مسائل کو حل کرنے کی خواہش ندارد

مورخ سے ہمیشہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ تاریخ قلم بند کرتے ہوئے دیانتدداری سے کام لے اور اجتماعی یاد داشتوں کو محفوظ کرتے ہوئے اسے اہلِ اقتدار اور مقتدر اداروں کے مقاصد سے ہی نہیں‘ خود اپنی انفرادی اور اپنے دور کی اکثریتی سوچ سے بھی بالاتر ہوکر حقیقت قلم بند کرے۔ یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ ممکنہ حد تک واقعات اور حالات کے ماخذ تک رسائی کی کوشش کی گئی ہو گی اور نتائج اخذ کرنے کا کام قاری پر چھوڑ دیا گیا ہوگا ۔ ان معنوں میں سینئر صحافی محقق و ادیب ڈاکٹر فاروق عادل کی 32مضامین پر مشتمل کتاب ''ہم نے جو بھُلا دیا‘ تاریخِ پاکستان کے گم شدہ اوراق‘‘ تاریخ و ادب کا امتزاج لیے ہوئے ہے۔ مصنف نے قیامِ پاکستان سے لے کر عہدِ حاضر تک پاکستان کے حکمرانوں اور بادشاہ گروں کے حوالے سے چشم کشا حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جن کو شعوری یا غیرشعوری طور پر تاریخ کے اورق سے گم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ڈاکٹر فاروق عادل کی اس کتاب کے مطالعے کے بعد یہ تھیوری کہ سیاست عوام کی خدمت کا نام ہے‘ پاکستان کے سیاسی تناظر میں رَد ہوتی نظر آرہی ہے۔ مصنف‘ جنہوں نے پاکستانی سیاست کو قریب سے دیکھا ہے اور اپنے مطالعے و مشاہدے کو انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ مذکورہ کتاب میں موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ آپ کے اسلوب نے تلخ تاریخی حقائق کو اس جاذبیت کے ساتھ پیش کیا ہے کہ وہ ملک جس کا خواب شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر کے لیے باوقار سیاسی لیڈر محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانانِ برصغیر نے جدوجہد کی تھی‘ ہزاروں لوگوں نے جانیں دیں‘ اَن گنت ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوئیں‘ قیام کے فوراً بعد اقتدار پر قبضے کی لالچ اس کی ترقی کی راہ میں کیسے حا ئل ہو ئی‘ عوام کے خوابوں کو کیسے روندھا گیا‘ اس سب کو اس طرح بیان کیا ہے کہ درد کا احساس شدید اور اصلاح کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ علاقائی‘ ملکی اور عالمی سیاست کے حوالے سے جذباتی بیانیہ تشکیل دے کر اس کی بنیاد پر رائے عامہ ہموار کرنے کے بجائے حقائق پر مبنی پالیسیاں ہی قوم کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہو سکتی ہیں۔
سیاسی شعور‘ معیشت اور سفارت کاری ریاست کے اجتماعی مفادات کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ان سب کو آپس میں اس طرح الجھایا گیا ہے کہ عوام قومی معاملات کی صداقتوں سے دور رہ سکیں جس سے بے اعتمادی اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ عہدِ حاضر میں ملک کو جن بڑے ایشوز کا سامنا ہے‘ ان میں سیاسی عدم استحکام‘ پولرائزیشن‘ سول ملٹری تعلقات‘ معاشی صورتحال‘ بڑھتا ہوا عدم تحفظ اور مہنگائی وغیرہ شامل ہیں لیکن اس کتاب کے مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ ان مسائل کا سامنا تو وطنِ عزیز کو 76 سال سے ہے اور ہمارے حکمرانوں اور طاقتور حلقوں میں ان مسائل کو حل کر نے کی خواہش ندارد۔ قوم دائرے میں سفر کر ر ہی ہے یا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے کہ انیس سوساٹھ و سترکی دہائی والے واقعات دوبارہ رونما ہورہے ہیں۔ سیاسی رہنما اپنے قلیل مدتی اہداف کے حصول کے لیے ان فیصلوں کو پس پشت ڈالتے آئے ہیں جو طویل مدت میں ملک و قوم کی ترقی کیلئے بہتر ہوتے ہیں۔ اسے تاریخ کا جبر کہیں یا کچھ اور کہ جب نو زائیدہ ملک میں مہاجرین کی آبادکاری ایک چیلنج تھا‘ ایسے میں وزیراعظم ہاؤس میں آرائشی پودوں کے لیے فواروں کو زیادہ دیر تک پانی کی فراہمی سے انکار کی وجہ سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش سے ایسا بیج بویا گیا جس کی وجہ سے دو بڑے مسائل کا سامنا ملک و قوم کو کرنا پڑا۔ اوّل یہ کہ وزیر اعلیٰ سندھ پر مالی بے ضابطگیوں کا الزام لگا کر انہیں برطرف کر دیا گیا اور اگر دیکھا جائے‘ ملک کے سیاسی نظام میں یہ وہ قدم تھا جو آسیب کی طرح ملک کے تقریباً سب ہی وزرائے اعظم کا پیچھا کر رہا ہے۔ دوم ملک کے وزیراعظم اور صوبے کے وزیراعلیٰ کی اس رنجش نے بعد میں سندھی مہاجر کشمکش کی صورت اختیار کر لی جو پانچ دہائیوں تک صوبے میں نقصِ امن کا باعث بنی رہی۔ بیوروکریسی کیسے سویلین وزرائے اعظم اور ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہوئے نوزائیدہ ملک کی آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل کی راہ میں حائل رہی‘ ان حقائق کو ڈاکٹر فاروق عادل نے ''واشنگٹن براستہ ماسکو‘‘ کے زیر عنوان عیاں کیا ہے۔ جب امریکی غذائی امداد سے قبل راتوں رات پاکستان میں حکومت تبدیل ہوئی اور امریکہ سے آنے والی اس امداد کو کراچی کے بندرگاہ سے جن اونٹوں پر لادا گیا‘ ان کی گردنوں میں تھینک یو امریکہ کی تختیاں لٹکائی گئیں۔ یہ تختیاں آج بھی ملک کی آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش کے آگے کھڑی ہیں۔ جسٹس منیر کا نظریۂ ضرورت تو اب ہماری اجتماعی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ تاشقند مذاکرات کی ناکامی اور بیوروکریسی کے سامنے بااختیار ترین صدر کی بے بسی کو مصنف نے حوالوں کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ وَن یونٹ اور یونٹی کے عنوان سے کتاب میں شامل مضمون ہوش ربا حقیقتوں کوعیاں کرتا ہے۔ بظاہر ون یونٹ یونٹی کے لیے بنایا گیا تھا لیکن اس ایک فیصلے نے ملک کو جو نقصان پہنچایا‘ اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ یہ وہ قدم تھا جس کے خلاف سندھ‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیاسی تحریکیں چلیں اور عوامی احتجاج ہوئے۔ عوامی احتجاج اور سیاسی تحریکوں کو کچلنے کے لیے جس طرح کے اقدامات کیے گئے ان سے ملک کی یونٹی کو شدید دھچکا لگا۔ ''جب ٹوٹ گیا سلسلہ تکلم کا‘‘ کے زیر عنوان ڈاکٹر فاروق عادل نے ان تمام واقعات کو پیش کیا ہے جو مشرقی پاکستان میں رونما ہو رہے تھے اور مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت مذاکرات کے دوران کوئی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی‘ تاہم اس وقت کے اخبارات میں مغربی پاکستان کے مقبول لیڈر کا ایک فقرہ من و عن رپورٹ ہوا ''خداکے فضل و کرم سے ہم نے پاکستان کو بچا لیا‘‘۔ شیخ مجیب الرحمن اور چھ نکات کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق سے اختلاف کی گنجائش اس طرح ہے کہ سارا قصور مجیب الرحمن اور ان کے جماعت اور پڑوسی ملک پر ڈال کر بری الزمہ نہیں ہوا جا سکتا بقول شاعر ''وقت کرتا ہے پرورش برسوں/ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔ 1977ء کے الیکشن میں دو دہائی اکثریت کے حصول کے چکر میں ایسا چکر چلایا گیا کہ وزیراعظم کو تختہ دار پر پہنچا کر اگلے گیارہ سال تک ایسا مارشل لا نافذ رہا جس نے ملک کے سماجی تانے بانے کو ہی مسخ کر کے رکھ دیا۔
''آٹے کا گھاٹا‘‘ اور ''عشرۂ ترقی سے چینی چوری تک‘‘ ان دونوں مضامین کو پڑھتے ہوئے شائبہ ہوا کہ مصنف چھ آٹھ ماہ قبل پیش آنے والے واقعات کا ذکر کر رہے ہیں مگر ایسا نہیں ہے‘ ان مضامین میں 1953ء میں آٹے اور 1968ء میں چینی کی شدید قلت کے واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔ چینی اور آٹے کے مسائل 76سال گزرنے کے باوجود حل نہیں کیے جا سکے۔ وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ عوام سٹاک ہوم سنڈروم میں مبتلا ہیں اور اپنا استحصال کرنے والوں سے عقیدت رکھتے ہیں۔ کتاب کا آخری مضمون نہایت دلچسپ ہے کہ طوالت سے گریز کرتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہوں گی کہ پیروں فقیروں کی درگاہوں پر حاضری ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ جب عدم تحفظ کا احساس حد سے بڑھ جائے اور غلام گردش میں سائے منڈلاتے ہوئے نظر آئیں تو دم درود کی ضرورت تو پڑ ہی جاتی ہے۔ اس کتاب کو نوجوان نسل کو ضرور پڑھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں