ہونے کیلئے ملکی بجٹ میں زراعت ‘اس سے منسلک صنعتوں‘مشینری‘ادویات اور ریسرچ کیلئے زیادہ فنڈز مختص کرنا ہوں گے تاکہ زرعی اجناس درآمد نہ کرنا پڑیں۔ امسال اگست میں وطن عزیز کے قیام کو 75 سال مکمل ہو جائیں گے‘ان برسوں میں ہم نے مختلف ترجیحات سیٹ کر کے دیکھ لیا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔اب بھی وقت ہے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ترجیحات کے تعین کے لیے course correctionکرلی جائے تو ملک کے مستقبل کو محفوظ و روشن کر سکتے ہیں۔