مجالسِ سیّد مودودی

علامہ اقبال ؒ نے فرمایا تھا؎
بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش
اگرچہ سر نتراشد قلندری داند
اقبال کی مجلس میں آئو اور ایک دو جام پیو۔ اگرچہ اس نے سر نہیں منڈا رکھا مگر وہ قلندری کے اسرار و رموز سے بخوبی آگاہ ہے۔
یہاں مجلس ِ اقبال سے مراد کلام ِاقبال ہے؛ تاہم لاہور میں علامہ کے طویل قیام کے دوران اُن کے دل اور گھر کے دروازے بھی ہر خاص و عام کے لیے کھلے رہتے تھے۔ ان مجالس کا احوال کسی حد تک سید نذیر نیازی نے اپنی تصنیف ''اقبال کے حضور: نشستیں اور گفتگوئیں‘‘ میں بیان کیا ہے۔ جناب نذیر نیازی نہایت التزام کے ساتھ علامہ اقبالؒ کے ہاں حاضری دیتے۔ ان ملاقاتوں میں بالعموم جناب عبدالمجید سالک اور مولانا غلام رسول مہر بھی شامل ہوتے۔ ان نشستوں میں سیاسی‘ علمی‘ ادبی اور دینی و فقہی موضوعات زیرِ بحث آتے تھے۔ ان شخصیات کے علاوہ علامہ کی خدمت میں علمائے کرام‘ اساتذہ‘ وکلا اور طلبہ وغیرہ بھی حاضر ہوتے رہتے اور کسبِ فیض کرتے تھے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی 1903ء میں دنیا میں وارد ہوئے اور 1979ء میں واپس اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ اس دوران اپنی پچاس ساٹھ سالہ ورکنگ لائف میں انہوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ ناقابلِ یقین محسوس ہوتے ہیں۔ وہ اسلام کے نشیمن میں چراغِ نور تھے۔ سید مودودی مفکر بھی تھے‘ مصنف بھی تھے‘ مفسر بھی تھے‘ معلم بھی تھے‘ مربی بھی تھے‘ مؤرخ بھی تھے۔ وہ سیرت ساز بھی تھے اور گوہر شناس بھی تھے۔ وہ عالم بھی تھے اور اصول پسند سیاستدان بھی تھے۔ مولانا مودودی پندرہ سولہ برس کی عمر سے مختلف ہفت روزہ اور یومیہ جرائد میں بحیثیت مدیر فرائض انجام دیتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کا کام بھی کرتے رہے۔ 1927ء میں صرف 24 برس کی عمر میں انہوں نے ''الجہاد فی الاسلام‘‘ کے موضوع پر شہرہ آفاق کتاب لکھی جسے دیکھ کر علامہ اقبالؒ دنگ رہ گئے۔ انہوں نے نوجوان مصنف کو خوب داد دی اور فرمایا کہ ہر تعلیم یافتہ شخص کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ 1937ء میں سید مودودی نے علامہ اقبال سے لاہور میں ملاقات کی۔ علامہ نے انہیں پٹھانکوٹ کے مجوزہ علمی مرکز کو آباد کرنے پر آمادہ کیا۔ مارچ 1938ء کو سید مودودی علامہ اقبال کے مشورے اور ایما پر حیدرآباد دکن کے خوبصورت تہذیبی مرکز کو چھوڑ کر جمال پور‘ پٹھانکوٹ میں آباد ہوگئے۔ پھر 1939ء میں وہ لاہور آگئے جہاں انہوں نے 1941ء میں 75 افراد کے اجتماع میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ مولانا مودودی کو متفقہ طور پر جماعت اسلامی کا پہلا امیر منتخب کر لیا گیا۔
1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں سید مودودیؒ اگر لاہور میں موجود ہوتے تو وہ نمازِ عصر کے بعد اپنی رہائش گاہ 5اے ذیلدار پارک کے لان میں تشریف فرما ہوتے۔ ان عصری مجالس میں بغیر کسی روک ٹوک کے ہر کوئی شامل ہو سکتا تھا اور وہ جو چاہتا اور جس موضوع پر چاہتا اس پر گفتگو کر سکتا تھا۔ جس طرح سے سید نذیر نیازی نے حضرت علامہ اقبالؒ کے ہاں حاضری اور وہاں ہونے والی گفتگوئوں کو قلم بند کیا ہے اسی طرح ممتاز اقبال شناس اور مولانا مودودی کے مداح جناب ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے مولانا مودودی کی عصری مجالس میں زیرِ بحث آنے والے سوالات و جوابات اور علمی و سیاسی اور دینی و فقہی مباحث کو تحریر کا جامہ پہنایا۔ ان مجالس کا احوال پڑھتے ہوئے قاری یوں محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ بنفس نفیس مولانا کی مجالس میں شامل ہے اور براہِ راست اکتسابِ فیض کر رہا ہے۔
آج کے بزرگ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اُن دنوں اورینٹل کالج لاہور میں ایم اے اردو کے طالب علم تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے 1965ء سے لے کر 1968ء تک کی سید مودودی کی عصری مجالس کی روداد ''مجالسِ سید مودودی‘‘ کے نام سے نہایت ذوق و شوق کے ساتھ قلم بند کی ہے۔ اس کتاب کو منشورات نے اہتمام کے ساتھ زیورِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ ان مجالس کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے۔ ان نشستوں میں زیرِ بحث آنے والے بعض موضوعات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم ابھی تک وہیں کھڑے ہیں جہاں ہم آج سے نصف صدی پہلے کھڑے تھے۔
سید مودودی کی ایک عصری مجلس میں گفتگو ہو رہی تھی کہ ''قیام پاکستان کے مقاصد اب تک پورے نہیں ہو سکے‘ اس میں کس کا قصور ہے؟ قوم کا یا لیڈروں کا؟‘‘ مولانا نے جواب دیا: ''دونوں کا... لیڈروں نے قوم کو بار بار اُلّو بنایا لیکن قوم نے بھی ابھی تک کوئی سبق نہیں لیا۔ قیام پاکستان کے بعد کا طویل عرصہ کچھ معنی رکھتا ہے۔ اس مدت میں ہم قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت کچھ کر سکتے تھے لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔
پاکستانی افواج کی شجاعت اور بہادری کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ مولانا نے اپنے ایک عزیز کی شجاعت کا ایک واقعہ سنایا۔ ''اس نوجوان نے کاکول ملٹری اکیڈمی سے فراغت حاصل کی تو ستمبر 1965ء کی جنگ شروع ہوچکی تھی۔ اُسے بھی محاذ پر بھیج دیا گیا۔ سیالکوٹ سیکٹر میں ہمارے ایک افسر نے دوربین کے ذریعے دیکھا کہ دشمن کے چالیس ٹینک حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھے چلے آرہے ہیں۔ ہمارے افسر کے پاس صرف دو ٹینک تھے۔ افسر نے اس نوجوان سمیت چند جوانوں کو گرنیڈ وغیرہ دے کر حکم دیا کہ وہ جیپ پر سوار ہو جائیں اور دشمن کے ان چالیس ٹینکوں کے درمیان گھس کر انہیں تباہ کردیں۔ جب یہ نوجوان ٹینکوں کے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ یہاں اسلحہ اور بارود سے لدے ہوئے کچھ ٹرک بھی ہیں۔ انہوں نے ٹرکوں پر گرنیڈ پھینکے جس سے بارود کے ذخیرے کو آگ لگ گئی۔ اس نے دشمن کی صفوں میں زبردست تباہی مچا دی۔ دھویں کے ان بادلوں کے درمیان وہ اپنا کام کر کے واپس روانہ ہوئے۔ واپسی پر دشمن کی گولیوں سے وہ نوجوان شدید زخمی ہوگیا مگر وہ اسی حالت میں ایک ہاتھ سے جیپ چلاتا ہوا اپنے افسر کے پاس پہنچ گیا۔ اسے ستارئہ جرأت دیا گیا‘‘۔ 3 اکتوبر 1965ء کی نشری تقریر میں مولانا نے فرمایا ''ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اور اس ایک مہینے کے دوران میں ہر لمحے ہمیں اس کا تجربہ ہو چکا ہے کہ اسلام ہی وہ طاقت تھی جس کے بل پر ہم دشمنوں کا منہ پھیر دینے میں کامیاب ہوئے ہیں‘‘۔
ایک صاحب نے پوچھا ''مولانا! لوگ بیوی کو نام لے کر نہیں پکارتے، کیا شرعاً اس میں کوئی قباحت ہے؟‘‘ مولانا نے فرمایا: ''شرعاً کوئی قباحت یا ممانعت نہیں ہے۔ خود نبی کریم ﷺ نے اپنی بیوی کو یاعائشہ کہہ کر پکارا۔ دراصل ہمارے ہاں یہ رسم ہندوئوں کے ذریعے آئی ہے۔ ہندوئوں میں یہ ہے کہ بیوی شوہر کا نام نہیں لے سکتی اس کا اثر مسلمانوں پر بھی پڑا۔ اس لیے مسلمان عورتیں اپنے خاوندوں کو منے کا ابا وغیرہ کہہ کر پکارتی ہیں۔ شوہر اپنی بیویوں کو منے کی اماں وغیرہ کہتے ہیں اور یہ چیز بعض اوقات غیرضروری احتیاط کی شکل اختیار کر لیتی ہے‘‘۔
''مجالس سید مودودی‘‘ رنگا رنگ پھولوں کا نہایت دیدہ زیب گل دستہ ہے۔ اس گل دستے میں سیاست بھی ہے‘ معرفت بھی ہے‘ علم و آگہی بھی ہے‘ شعرو ادب بھی ہے اور فیضِ صحبت بھی ہے۔ مختصر یہ کہ دنیا جہان کی معلومات کا گلشن ہے کھلا ہوا۔ ایک بار آپ کتاب شروع کریں گے تو پھر اسے ختم کیے بغیر جدا کرنا مشکل ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں