آنسو چھپانا اور لبوں پر مسکراہٹ سجانا آسان نہیں

کوئی تقریباً پندرہ روز پہلے رات کو میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اس وقت یہاں لاہور میں شب کے گیارہ بجے تھے جبکہ وہاں ٹیکساس‘ امریکہ میں دن کے بارہ بجے تھے۔ میرے بیٹے بلال نے اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے مجھے بتایا کہ ابو! میں ہسپتال میں داخل ہونے جا رہا ہوں آپ اطمینان سے سو جائیں۔ میں نے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے بیٹے کو دعا دی اور دل میں کہا کہ بیٹے کو کون سمجھائے کہ جن والدین کا جوان بیٹا کورونا کے مرض میں مبتلا ہو کر ہسپتال داخل ہونے جا رہا ہو انہیں نیند کب آتی ہے۔
میرا بیٹا ڈاکٹر بلال ایمرجنسی سپیشلسٹ ہونے کی بنا پر کورونا کے خلاف فرنٹ لائن سولجر ہے۔ وہاں امریکہ کے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کو چیک کرنے کیلئے تمام تر احتیاطی سازوسامان ہسپتالوں میں موجود ہوتا ہے۔ بلال گزشتہ آٹھ نو ماہ سے مریضوں کو چیک کرتے ہوئے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کرتا رہا مگر ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔ کوئی پندرہ سولہ روز پہلے بلال کو معمولی علامات سے یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ کورونا تو نہیں۔ جب ٹیسٹ کروایا گیا تو وہ پازیٹو تھا۔ بلال اپنے وسیع گھر کے سیکنڈ فلور کے کمرے میں قرنطینہ ہو گیا۔ آغاز کے چھ سات روز تو بڑے اطمینان سے گزرے اور اُس نے اس جبری فرصت کو غنیمت جانا اور اپنے ذوقِ مطالعہ کی تسکین کیلئے اُن کتابوں کو بھی جھاڑ پونچھ کر میز پر رکھا جو ہفتوں سے اس کی توجہ کی منتظر تھیں؛ تاہم جب بلال کو سانس میں قدرے دقّت محسوس ہوئی تو وہ امریکی سینئر ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق ہسپتال میں داخل ہونے کیلئے روانہ ہو گیا‘ اور یہی وہ دن تھا جب بلال نے ہمیں بھی یہ تشویشناک خبر دی۔ اگرچہ بلال کی تکلیف کوئی اتنی زیادہ سیریس نہ تھی مگر دو الفاظ ایسے تھے کہ جنہوں نے ہمیں مضطرب کر دیا۔ ایک لفظ کورونا اور دوسرا ہسپتال۔ انسانی نفسیات بھی بڑی عجیب چیز ہے۔ انسان اس وقت تک کسی ناخوشگوار حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا جب تک کہ وہ مصیبت اس کے گھر کا رخ نہیں کر لیتی یا اس کا کوئی پیارا وبا کا شکار نہیں ہو جاتا‘ تب انسان کو حق الیقین ہو جاتا ہے کہ یہ حقیقت ہے افسانہ نہیں۔
اگلے چار پانچ روز ہمارے لیے قیامت کے دن اور قیامت کی راتیں تھیں۔ شب و روز دعائیں بھی التجائیں بھی‘ اللہ کے حضور آہ و زاری بھی۔ اس دوران ایک بار میرے دل میں خیال آیا کہ میں بھی مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر جیسی دعا کروں جو اس نے اپنے بیٹے ہمایوں کی صحت یابی کیلئے کی تھی۔ کہیں سے روشنی کی مانند ایک حدیثِ قدسی کا مضمون میرے ذہن میں چمکا جس میں اللہ بیان فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ مجھ سے گمان رکھتا ہے۔ میں نے فوراً استغفار کیا اور بابر کی مثال کو ذہن سے جھٹک دیا۔ میں نے سوچا کہ خدا تو قادرِ مطلق ہے وہ ''کن‘‘ کہتا ہے تو ہر کام فی الفور ہو جاتا ہے۔ ایسی ہستی کے لامحدود اختیارات کو محدود سمجھنا ایک طرح سے کفرانِ نعمت ہے۔ ڈیلس کے ایک بڑے ہسپتال میں بنگلہ دیشی ڈاکٹر مشفق اور کئی امریکی ڈاکٹروں کی نگرانی میں بلال کا بہترین علاج معالجہ ہوتا رہا۔ وہاں کے نظام میں ہر دوا‘ ہر ٹیسٹ اور ہر ضرورت کی فراہمی ہسپتال کے ذمہ ہوتی ہے۔ اس دوران بلال کی بیگم‘ دو ننھے منے بچوں اور ایک نوزائیدہ بیٹی کا کورونا بھی پازیٹو آگیا۔ اس سے تشویش اور بھی بڑھ گئی‘ مگر مقامِ شکر ہے کہ ان سب پر کورونا کا بڑا خفیف سا حملہ ہوا‘ لہٰذا ڈاکٹروں نے انہیں گھر پر رہنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔
زندگی میں جب کبھی آنسوئوں کو پلکوں میں چھپانا اور مسکراہٹوں کو ہونٹوں پر سجانا پڑا ہو تو یہ بڑے اذیّت ناک لمحے ہوتے ہیں۔ انہی دنوں ہماری ایک قریبی عزیزہ کی رخصتی کی تقریبات کا یہاں لاہور میں آغاز ہو چکا تھا۔ اس عزیزہ کی ایک مختصر سی ڈھولک ہمارے گھر پر بھی تھی۔ انہیں کسی طرح بلال کی بیماری کا معلوم ہو گیا تو انہوں نے یہ تقریب منسوخ کرنے کی تجویز دی تو ہم نے بلال ہی کی ہدایت کے مطابق اس میں کوئی تبدیلی نہ کی اور اپنے غم اور درد کو دل میں چھپا لیا۔
درد ہوتے ہیں کئی دل میں چھپانے کے لیے
سب کے سب آنسو نہیں ہوتے بہانے کے لیے
آنسو جتنے تھے وہ بلال کی ماں اور میں ‘صرف اور صرف اپنے خدا کے سامنے بہاتے رہے۔ باقی عزیزوں اور دوستوں میں سے جس کسی کو معلوم ہوا انہوں نے بھی نہایت صدقِ دل کے ساتھ دعائیں کیں۔ بلال تیزی سے روبصحت ہوتا چلا گیا۔ پانچویں روز ڈاکٹروں نے کورونا کی رپورٹ نیگیٹو آنے پر اسے گھر بھیج دیا۔ بلال نے علاج کے ساتھ ساتھ قوتِ ارادی سے کام لیا جو بذاتِ خود دوا کی تاثیر رکھتی ہے۔ الحمد للہ بلال کی اپنی اور ہماری دعائیں اللہ نے سن لیں۔ 
اس ذاتی قصّۂ درد کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ تمام قارئین کو معلوم ہو جائے کہ کورونا کی دوسری لہر جس سے اس وقت دنیا گزر رہی ہے‘ وہ پہلے سے کئی گنا شدیدتر ہے۔ اس لیے دوسری لہر سے محفوظ رہنے کیلئے حفاظتی تدابیر بھی پہلے سے بڑھ کر ہونی چاہئیں‘مگر ہمارے ہاں اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ ضیا الدین ہسپتال کراچی کے کورونا سپیشلسٹ ڈاکٹر نے خبردار کیا ہے کہ روزانہ مریضوں کی تعداد بہت بڑھ رہی ہے اور اموات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ایک بیڈ کیلئے دس دس مریض انتظار میں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے تعلیم یافتہ لوگوں کے انتہائی غیرمحتاط رویے کو شدت سے نشانۂ تنقید بنایا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ لوگ شادی کی بڑی بڑی تقریبات ہی نہیں بلکہ عام دنوں کی طرح گھروں پر بھی بڑی بڑی پارٹیاں ترتیب دے رہے ہیں۔ انہوں نے نہایت دردمندی کے ساتھ لوگوں کو اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ کم و بیش یہی صورتحال باقی تمام صوبوں کی بھی ہے۔ ایک طرف کورونا کے دوسرے مرحلے کی تباہ کاریاں ساری دنیا میں ہی نہیں پاکستان میں بھی عروج پر ہیں مگر دوسری طرف ہمیں یہ خوش خبری بھی مل رہی ہے کہ اس وبائی صیاد کے دن تھوڑے ہیں۔ اس وقت پانچ سے زیادہ ویکسینز آخری مرحلہ بھی تقریباً مکمل کر چکی ہیں۔ ہر نئی دوا یا ویکسین کے عمومی استعمال سے پہلے اسے تین مراحل مکمل کرنا پڑتے ہیں جن پر بالعموم کئی سال لگ جاتے تھے مگر چونکہ اس وبا نے اہل دنیا کی صحت کو ہی نہیں معیشت کو بھی تباہ کر دیا ہے اس لیے ویکسین کے تکمیلی مراحل کو تیزی سے مکمل کیا گیا ہے۔ اس وقت جو پانچ ویکسینز تکمیلی مراحل میں ہیں ان میں سے فائزر اور موڈرینا ویکسینز کے تینوں مراحل کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان دونوں کے رزلٹ 90 فیصد بتائے جا رہے ہیں جو کامیابی کی بڑی بلند شرح سمجھی جاتی ہے۔ برطانیہ میں تو اس ہفتے سے ویکسین کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں اپریل مئی سے پہلے کسی ویکسین کے آنے کی امید نہیں۔ وسط اکتوبر سے کورونا کی دوسری لہر شروع ہو چکی تھی اور وزیراعظم عمران خان اور اُن کے وزرا صرف دو ہفتہ پہلے تک جلسے کر رہے تھے۔ اُس وقت انہوں نے کورونا کی ہلاکت خیزی کا کوئی خیال نہ کیا‘ مگر اب وہ اپوزیشن کو کبھی ڈراتے ہیں اور کبھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اپوزیشن بھی ایک نہیں سنتی۔ اگر وزیراعظم اپنا دھمکی آمیز رویہ نہیں بدلتے تو بالآخر ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کی طرح بیچارے عوام ہی روندے جائیں گے۔اسی طرح جب تک عوام بھی اپنا سماجی رویہ تبدیل نہیں کرتے اور شہروں میں ہی نہیں‘ دیہاتوں تک میں اپنا طرزِعمل اور طرزِ زندگی نہیں بدلتے تو کورونا کی دوسری لہر جاتے جاتے بہت بڑا نقصان کر جائے گی۔ اللہ ہم سب کو کورونا کے دکھ سے بچائے اور دکھوں پر مسکرانے کی اذیت سے محفوظ رکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں