غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری اور اُمہ کی بے حسی

گزشتہ ایک ہفتے سے غزہ کے فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری مسلسل ہو رہی ہے۔ ہر طرف قیامت صغریٰ کے دلدوز مناظر دکھائی دے رہے ہیں۔ جگہ جگہ رہائشی عمارتوں سے سیاہ دھویں کے بادل فضا میں بلند ہو رہے ہیں۔ فلک بوس عمارتیں اسرائیلی بموں اور میزائلوں سے زمیں بوس ہو رہی ہیں۔ غزہ کی تیرہ تیرہ منزلہ عمارتیں آنِ واحد میں ملبے کا ڈھیر بنا دی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک عمارت میں عالمی میڈیا کے دفاتر بھی تھے۔ تادمِ تحریر فلسطینی شہدا کی تعداد 200 ہوگئی ہے جن میں 58 بچے بھی شامل ہیں۔ ایک ہزار کے قریب فلسطینی شدید زخمی ہیں۔ ہسپتال تڑپتے ہوئے زخمیوں سے بھر چکے ہیں۔
رمضان المبارک اور عید کے موقع پر اسرائیل چند لاکھ نہتے لوگوں کے ساتھ یہ بہیمانہ سلوک کر رہا ہے اور اسے روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں۔ المناک حقیقت یہ ہے کہ غزہ کے چند لاکھ فلسطینی دنیا میں یکہ و تنہا نہیں بلکہ اُن کی بہت بڑی برادری کی تعداد ڈیڑھ ارب ہے۔ یہ ڈیڑھ ارب مفلوک الحال نہیں‘ یہ ڈیڑھ ارب سامانِ حرب و ضرب سے تہی دامن نہیں اور یہ ڈیڑھ ارب مال و زر سے محروم نہیں۔ اس کے برعکس اپنی عظمتِ رفتہ کی دعویدار یہ برادری تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ تیل ہی کے ہتھیار سے اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی رگِ حیات کو دبوچا جا سکتا ہے۔ ماضی میں ایسا ہوا بھی ہے۔ ڈیڑھ ارب کی برادری کے پاس اسلحہ کے انبار‘ ایٹم بم اور دور تک مار کرنیوالے میزائل بھی ہیں۔ فلسطین کے یہ ڈیڑھ ارب ''بھائی‘‘ مسجد اقصیٰ کو اپنا قبلہ اوّل مانتے ہیں۔ ڈیڑھ ارب نفوس پر مشتمل برادری اپنے آپ کو فخریہ اُمہ اسلامیہ کہتی ہے مگر اس برادری کے اِکّا دُکّا حکمرانوں کو چھوڑ کر باقی اکثریت کان رکھتی ہے مگر سنتی نہیں‘ آنکھیں رکھتی ہے مگر دیکھتی نہیں‘ دماغ رکھتی ہے مگر سوچتی نہیں اور دل رکھتی ہے مگر محسوس نہیں کرتی۔
یوں تو غاصب اسرائیل اور محصور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی کے اسباب گزشتہ کئی برس سے گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں؛ تاہم تازہ ترین کشیدگی کا سبب یہ تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں یہودیوں نے یروشلم کے قریب قدیم شیخ جراح کے علاقے میں زمانوں سے سکونت پذیر فلسطینیوں کو اُن کے گھروں سے بے دخل کر کے وہاں اپنا قبضہ جمانا چاہا۔ اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جائے گا مگر فلسطینیوں نے یہاں شدید مزاحمت کی۔ اس مزاحمت کے جواب میں یہودی فوجیوں نے مسجد اقصیٰ کے نمازیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں پر بم برسانا شروع کر دیے۔ جدید ترین بموں اور میزائلوں کے جواب میں اگر غزہ کے مجاہدین دیسی ساخت کے چند راکٹ اسرائیل کی طرف اچھال دیتے ہیں تو اُس پر جرمنی‘ فرانس اور امریکہ کے حکمرانوں کو اسرائیل کا حقِ دفاع یاد آ جاتا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے جوبائیڈن نے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ نہیں ظالم نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلیفون پر اظہارِ یکجہتی کیا۔
اسرائیلی جارحیت اور بمباری کے خلاف مغرب سے بڑی جاندار آوازیں بھی بلند ہوئی ہیں۔ ان آوازوں میں حق و صداقت کا بول بالا کرتی ہوئی سب سے بلندآہنگ اور دبنگ آواز ایک آئرش رکن پارلیمنٹ کی ہے۔ اس رکن پارلیمنٹ نے ایک ٹاک شو میں اسرائیلی سفیر کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ حق گو رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ غزہ کے فلسطینی کوئی اسرائیلی ریاست کا انہدام نہیں چاہتے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ اُن کا محاصرہ ختم کیا جائے‘ اُن کا اپنا ایئرپورٹ ہو‘ جہاں وہ جب چاہیں آزادانہ اور آبرومندانہ طور پر سفر کریں‘ اُن کی اپنی حدود میں انہیں آنے جانے کی مکمل آزادی ہو‘ اُن کے پاس پینے کا صاف پانی ہو‘ انہیں علاج معالجے کی سہولتیں حاصل ہوں اور وہ حسبِ ضرورت ادویات درآمد کر سکیں۔ اسی طرح ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ کے اہم لیڈر برنی سینڈرز‘ مشہور دانشور نوم چومسکی نے اسرائیلی جارحیت کو نشانۂ تنقید بنایا ہے۔ یوں تو یورپ و امریکہ کے کئی تجزیہ کار اسرائیلی وحشیانہ بمباری کی بھرپور مذمت کر رہے ہیں مگر ایک پاپولر امریکی ریڈیو ٹی وی اینکر وِک وِلز نے تو اسرائیل کو جرمن نازی قرار دے ڈالا ہے۔
گزشتہ کئی روز سے دنیا بھر میں جگہ جگہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں بھرپور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ ہفتے کے روز لندن میں اتنی بڑی احتجاجی ریلی نکالی گئی کہ جس نے سابقہ ریلیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس ریلی میں اسرائیل کی مذمت اور فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت میں نکلنے والی اس ریلی میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد شریک تھے جن میں مسلمانوں اور عربوں کے علاوہ کثیر تعداد میں گورے برطانوی بھی شامل تھے حتیٰ کہ قدامت پسند یہودیوں نے بھی اس ریلی میں اسرائیل کے خلاف نعرے بلند کیے۔ اسی طرح امریکہ میں شہر شہر اسرائیلی جارحیت کی مذمت میں ہزاروں افراد نے بلاامتیازِ مذہب و ملت شرکت کی ہے۔ ان ریلیوں میں یو این او اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فی الفور اسرائیلی جارحیت رکوائیں۔ یہ دنیا بدترین قسم کے تضاد کا شکار ہے۔ مغربی ممالک کے حکمران اپنے آپ کو بنیادی انسانی حقوق کا علمبردار کہتے ہیں مگر وہ ارضِ فلسطین کے غاصب اسرائیل کی علی الاعلان اور پس پردہ ہر طرح کی امداد کرتے ہیں۔ وہ مسلمان کہ جنہیں ایک جسد کی مانند کہا گیا تھا وہ خود تو عید کی خوشیاں مناتے رہے جبکہ اُن کے فلسطینی بھائیوں‘ بہنوں اور بچوں کو اسرائیل خاک و خون میں تڑپاتا رہا۔ کچھ برس پہلے ایسی ہی ایک عید کے موقع پر جب دوستوں نے ممتاز شاعر اُسیدالحق عاصم قادری سے عید کے حوالے سے کوئی نغمہ جانفزا لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے اس کے جواب میں روح کو تڑپا دینے والے اشعار کہے۔
مجھ کو آتا ہے فلسطین کے بچوں کا خیال
نوجوان بیٹوں کو روتی ہوئی مائوں کا خیال
خون سے بھیگی ہوئی اُن کی رِدائوں کا خیال
غربِ اردن کے شہیدوں کا خیال آتا ہے
کبھی غزہ کے یتیموں کا خیال آتا ہے
غیروں کا گلہ شکوہ کیا کرنا اپنے مسلمانوں حکمرانوں کو ایسا کوئی خیال نہیں آتا۔ غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی بمباری کے حوالے سے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا آن لائن اجلاس اتوار کے روز ہوا۔ اس اجلاس کی قراردادیں اور تقریریں بالکل بے ضرر اور فدویانہ انداز کی تھیں۔ مسلم دنیا سوچ رہی تھی کہ او آئی سی اسرائیل کا اقتصادی بائیکاٹ کرے گی‘ اُنہیں فوجی ایکشن کی دھمکی دے گی مگر او آئی سی نے تو اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت تک نہیں کی۔ اسی طرح سلامتی کونسل نے بھی اسرائیل کی کوئی مذمت نہیں کی اور اُس سے ایک عاجزانہ سی اپیل کی ہے کہ وہ سیزفائر کرے۔ ایسی ہی عاجزانہ و فدویانہ قراردادوں کے جواب میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ جب تک چاہے گا غزہ پر بمباری کرتا رہے گا۔ رمضان المبارک سے پہلے اسرائیل کو لگام دینے کے بجائے ہمارے عرب بھائی دوڑ دوڑ کر اسے تسلیم کر رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر ہر طرح کے مظالم ڈھانے کا لائسنس دے رہے تھے۔ چلیے اس وقت کوئی محمد بن قاسم نہ سہی کوئی صلاح الدین ایوبی نہ سہی مگر 57 اسلامی ممالک پر مشتمل او آئی سی سلامتی کونسل پر مل کر اتنا دبائو تو ڈال سکتی ہے کہ وہ فلسطین کی طرف امن فوج بھیجیں۔ اگر سلامتی کونسل اپنا فرض پورا نہ کرے تو پھر او آئی سی کو سربراہی اجلاس بلا کر فی الفور غزہ کے مظلوموں کی مدد کے لیے اسلامی ممالک کی فوج بھیجنے کا اعلان کر دینا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں