پورا مسلمان کیہڑا ایہہ؟

ان من البیان السحرا۔بے شک بیان میں جادو ہے۔ اک حدیثِ پاک میں حسنِ خطابت کو جادو اثر کہا گیا ہے۔ جس طرح سے کوئی شخص جادو کے زیراثر آ جاتا ہے‘ اسی طرح سے وہ خطابت کے سحر میں بھی ایسا کھو جاتا ہے کہ اسے اپنا ہوش تک نہیں رہتا۔ اللہ نے مولانا طارق جمیل کو حسنِ خطابت کی دولت سے نوازا ہے۔ مولانا طارق جمیل اپنی خطابت کا سکہ اس کمالِ فن کے ساتھ دلوں پر بٹھاتے ہیں کہ ان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور لوگوں کی زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اللہ کسی شخص کو کوئی غیر معمولی نعمت عطا کرتا ہے تو ساتھ ہی اس نعمت کے تقاضوں اور ذمہ داریوں کی نشاندہی بھی فرما دیتا ہے۔ خطابت کی نعمت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ جب خطیب حق گوئی کا فریضہ انجام دے تو میزانِ عدل ہاتھوں میں تھام کر رکھے اور افراط و تفریط سے پرہیز کرے۔مولانا طارق جمیل کی خدمت میں کچھ عرض کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔یقینا مولانا کی نظر میں سورہ النحل کی آیت نمبر 125 ہوگی‘ جس میں حکمت ِتبلیغ کے بہترین اصول بیان کئے گئے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''اپنے رب کی طرف بلائو حکمت اور اچھی نصیحت سے اور اُن سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو... کسی کے سامنے بیٹھ کر اسے بلا ثبوت عمومی طور پر جھوٹا کہنا اور بے حیائی کا الزام لگانا اسلامی حکمت ِ تبلیغ کے منافی ہے۔ مولانا نے سارے میڈیا سے معذرت کر لی ہے ‘مگر مولانا کی خدمت میں بصد ادب کچھ گزارشات عرض کر دینی چاہئیں۔ کیا عمومی طور پر سارے میڈیا اور سارے میڈیا والوں کو جھوٹا کہنا بذاتِ خود جھوٹ کی ذیل میں نہیں آتا؟
بہت سی ضروری باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایک آخری بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ مولانا جناب عمران خان سے اور خان صاحب مولانا سے گہرا تعلقِ خاطر رکھتے ہیں۔ ٹیلی تھون میں اپنے دردمندانہ خطاب کو سمیٹتے ہوئے مولانا نے فرمایا تھا ''وزیراعظم آپ اکیلے ہی دیانتدار ہیں۔ عمران خان کو اجڑا چمن ملا‘ کہاں تک آباد کرے گا‘‘۔''اجڑے چمن‘‘ والے کہتے ہیں کہ ہم نے تو خان صاحب کو شاد اور آباد چمن دیا تھا مگر خان صاحب اور ان کے ساتھی چمن کی نگہبانی نہیں کر سکے۔ اجڑے اور آباد چمن کا موازنہ کرنے والوں نے دس پندرہ باتوں کا ذکر کیا ہے‘ مگر میں صرف ایک دو نکات پر اکتفا کروں گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اجڑے چمن میں شرح نمو 5.5 فیصد تھی اور 2019ء میں 6.2 فیصد کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ اب‘ آباد دنیا میں بات منفی شرح نمو تک پہنچ چکی ہے اور مہنگائی دو تین گنا بڑھ چکی ہے۔ کیا یہ تجزیہ فرماتے ہوئے جناب مولانا نے میزانِ عدل ہاتھوں میں تھام رکھا تھا؟
واعظوں کی ذمہ داریوں کا مختصراً تذکرہ ہو چکا۔ اب ذرا صحافیوں کی نازک ذمہ داریوں کا بھی کچھ تذکرہ ہو جائے۔ صحافیوں اور اینکروں میں بعض اتنے محتاط ہوتے ہیں کہ ایک ایک خبر اور ایک ایک سطر کی مکمل تحقیق کرتے ہیں۔ یقینا کچھ غیر محتاط بھی ہوتے ہیں اور سنی سنائی بات کو بھی نمایاں کر دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں استاذِ گرامی جناب ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب سے ایک بڑا مفید مکالمہ ہوا۔ ڈاکٹر صاحب محقق بھی ہیں‘ مفکر بھی ‘ مدرس بھی ہیں اور شاعر بھی ۔ میں نے سوچا کہ اس مفید مکالمے میں اپنے قارئین اور اپنے صحافی دوستوں کو بھی شریک کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ صحافت ان کا میدان نہیں‘ مگر بعض اوقات انہیں احباب کے اصرار پر صحافیوں کی مجالس میں اظہارِ خیال کرنا پڑتا ہے۔ چند برس پہلے کچھ سینئر صحافی حضرات نے ایک ایسے سیمینار میں خطاب کیلئے بلایا جہاں بہت سے نئے صحافیوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ میں نے نوجوان صحافیوں سے کہا کہ دیکھئے آپ نے ایک نازک ذمہ داری کو برضا ورغبت قبول کیا ہے۔ آپ کا قلم حقیقت نگاری سے کسی شخص کا مستقبل سنوار بھی سکتا ہے اور آپ کی غیر محتاط اور تخیلاتی رپورٹنگ کسی شخص کا مستقبل اور اس کا امیج بگاڑ بھی سکتی ہے۔اپنی بات کی مزید وضاحت کیلئے انہوں نے سرجیت سنگھ لامبا کے حوالے سے ایک واقعے کا تفصیلی تذکرہ کیا۔ میں قارئین کو بتا دوں کہ سرجیت سنگھ لامبا جو اردو اور فارسی ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں‘ اردو میں کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور شاعر بھی ہیں۔ وہ مختلف ادیان کے درمیان ہم آہنگی اور باہمی رواداری کے موضوع پر بھارت‘ پاکستان اور امریکہ وغیرہ میں لیکچر بھی دیتے رہے ہیں۔ سفیر برائے امن کے علاوہ انہیں '‘حافظِ اقبال‘‘ اور ''عاشقِ رسولؐ‘‘ کے القاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ لامبا صاحب کی پہلی کتاب ''نذرِ خسرو‘‘ کے نام سے 1975ء میں منظرعام پر آئی تھی۔ اس دوران وہ پاکستان بھی آتے تھے اور بڑے التزام کے ساتھ مزارِ اقبال پر حاضری بھی دیا کرتے تھے۔ لامبا صاحب کی دوسری اردو کتاب ''قرآنِ نعت‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انہوں نے جناب رحمۃ للعالمینﷺ کی ذات اور صفات کو نہایت احترام کے ساتھ اجاگر کیا ہے ‘ آپ ﷺ کو محسن انسانیت کے طور پر پیش کیا ہے اور تمام انسانوں کیلئے آپﷺ کی ہمدردی اور محبت کا تذکرہ کیا ہے۔ 
ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کے لامبا صاحب کے بارے میں چشم دید واقعے کا ذکر کرنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ ڈاکٹر رضوی صاحب نے کہا کہ پرانے وقتوں میں ایڈیٹر حضرات نہایت دقتِ نظر کے ساتھ اپنے رفقائے کار کی تحریروں پر نظر ثانی کیا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے معروف ادیب شوکت تھانوی کی آپ بیتی میں مذکور ایک واقعہ بھی سنایا کہ عالمِ جوانی میں تھانوی صاحب نے جالب دہلوی کے اخبار میں کام کرنے کا آغاز کیا تو جالب دہلوی ان کی تحریر کردہ خبروں پر سرخ قلم سے اتنے نشان لگاتے کہ بقول تھانوی صاحب‘ جیسے کالموں کی فوج پر سرخوں نے حملہ کر دیا ہو‘ مگر پھر آہستہ آہستہ ان کی غلطیاں معدوم ہو گئیں۔ ایک بار تھانوی صاحب نے رپورٹ میں اپنے ''اخبار کا نقطۂ نظر‘‘ لکھا تو جالبؔ صاحب نے اسے زوایۂ نگاہ کر دیا اور اس کی تشریح بھی کی۔ آج کل نیوز کاسٹرز خودکشی زبر کے ساتھ اور منظر کشی پیش کے ساتھ بولتے ہیں اورصحت زبان کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔اب آئیے رپورٹنگ کے اس غیر ذمہ دارانہ واقعے کی طرف جس کے ڈاکٹر خورشید رضوی چشم دید گواہ تھے۔ یہ غالباً 1980ء کی دہائی کا واقعہ ہوگا‘ ڈاکٹر صاحب ان دنوں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب اپنے علم و فضل اور سرگودھا میں اپنے طویل قیام کی بنا پر شہر میں نہایت قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ سرجیت سنگھ لامبا نے جب ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کا اقبال کے بارے میں یہ شعر سنا کہ؎
میں وہ محروم کہ پایا نہ زمانہ تیرا
تو وہ خوش بخت کہ جو میرے زمانے میں نہیں
تو بہت خوش ہوئے۔ اس خوشی کا اظہار انہوں نے خورشید رضوی صاحب کے نام ایک خط میں بھی کیا۔ اسی زمانے میں لامبا صاحب پاکستان آئے تو وہ سرگودھا بھی گئے۔ سرگودھا پریس کلب میں اپنے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب کے آغاز میں ہی انہوں نے ڈاکٹر خورشید رضوی سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا۔ منتظمین نے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کی تو وہ پریس کلب تشریف لے آئے۔ اگلے دو تین روز خورشید رضوی صاحب کی سرگودھا میں لامبا صاحب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں زیادہ تر اقبال اور اردو شاعری کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی۔ پریس کلب والی تقریب کے اگلے روز سرگودھا بار ایسوسی ایشن نے لامبا صاحب کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا ‘جہاں انہوں نے ... 
اردو ادب‘ شانِ مصطفیؐ اور اقبال کے بارے میں گفتگو کی۔ ان دنوں سرگودھا بار میں سید مسعود زاہدی‘ طفیل گوئندی اور حافظ محمد سعید ایڈووکیٹ جیسی نابغۂ روزگار شخصیات تھیں۔ لامبا صاحب سے کسی تقریب میں کوئی صحافی اگر کوئی سیاسی سوال پوچھتا تو وہ لبوں پر انگلی رکھ کر کہتے کہ سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ بار ایسوسی ایشن میں بھی لامبا صاحب نے سیاست کے حوالے سے ایک لفظ بھی نہیں کہا ‘ مگر اگلے روز کے ایک اخبار میں ان کے حوالے سے ایک سیاسی بیان منسوب کر دیا گیا۔ اس اخبار کا نمائندہ تقریب میں موجود بھی نہ تھا۔ اس خبر سے لامبا صاحب بہت بدمزہ ہوئے اور پھر اگلے کئی سال تک وہ پاکستان ہی تشریف نہ لائے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب نے ایسی رپورٹنگ سے نوجوان صحافیوں کو مکمل اجتناب برتنے کی نصیحت کی۔ اسی سفر کے دوران لاہور میں جب لامبا صاحب نے ختم الرسل محمد مصطفی ﷺسے گہری محبت و عقیدت کا اظہار کیا تو مدیرِ نقوش محمد طفیل نے کہا کہ سردار جی تسی تے ادھے مسلمان اوہ۔ اس پر لامبا صاحب نے بے ساختگی سے جواب دیا ''پورا مسلمان کیہڑا ایہہ‘ مینوں وکھا‘‘۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں