2023ء کا نوبیل ادبی انعام حاصل کرنے والے نارویجین ادیب جون اولاو فوس (Jon Olav Fosse) اس سے پہلے یورپ کے بڑے ادبی اعزازت بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ٹیلی گراف کی جانب سے 2007ء میں مختلف شعبوں کی سو زندہ باصلاحیت شخصیات کی فہرست میں بھی ان کا نام بھی شامل ہے (اس فہرست میں جون فوس کا 83واں نمبر ہے)۔ ان کے ادبی کاموں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ناروے کی حکومت کی جانب سے 2012ء میں ان کے لیے اوسلو شہر کے مرکز میں واقع شاہی محل کے احاطے میں تاحیات رہائش کے لیے گھر اور وظیفہ کا اعلان کیا گیا تھا۔
خود شناسی اور اپنے باطن کی کھوج اتنا گمبھیر عمل ہے جو انسان کو ظاہری دنیا سے علیحدہ کرکے ایک نئی اور لامتناہی دنیا کی جانب لے جاتا ہے جہاں وقت کی قید سے آزاد ہو کر حقیقت کا سراغ ممکن ہے۔ اسی خود شناسی اور اپنے باطن کی کھوج کے گرد ہی ناروے کے ورسٹائل ادیب و شاعر جون اولاو فوس کی افسانوی تحریریں گھومتی ہیں۔ جون فوس کے موضوعات‘ اسلوب‘ نقطۂ نظر حیرت انگیز طور پر انسانی حالت کے اسرار کی تلاش کرتے ہیں۔ مرصع رسمی زبان‘ آہنگ‘ رِدھم‘ اندرونی شعور کی تلاش‘ وقت کی قید سے آزادی‘ منفرد علامتی نظام‘ استعارہ‘ تنہائی‘ علیحدگی‘ غیر حل شدہ اختتام کے ذریعے قاری کے تجسس کو بڑھانا‘ ایسی خصوصیات ہیں جو فوس کو ان کے معاصرین سے مختلف و منفرد بناتی ہیں۔ تقابلی ادب میں برجن یونیورسٹی سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والے فوس کا شمار اس وقت دنیا کے زندہ بڑے ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ فوس ایسا ڈرامہ نگار ہے عالمی سطح پر جس کے ڈرامے سب سے زیادہ پرفارم کیے گئے۔ فوس کے 40 سے زیادہ ڈرامے دنیا بھر میں ایک ہزار سے زیادہ مرتبہ سٹیج پر پرفارم کیے گئے ہیں۔ 70سے زائد ناولوں کے اس مصنف کے ناول اور ڈرامے 50سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ ناول اور ڈراموں کے علاوہ مختصر کہانیاں‘ مضامین‘ بچوں کی کتابیں‘ تراجم اور شعری مجموعے بھی ان کی ادبی تخلیقات کی فہرست میں شامل ہیں۔
فنونِ لطیفہ میں جہاں موسیقی ہمیں اچانک جذبات سے مغلوب کر سکتی ہے اور مصوری ہمیں تازہ آنکھوں سے دنیا کو دیکھنے پر مجبور کر سکتی ہے وہیں صرف ادب ہی ہمیں اپنی تمام کمزوریوں اور عظمتوں کے ساتھ دوسرے انسانی جذبوں سے جوڑ سکتا ہے اور بتاتا ہے کہ کسی دوسرے انسان کی موجودگی ہی ادب کا جوہر ہے جس سے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جون فوس ادب کے اس حیرت کے عنصر کو اپنی تخلیقات میں دو آتشہ کرتے ہوئے موت‘ جو سب سے بڑی حقیقت ہے‘ کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی مایوس نہیں ہوتے اور اپنے قاری کو پُرامید رکھتے ہیں۔ فوس کا اندھیرا ہمیشہ چمکتا رہتا ہے۔ ان کی تحریر قاری کو کوئی چہرہ پیش نہیں کرتی بلکہ قاری کو جذب کر لیتی ہے‘ وہ ایسی چیز ہے جس میں قاری غائب ہو جاتا ہے جیسے اندھیرے میں آندھی۔ انسانی جذبے کی موجودگی ہی ان کی تحریر کا جوہرِ کامل ہے۔
جون فوس کے مشہور ناول بوٹ ہاؤس (Boathouse) کا آغاز اس فقرے سے ہوتا ہے کہ ''میں اب باہر نہیں جاتا‘‘۔ یہ فقرہ 1980ء کی دہائی کے اواخر میں شائع ہونے والے کسی بھی دوسرے ناول کے برعکس ہے‘ لیکن جون فوس نے اس سے پہلے جو کچھ لکھا تھا اور اس کے بعد جو کچھ لکھا ہے‘ وہ سب اسی سمت اشارہ کرتا ہے کہ مصنف نے کچھ ایسا ضرور تلاش کر لیا ہے جو اسے دوسروں سے الگ ہونے کی طاقت فراہم کر رہا ہے۔ پہلے ہی جملے سے قاری جو موجودگی محسوس کرتا ہے وہ جون فوس کی موجودگی ہے‘ تاہم یہ موجودگی اس کے سوانح عمری والے شخص کی موجودگی نہیں ہے بلکہ وہ اس شخص کو ظاہر کرتا ہے جو وہ اس وقت تھا۔ قاری خودکو تحلیل ہوتا محسوس کرتا ہے۔ باطن نئے اور ناواقف طریقوں سے تشکیل پاتا ہے۔ فوس کے تقریباً سب ہی مضامین ادب اور فن کے بارے میں ہیں۔ وہ ادب و فن کے سوانحی‘ سماجی یا تاریخی پہلوؤں سے لاتعلق ہیں اور ان چیزوں کو تلاش کرتے ہیں جو ادب کو ادب اور فن کو فن بناتی ہیں۔ ان کے مضامین اور افسانوی تحریروں میں واضح فرق ہے‘ جہاں مضامین کی آواز ان کے زمانی عہد میں موجود ہے وہیں ان کے فکشن کی آواز ان کے اپنے زمانے سے غیر مربوط ہے۔ یہ وہ تضاد ہے جو باطن کی لا محدودیت اور ظاہر کی رکاوٹوں کے درمیان ہر چیز کو آگے بڑھاتا ہے۔ وہ بے چینی و بے بسی کے سب سے زیادہ طاقتور انسانی جذبات کو روزمرہ کے آسان ترین الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ انہیں عصری تھیٹر میں ایک بڑے اختراع کار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ ڈراموں میں مقام کی وحدت کے قائل اور وقت کے اتحاد میں خلل ڈال کر دیکھنے و پڑھنے والوں کو سحر انگیز کر دیتے ہیں۔ وقت کی مختلف پرتوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے جوڑ کر اس طرح پیش کرتے ہیں کہ زمان و مکاں کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کا مختصر ناول ''صبح و شام‘‘ (Morning and Evening) ہے۔ اس ناول کے مرکزی کردار جوہانس کا حقیقت کے بارے میں تصور ایک انداز میں تحلیل ہونا شروع ہوتا ہے۔ قاری سمجھتا ہے کہ وہ مرنے والا ہے اور پھر بھی اس عمل میں اور اس کی موت کے بعد دونوں میں مفاہمت کا لہجہ موجود ہے حالانکہ زندگی و موت کے بیچ میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں وہ حل طلب ہیں۔ اس توقف‘ رکاوٹوں اور نفی کے ساتھ ساتھ ایسے سوالات فوس کے اسلوب کی خصوصیت ہیں۔ اسی طرح ان کا ناول Septology‘ جو نیم سوانحی و Magnum opusکی تکنیک میں لکھا گیا ہے‘ یہ ناول تین جلدوں اور سات حصوں پر مشتمل ہے جو بغیر فُل سٹاپ کے 1250صفحات تک جاری رہتا ہے۔ اس ناول کا معمر کردار جو مذہب‘ شناخت‘ آرٹ اور خاندانی زندگی کی حقیقتوں کے ساتھ تنہا رہتے ہوئے اپنے ہی دوسرے ورژن کے ساتھ ہم کلام ہے۔ یہ نہایت ہی اہم اور منفرد کام ہے۔
تمام علوم و فنون کی عالمی آوازوں کو ترجمے کے ذریعے ایک پلیٹ فارم پر لانا بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب سیاست اور معیشتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ فوس نینو رسک میں لکھتے ہیں۔ اقلیتی زبان میں لکھتے ہوئے دنیا کی توجہ حاصل کرنا آسان نہیں ہے‘ ان کی تحریروں کا غیر واضح پن‘ تکرار‘ تہہ داری‘ مغربی ناروے میں بسنے والی دس فیصد آبادی کی سوچ‘ جذبات اور ثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ نینو رسک ناروے کی نارویجین زبان کے دو ورژن میں سے ایک ہے۔ جدید نارویجین دو تحریری شکلوں نینو رسک اور بوکمل میں لکھی جاتی ہے۔ 1814ء تک ڈینش معیاری تحریری زبان تھی۔ ناروے کی ڈنمارک سے آزادی کے بعد ناروے کے مختلف خطوں میں بولی جانے والی بولیوں کے الفاظ اور قواعد سے نینو رسک کو تیار کیا گیا۔ اب بنیادی طور پر ناروے کے مغرب کی دس فیصد آبادی نینو رسک اور 90 فیصد آبادی بوکمل استعمال کرتی ہے۔ فوس نے اپنے آبائی علاقے میں بولی و لکھی جانے والی زبان کے لسانی و جغرافیائی دونوں طرح کے مضبوط مقامی تعلق کو جدید فنکارانہ تکنیکوں سے جوڑ دیا ہے۔ ادب کے شعبہ میں ناروے کے ادبا کے حصے میں آنے والا یہ چوتھا نوبیل انعام ہے۔ جون فوس کو دلی مبارکباد کے ساتھ اپنے ملک کے صاحبِ اختیار لوگوں کے گوش گزار کرنا چاہتی ہوں کہ ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنا آسان تو نہیں چاہے آپ کتنے ہی کامیاب ادیب کیوں نہ ہوں‘ لیکن اتنا مشکل بھی نہیں ہے اگر کامیاب ادیب کی دانش کو عالمی سطح تک پہنچانے کے لیے سماج اور حکومت ساتھ کھڑے ہوں۔