نور مقدم بچ سکتی تھی!

جوں جوں نور مقدم کیس کی تفصیلات سامنے آ رہی ہیں توں توں واضح ہوتا جا رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ اوپر سے لے کر نیچے تک گل سڑ چکا ہے اور اپنی دینی و معاشرتی اقدار سے ہی نہیں بنیادی انسانی صفات سے بھی یکسر محروم ہو چکا ہے۔ ظاہر جعفر ایک ارب بلکہ کھرب پتی تاجر کا بیٹا ہے۔ باپ کا تعلق بہت بڑی بزنس فیملی سے ہے۔ ظاہر کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ امریکہ میں پیدا ہوا تھا اور امریکی شہری ہے۔ وہ امریکہ میں بھی پڑھتا رہا اور برطانیہ میں بھی مقیم رہا مگر اس کے پاس کوئی بڑی تعلیمی ڈگری نہیں۔ نور مقدم سابق نیوی آفیسر اور سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی تھیں۔
اس کیس کی جتنی تفصیلات منظر عام پر آتی جا رہی ہیں‘ انہیں سن کر آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ نور مقدم کے بہیمانہ اور سفاکانہ قتل نے گزشتہ ایک ہفتے سے سارے ملک کو لرزا رکھا ہے۔ وہ شخص‘ جس کی کریمنل ہسٹری ہے، جس نے برطانیہ میں کسی پر تشدد کے جرم میں تین ماہ جیل کاٹی اور پھر پاکستان کی طرف ڈی پورٹ کر دیا گیا‘ بغیر کسی ڈگری کے، بغیر کسی ڈپلومہ کے اور بغیر کسی سابق تجربے اور عہدے کے اسلام آباد کے ایک پوش علاقے کے فیشن ایبل سائیکو تھراپسٹ ادارے میں ذہنی مریضوں کا علاج کرتا رہا۔ جی ہاں! وہ شخص جس بارے میں مشہور ہے کہ اس کی کریمنل ہسٹری ہے، جو مبینہ طور پر نشئی ہے اور شراب نوش بھی‘ تھراپی کا کام کرنے والے ایک ادارے سے پہلے بطور طالب علم اور پھر ڈگری لیے بغیر بطور سائیکوتھراپسٹ منسلک رہا۔ اس کے علاوہ وہ اسلام آباد کے ایک اعلیٰ میڈیم سکول میں جا کر بچوں کی کونسلنگ بھی کرتا رہا۔ بغیر صلاحیت، بغیر مہارت اور بغیر ڈگری کے ایسے نازک فرائض صرف وطنِ عزیز میں ہی سرانجام دیئے جا سکتے ہیں جبکہ مہذب ملکوں میں ایک باربر کے لیے بھی چار سالہ ٹریننگ ضروری ہوتی ہے۔
مذکورہ ادارہ جس برطانوی ادارے سے الحاق کا دعوے دار ہے ذرا اُن کا جواب بھی سن لیجئے۔ برٹش ایسوسی ایشن فار کونسلنگ اینڈ سائیکوتھراپی نے ٹویٹر میسج میں لکھا ہے کہ ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مذکورہ ادارہ ہمارا رکن نہیں اور ہم اُن سے رابطہ کر کے انہیں کہہ چکے ہیں کہ اپنی ویب سائٹ اور دیگر تشہیری مواد سے ہمارے ادارے کا لوگو ہٹا دے۔ گویا ادارے کا سٹیٹس مشکوک ہے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیے اور یہ دیکھیے کہ نور مقدم کو کیسے بچایا جا سکتا تھا۔ نور مقدم دو روز سے ملزم ظاہر جعفر کی تحویل میں اس کے گھر پر تھی۔ دو ملازمین کے ساتھ ظاہر گھر پر اکیلا تھا جبکہ دیگر افرادِ خانہ کراچی میں تھے۔
ظاہر جعفر نے پولیس کے سامنے اقرار کیا ہے کہ اس نے نور مقدم کو بے وفائی کرنے پر قتل کیا۔ یہ بھی ایک شرمناک حقیقت ہے کہ 19 اور 20 جولائی کے دوران ظاہر جعفر نے اپنے والد کو 5 مرتبہ فون کیا اور بتایا کہ نور مقدم مجھ سے شادی پر تیار نہیں اس لیے میں اس کو قتل کر رہا ہوں۔ اس ہولناک خبر کو انتہائی سنجیدگی سے لینے اور اس ایمرجنسی کی شدت کو محسوس کرنے کے بجائے باپ نے اسے نظر انداز کر دیا۔ اس دوران گارڈ نے بھی باپ کو دو تین بار فون کیا کہ ظاہر کے کمرے سے چیخوں کی آوازیں آ رہی ہیں، فوری طور پر کچھ کیجئے۔ باپ نے کہا کہ تم فکر نہ کرو میں نے اس کے ادارے کے لوگوں کو فون کر دیا ہے اور وہ آ رہے ہیں۔
نور کے والد نے دو تین مرتبہ ملزم کے والد کو فون کیا کہ نور کہاں ہے؟ آپ ظاہر سے کہیں کہ وہ اُن کی بیٹی کے بارے میں بتائے۔ اس پر ظاہر کا والد‘ نور کے والد سے مسلسل جھوٹ بولتا رہا اور کہتا رہا کہ مجھے اور میرے بیٹے کو آپ کی بیٹی کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ اگر باپ دولت کے نشے میں دھت نہ ہوتا تو وہ اپنے بیٹے کی پہلی کال پر ہی اُسے کہہ دیتا کہ نور کو فی الفور آزاد کرو۔ نیز وہ نور کے والد کو حقیقتِ حال سے آگاہ کر کے پولیس کو بتا سکتا تھا۔ وہ اور ان کی بیگم بیٹے کو باتوں میں لگا کر پولیس کے آنے کا انتظار کرتے تو یقینا صورت حال بالکل مختلف ہوتی اور ایک بچی ایسے بھیانک انجام سے محفوظ رہ سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اُن کا بیٹا بھی تختہ دار کا سامنا کرنے سے بچ سکتا تھا۔
اب تک ظاہر تو پولیس کی حراست میں ہے جبکہ اس کا والد اور والدہ چودہ روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں بھیج دیئے گئے ہیں۔ ظاہر کا والد مجرمانہ رویے سے کام نہ لیتا تو نور مقدم کی جان بچ سکتی تھی۔ گویا ایک طرح سے باپ بھی برابر کا شریکِ جرم تھا‘ لہٰذا وہ بھی برابر کی سزا کا حق دار ہے۔
نور مقدم نے جب ظاہر جعفر کو چھریوں کے ساتھ اپنے اوپر حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھا تو اس نے 20 جولائی کو ساڑھے چار بجے کے قریب پہلی منزل سے نیچے چھلانگ لگا دی۔ اگرچہ وہ شدید زخمی ہو گئی مگر وہ اپنی تمام تر طاقت اور قوتِ ارادی مجتمع کرتے ہوئے زخمی حالت میں گھسٹتے گھسٹتے گیٹ تک پہنچ گئی۔ اس نے گارڈ کی منت سماجت کی کہ خدا را فی الفور گیٹ کھول دو۔ گارڈ نے بھی انسانیت سوز رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے گیٹ کھولنے سے انکار کر دیا۔ گارڈ اور خانساماں نوجوان ہیں۔ وہ دونوں چاہتے تو گیٹ کھول کر اور پڑوسیوں کو بلا کر نور مقدم کی جان بچا سکتے تھے مگر انہوں نے بھی غیر انسانی رویے سے کام لیا۔ ہر ملک کے قانون کی نظر میں کسی شخص کو مرتے دیکھنا اور اس کی جان نہ بچانا انتہائی سنگین جرم شمار ہوتا ہے لہٰذا ان دونوں ملازمین کو بھی شدید ترین سزا ملنی چاہئے۔ اسی طرح پڑوسیوں نے بھی چیخ و پکار سنی مگر مدد کو آگے نہ بڑھے اور نہ ہی انہوں نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔
میں جب 2004ء میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی جائن کر کے اسلام آباد کا باسی بنا تو مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ امریکہ میں تو پڑوسی ایک دوسرے کی خبر گیری کرتے ہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے پڑوسیوں میں ایک دوسرے سے علیک سلیک اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت کرنے کا کوئی کلچر نہیں۔ ایسے کلچر کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ مصیبت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کی جا سکے۔ حکمرانوں کو سارے ملک میں بالعموم اور دارالحکومت اسلام آباد میں پے بہ پے پیش آنے والے اس طرح کے سانحات و حادثات کے اسباب کا نہایت گہرائی سے جائزہ لے کر ان کے سدباب کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہئیں۔ قانون کا خوف اور اپنے رب کے حضور جواب دہی کا احساس ہی انسانوں کو درندہ اور وحشی بننے سے محفوظ رکھتا ہے۔
پسِ تحریر: اسی ہفتے منگل کے روز میرا کالم ''جماعت اسلامی کا یکطرفہ فیصلہ‘‘ شائع ہوا تو اس پر اندرون اور بیرونِ ملک سے بہت سے لوگوں نے تائیدی اور کچھ نے تنقیدی پیغامات اور کالیں کیں۔ عام قارئین کے علاوہ جناب ڈاکٹر خالد محمود، عبدالرشید ترابی صاحب اور جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل محترم امیرالعظیم نے بھی رابطہ کیا اور اپنا اپنا مؤقف پیش کیا۔ یہاں امیرالعظیم صاحب کی طرف سے دی گئی اس وضاحت کا تذکرہ ضروری ہے کہ جناب سراج الحق صاحب کو رشید ترابی صاحب نے ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ واپس لینے کی یقین دہانی نہیں کرائی تھی اور کہا تھا کہ وہ ضلعی شوریٰ سے مشورہ کر کے کوئی قدم اٹھائیں گے۔ جماعت اسلامی کے اندر اس ناخوشگوار صورت حال کا بنیادی سبب رابطے کا فقدان تھا۔ ہماری ناچیز رائے میں آزاد کشمیر اور جماعت اسلامی پاکستان کے زعمائے کرام کو بلا تاخیر ایک میٹنگ میں جمع ہو کر ان غلط فہمیوں کا مداوا کرنا چاہئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں