مہلت

ہفتے کے روز اسمبلی کے اندر جناب وزیراعظم عمران خان اعتماد کا ووٹ لے کر دھواں دھار تقریر کر رہے تھے اور اپنے سیاسی حریفوں پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے ایوان کے ماحول کو گرما رہے تھے۔ ایوان سے باہر پی ٹی آئی کے کارکنان نے ڈی چوک سے ریڈزون میں آکر پارلیمنٹ لاجز کے باہر مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی پریس کانفرنس پر دھاوا بول دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگ زیب کے ساتھ بدتہذیتی و بدتمیزی کا مظاہرہ کیا‘ احسن اقبال پر جوتا پھینکا‘ سنجیدگی و رواداری کے پیکر مصدق ملک کو تھپڑ مارا اور شاہد خاقان عباسی کو دھکے دیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس موقع پر گتھم گتھا ہونے والے کارکنان کو پولیس نے روکا نہ ٹوکا۔ خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ جناب وزیراعظم ایوان کے اندر اس افسوسناک واقعے کی خبر ملنے پر اپنے کارکنوں کے رویّے کی مذمت کریں گے مگر رات گئے تک وزیر داخلہ شیخ رشید کی ملفوف مذمت کے علاوہ پی ٹی آئی کے کسی قابلِ ذکر قائد کی طرف سے مذمت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
ٹی وی سکرینوں پر یہ منظر دیکھ کر مجھے 1970ء کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ جب اسلامی جمعیت طلبہ کے بعض پرجوش نوجوانوں نے سٹوڈنٹس یونین کے نتائج میں تاخیر کی بنا پر اُس وقت کے وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی جناب علامہ علاء الدین صدیقی کے ساتھ تلخ کلامی کی اور اُن کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی۔ اگلے روز کے اخبارات سے جب یہ خبر امیر جماعت اسلامی مفسر قرآن مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ تک پہنچی تو انہیں بہت صدمہ ہوا اور انہوں نے بلاتاخیر اس واقعے کی شدید مذمت کی اور فرمایا کہ نوجوانوں نے میری تیس سالہ محنت پر پانی پھیر دیا۔ اس واقعے کے ذمہ دار طلبہ کو طویل مدت کی سزائیں سنائی گئیں۔ مگر اب زمانہ بدل چکا ہے اس لیے پی ٹی آئی کے لوگ اظہارِ ندامت کے بجائے شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں تاہم اس آتشیں ماحول میں پی ڈی ایم کے قائدین نے بردباری کا ثبوت دیا ہے۔
جناب عمران خان نے سینیٹ کے الیکشن میں پیسے کی ریل پیل کا بہت ذکر کیا اور اسلام آباد کی سیٹ پر حفیظ شیخ جیسی اہم شخصیت کی شکست کو کروڑوں کا کرشمہ قرار دیا۔ انہوں نے بلوچستان میں سینیٹ کی نشست مبینہ طور پر 70کروڑ میں خریدنے والے عبدالقادر اور 35کروڑ کے بدلے سندھ سے سیٹ حاصل کرنے والے سیف اللہ ابڑو کی پی ٹی آئی کی طرف سے بھرپور حمایت کا کوئی جواز پیش نہیں کیا۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں یوسف رضا گیلانی کی جیت کو اپنے 16 ارکانِ اسمبلی کی فروخت کا ''کارنامہ‘‘ قرار دیا مگر مقامِ حیرت ہے کہ انہوں نے انہی 16 ''مشتبہ‘‘ ارکان سے اعتماد کا ووٹ لے لیا۔ اگر خان صاحب واقعی اتنے اصول پسند تھے تو پھر انہوں نے کروڑوں خرچ کرنے والوں کی حمایت کیوں کی اور بقول اُن کے قومی اسمبلی میں کروڑوں روپے لے کر ووٹ بیچنے والوں کی حمایت کیوں حاصل کی اور اُن کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہ لیا۔ اس کا حقیقی سبب تو شیخ رشید صاحب نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتا دیا تھا کہ اگر ہم بیس مشتبہ افراد کے ووٹ نہ لیتے تو آج ہم ''یوسف بے کارواں‘‘ ہوکر پھر رہے ہوتے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جناب وزیراعظم اور اُن کے کئی وزرا الیکشن کمیشن پر کیوں گرجے اور برسے۔ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے کہ جس نے پی ٹی آئی کے ایک سابق رکن قومی اسمبلی کو اڑھائی برس تک ریلیف دیا اور چھ برس تک فارن فنڈنگ کیس کو سردخانے میں ڈالے رکھا۔ یہ وہی الیکشن کمیشن ہے کہ جس نے 2018ء کے انتخابات میں کسی اشارے پر غضّ بصر سے کام لیا۔ الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے۔ اس کا بھی احترام عدالت عظمیٰ کی طرح ہونا چاہئے۔ خان صاحب شعلے بھڑکاتے اور شیخ رشید جیسے زیرک سیاستدان انہیں بجھاتے ہیں۔
جناب وزیراعظم گزشتہ تین برس سے اپوزیشن کو دھمکیاں دینے والی ایک ہی تقریر کیے چلے جارہے ہیں۔ عام آدمی کو ان دھمکیوں اور بڑھکوں سے کوئی سروکار نہیں۔ اُس کے دنوں کا چین اور راتوں کا سکون برباد ہوچکا ہے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ بندئہ مزدور‘ بندئہ کاشتکار اور بندئہ سفیدپوش جن اذیتوں اور فاقوں سے گزر رہے ہیں اُن کا والیٔ ریاست کو کچھ علم نہیں۔ اس وقت مہنگائی عروج پر‘ بے روزگاری عروج پر‘ مصائب و مشکلات عروج پر اور مڈل کلاسیوں میں بے دلی عروج پر ہے۔ یہ وہی مڈل کلاسیے ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عمران خان کی پکار پر لبیک کہا اور تبدیلی کے سلوگن کو اپنے گلے کا ہار بنایا اور خان صاحب کا الیکشن میں ہاتھ بٹایا تھا۔ آج وہی مڈل کلاسیے خان صاحب کی مایوس کن کارکردگی سے دلبرداشتہ ہوچکے ہیں۔
یہ امر میرے لیے باعثِ صد حیرت ہے کہ ٹیم سپرٹ کی اہمیت سے کرکٹ کے ایک انتہائی کامیاب بلکہ ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان سے بڑھ کر کون آگاہ ہو سکتا ہے۔ ایک کپتان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ٹیم میں فاسٹ بائولرز کتنے‘ سپن بائولرز کتنے‘ اچھے بیٹسمین کتنے اور بہترین فیلڈرز کتنے ہونے چاہئیں۔ خان صاحب نے بحیثیت کپتان اسی مہارت کا مظاہرہ کیا اور اتنے کڑے معیار کو اختیار کیا کہ جس کی بنا پر انہوں نے ماجد خان کو ٹیم میں شامل نہیں کیا تھا۔ پھر کیا سبب ہے کہ خان صاحب سیاست میں اس ٹیم سپرٹ سے بالکل بیگانہ ہو چکے ہیں۔ سبب اس کا یہ ہے کہ خان صاحب سیاست کو کسی اصول ضابطے‘ کسی ڈسپلن اور قانون کا پابند نہیں سمجھتے۔ سیاست میں اُن کا خیال ہے کہ یہ ''ون مین شو‘‘ ہے۔ وزرائے اعلیٰ اور دیگر وزراء اچھے ہوں یا ''ماٹھے‘‘ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کپتان کرشمہ ساز ہونا چاہئے۔ ہم وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کو ایک شریف النفس شخصیت سمجھتے ہیں مگر سیاست محض ''شرافت‘‘ کا کھیل نہیں‘ کارِ جہانبانی کیلئے اور بھی بہت سی صفات درکار ہوتی ہیں۔
کسی زمانے میں سنتے تھے کہ کراچی کچرا کنڈی بن چکا ہے‘ اب لاہور بھی کچرا کنڈی کامنظر پیش کر رہا ہے۔ اتوار کے روز مجھے ملتان روڈ لاہور اور اس کی بغلی سڑکوں اور گلیوں سے ایک کام کے سلسلے میں گزرنا پڑا۔ یقین کیجئے جابجا کچرے کے ڈھیر پڑے تھے اور فضا میں ہر طرف تعفن تھا۔ کوئی پونے دو بجے کے قریب لوٹا تو ملتان روڈ پر ٹریفک جام تھا۔ ملتان روڈ کی وسیع و عریض دورویہ سڑک پر اتنا گھڑمس تھا کہ الحفیظ والامان۔ اس رکے ہوئے بے ہنگم ٹریفک میں دو ایمبولینس گاڑیاں بھی پھنسی ہوئی تھیں۔ اُتر کر پوچھا تو معلوم ہوا کہ جناب وزیراعظم کی سواری بادبہاری نے کینال روڈ سے آکر ٹھوکر نیاز بیگ سے یوٹرن لینا ہے اس لیے لوگوں کو اپنے محبوب قائد کی خاطر تیس پینتیس منٹ کا انتظار بخوشی کرلینا چاہئے۔ ''بخوشی‘‘ انتظار کرنے والوں میں موٹر سائیکل سوار‘ بچے‘ بوڑھے اور مردوزن شامل تھے۔ بلامبالغہ ہزاروں لوگوں کو ٹھوکر کی طرف آنے والی آٹھ سڑکوں پر موٹروے تک روک دیا گیا تھا۔ خان صاحب نے بڑی شدومد کے ساتھ انتخابی مہم کے دوران فرمایا تھا کہ وہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کر دیں گے۔ یہ وہی ''خاتمہ‘‘ ہے جس کو آج میرے علاوہ ہزاروں لوگوں نے لاہور میں کم از کم پینتالیس منٹ تک بھگتا۔ اللہ کرے ایمبولینس کے جاں بلب مریضوں پر خیریت گزری ہو۔
اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد خان صاحب کو اپنے رویے پر نظرثانی کرلینی چاہئے۔ شعلہ افشانیوں‘ دھمکیوں اور عدم برداشت سے ملک نہیں چلا کرتے۔ اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے وزیراعظم کومہلت عمل مل گئی ہے جو یقینا کسی نعمتِ غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ خان صاحب اس مہلت سے فائدہ اٹھائیں اور حالات کو عوام فرینڈلی بنائیں۔ عوام اگر ''نکونک‘‘ ہو گئے تو پھر خان صاحب کے اقتدار کا سنگھاسن ڈول سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بالعموم دستِ شفقت بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں