باعثِ تاخیر

یقین کیجئے تحریک انصاف میں میری پسندیدہ شخصیت جناب پرویز خٹک ہیں۔ وہ کم گو، کم آمیز اور مرنجاں مرنج انسان ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے وزیروں اور ترجمانوں کی عمومی گرم گفتاری اور طعنہ زنی کے کلچر سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ وہ کیبنٹ میٹنگ میں یوں دکھائی دیتے ہیں جیسے جل بن مچھلی۔ اُن کی اصل جولاں گاہ اُن کا اپنا صوبہ خیبر پختونخوا ہے۔ تحریک انصاف نے کے پی اور پنجاب میں ایسے وزرائے اعلیٰ کو تعینات کیا‘ جن کی اطاعت و فرمانبرداری ہر طرح کے شک و شبہے سے بالاتر ہے؛ تاہم اگلے روز جناب پرویز خٹک نے نوشہرہ جا کر وہاں کے ضمنی انتخاب میں شکست کے اسباب پر جو روشنی ڈالی ہے اسے سن کر ع ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے۔
پرویز خٹک نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے ایک منصوبہ بندی کے تحت الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر ہمیں شکست دی۔ اُن جیسے سنجیدہ فکر شخص سے مجھے ایسی بات کی توقع نہ تھی۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ صوبے میں اُن کی حکومت، مرکز میں اُن کی حکومت اور یہ حکومت اعلیٰ ملکی اداروں کے ساتھ ایک پیج پر ہونے کی دعویدار بھی ہے تو پھر اُن کے خلاف سازش کیسے ہو گئی؟ خیبر پختونخوا کی پی ٹی آئی کے بعض قائدین کا کہنا یہ ہے کہ ع
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ان قائدین نے حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے، تحریک انصاف کی گرتی ہوئی مقبولیت اور بے حدوحساب بڑھتی ہوئی مہنگائی میں شکست کے اسباب تلاش کرنے کے بجائے سارا ملبہ خٹک فیملی کے اندرونی اختلافات پر ڈال دیا ہے۔ اب چلتے ہیں پنجاب کی طرف۔ اگرچہ پی ٹی آئی کو ہر صوبے کے ضمنی الیکشن میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے جو اُن کے خلاف ایک ریفرنڈم کی حیثیت رکھتا ہے؛ تاہم الیکشن کمیشن کی آبزرویشن کے مطابق ڈسکہ کی سیٹ کے بارے میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔ 20 پولنگ سٹیشنوں کا عملہ ساری رات نتائج سمیت غائب رہا۔ اگلی صبح جب وہ نتائج کے تھیلوں سمیت آر او کے دفتر رزلٹ جمع کرانے پہنچے تو کئی تھیلوں کے نتائج میں مبینہ طور پر ٹمپرنگ تھی۔ صبح دم گھبرائے ہوئے بالائے بام آنے والے پریذائیڈنگ افسروں میں ہر کسی کی اپنی کہانی تھی۔ کوئی دھند میں پھنسا رہا، کسی کی گاڑی خراب ہو گئی اور کسی کی عینک ٹوٹ گئی، یوں چند کلومیٹر کا فاصلہ شب بھر میں طے نہ ہوسکا؛ البتہ تمام پریذائیڈنگ افسروں کے بیانات میں ایک بات مشترک تھی کہ سب کے موبائل فونز کی بیٹری ڈائون ہو چکی تھی یا وہ آئوٹ آف ریچ ہو گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کے لیے یہ بات اور بھی حیرت کا باعث تھی کہ ڈسکہ الیکشن کی رات پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسران رابطے میں تھے اور نہ ہی پنجاب الیکشن کمیشن کے ذمہ داران۔ پریذائیڈنگ افسران سے پوچھنے والا اصل سوال یہ ہے کہ آپ کو آنے میں تاخیر کیوں ہوئی؟ آپ اپنی مرضی سے غائب ہوئے یا آپ کو زبردستی غائب کیا گیا اور پھر ساری رات آپ کہاں رہے؟ اس دوران نتائج کو کس نے تبدیل کیا؟
اصل سوال یہ ہے کہ ''ڈسکہ کی دھند‘‘ میں لپٹی ہوئی پسِ پردہ کہانی کیا ہے؟ الیکشن کمیشن کے لیے اس واردات کے تمام اہم کرداروں کا کھوج لگانا نہایت ضروری ہے۔ بقول شاعر؎
شام ڈھلتے ہی چھا گئی دھند/ بیس بندوں کو کھا گئی دھند
کر دیا بند سب کی آنکھوں کو/ فون تک میں سما گئی دھند
الیکشن کمیشن کی اپنی معلومات کے مطابق دن بھر ڈسکہ میں ہوائی فائرنگ ہوتی رہی۔ ہوائی فائرنگ کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ گھروں میں سہم جاتے ہیں اور خوف و ہراس کی وجہ سے ووٹروں کا سیل روال تھم جاتا ہے۔
مسلم لیگ(ن) کے بعض قائدین نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ جان بوجھ کر پولنگ کی رفتار کوسست کیا گیا تاکہ لمبی قطاروں میں کھڑے لوگ بھوک پیاس سے تنگ آکر اور فائرنگ کی آوازوں سے خوفزدہ ہوکر گھروں کو لوٹ جائیں اور ووٹنگ ٹرن آئوٹ کم ہوجائے۔ یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ ہر جگہ پولیس کی بھاری نفری موجود تھی مگر اس نے امن و امان قائم کرنے میں کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ دو نوجوان شہید ہوگئے۔ یہ کوئی چھوٹا نقصان نہیں بہت بڑا نقصان ہے۔ جن گھروں کے چراغ بجھ گئے ہیں ذرا اُن سے پوچھئے کہ کیسے اُن کے دلوں کی دنیا اندھیر ہوچکی ہے۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ آج کا الیکشن کمیشن کوئی تاریخ ساز کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ 2018ء کے انتخابات کے سلسلے میں کئی انگلیاں اس ادارے کی طرف اٹھتی رہی ہیں۔ حکمران جماعت کے خلاف فارن فنڈنگ کیس الیکشن کمیشن میں چھ برس تک زیر التوا رہا اب اس میں بھی کوئی حرکت دیکھنے میں آرہی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ڈسکہ این اے 75 کا الیکشن 18 مارچ کو دوبارہ کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اس جرأت مندانہ فیصلے سے سرکاری ملازمین اور سیاستدان کسی حد تک محتاط بھی ہو جائیں گے مگر دھاندلی کے کلچر میں حقیقی تبدیلی اس دن آئے گی جس دن سیاستدان تہ دل سے اس کے خاتمے کا فیصلہ کر لیں گے۔ ''ڈسکہ کی دھند‘‘ میں ہونے والی دھاندلی کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی یہ سلسلہ 1951ء سے شروع ہوا۔ اس وقت پنجاب میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا نام ''جھرلو‘‘ رکھا گیا تھا۔ یہ دھاندلی جنرل ایوب خان کے بی ڈی صدارتی انتخابات سے لے کر سیاستدانوں کے ادوار سے ہوتی ہوئی جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم تک جاری رہی۔ 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے مسلم لیگ(ن) پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور اب 2018ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) الزامات عائد کر رہی ہے۔
پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان عالم اسلام کے ان دوچار گنے چنے ممالک میں ہے‘ جہاں جمہوریت کی نعمت کسی نہ کسی رنگ میں موجود ہے جبکہ باقی ممالک میں ملوکیت ہے یا آمریت۔ سیاست دانوں کو جمہوریت کی اس نعمت پر شکرگزار ہونا چاہئے اور اسے زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی سعی کرنی چاہئے۔ 14 مئی 2006ء کو لندن میں میاں نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور دیگر کئی سیاستدانوں نے میثاقِ جمہوریت پر اتفاق کیا تھا۔ اس میثاق میں یہ طے کر دیا گیا تھاکہ سیاستدان آئندہ ایک دوسرے کی ٹانگیں نہیں کھینچیں گے اور کسی آمر کا ساتھ نہیں دیں گے‘ مگر میثاقِ جمہوریت کے کچھ سال بعد ہی دونوں بڑی جماعتوں نے ایک دوسرے پر طعن و طنز کے تیر برسائے جس سے میثاقِ جمہوریت کی روح بری طرح مجروح ہوگئی۔
دھاندلی کا بنیادی سبب کیا ہے؟ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ جب کوئی سیاستدان یا حکمران یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے ہر قیمت پر کامیابی چاہئے تو پھر وہ اپنی جیت کیلئے ہر حربہ استعمال کرتا ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں۔ انہیں چاہئے کہ قوم کو 73 سالہ انتخابی دھاندلی کی اذیت سے نجات دلائیں۔ اتفاق رائے اور باہم صلاح مشورے سے انتخابی اصلاحات کریں۔ یہ انتخابی اصلاحات دونوں بڑی پارٹیوں کے منشور میں شامل ہیں۔ ہماری درخواست ہوگی کہ ساری سیاسی پارٹیاں انتخابی اصلاحات کے عمل خیر میں مزید تاخیر نہ کریں۔ جہاں تک ڈسکہ کی انتخابی دھند کے سربستہ راز کا تعلق ہے تو اس راز کو صرف دو الفاظ طشت ازبام کر سکتے ہیں۔ وہ دو الفاظ ہیں ''باعثِ تاخیر‘‘۔ مرزا غالب نے کہا تھا؎
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا
بیس کے بیس پریذائیڈنگ افسروں سے الگ الگ الیکشن کمیشن پوچھے کہ ''باعثِ تاخیر‘‘ کیا تھا اور عناں گیر کون تھا؟ یہ معلوم ہوگیا تو ساری پس پردہ کہانی اپنے کرداروں سمیت سامنے آجائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں