نمک پاشی

حکومت اپنی ناتجربہ کاری کی بنا پر ایک بھنور سے نکل نہیں پاتی تو خود کو دوسرے بھنور میں گرفتار کر لیتی ہے۔ مسائل کوئی ایک طرح کے نہیں ہزار طرح کے ہیں۔ داخلی مسائل‘ خارجی مسائل‘ معاشی مسائل‘ سیاسی مسائل‘ انتظامی مسائل اور میڈیا کے ساتھ شدید نوعیت کی کشیدگی کے مسائل۔ ان مسائل میں پاکستان کا معاشی مسئلہ سرفہرست ہے۔
برطانیہ کے معتبر جریدے اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق 42 ملکوں میں پاکستان چوتھا مہنگا ترین ملک ہے۔ میں آج قارئین کو کچھ فرسٹ ہینڈ انفارمیشن دوں گا۔ اس وقت پاکستان میں بندئہ مزدور و ملازم ہی نہیں‘ بندئہ صنعتکار اور بندئہ تاجر کے اوقات بھی بہت تلخ ہیں۔ تین چار روز قبل مجھے فیصل آباد اور سرگودھا جانے کا موقع ملا۔ فیصل آباد میں ایک درمیانے درجے کی تولیہ ساز مل کے اونر‘ جو میرے بے تکلف دوست ہیں‘ سے ملاقات ہوئی۔ یہ دوست اپنی فیکٹری میں اعلیٰ معیار کے تولیے تیار کر کے ملائیشیا اور کئی دوسرے ملکوں میں فروخت کرتے ہیں۔
اس دوست نے بتایا کہ دھاگا پہلے سے بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ درآمد کیے جانے والے کیمیکلز کی قیمتیں بھی کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کے عائد کردہ ناقابل برداشت ٹیکسوں کی بھرمار کو شامل کر کے ہماری پیداواری لاگت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر ہم اس لاگت کے مطابق اپنی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں تو ہم عالمی منڈی میں مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اور اگر ہم اپنے سالہا سال پرانے گاہکوں کو مال سپلائی کرنا بند کر دیتے ہیں تو ہم مارکیٹ سے آئوٹ ہو جائیں گے۔ اس مل اونر کے بقول بیرونِ ملک کپڑا وغیرہ برآمد کرنے والے اکثر مل اونرز اسی مشکل کا شکار ہیں۔
فیصل آباد کے بعد میں سرگودھا گیا تو وہاں چیمبر آف کامرس کے سرکردہ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ اُن کا کہنا بھی یہ تھا کہ اس وقت ڈالر کی قیمت بڑھنے اور پٹرول کے نرخوں میں اضافے کے باعث ہر شے انتہائی مہنگی ہو چکی ہے۔ سرگودھا چیمبر آف کامرس کے بعض ماہرین نے مجھے بتایا کہ یہاں تعمیراتی شعبہ میں تیزی سے کام ہو رہا تھا اور چھوٹے بڑے بزنس مین بہت سے گھر اور پلازے تعمیر کر رہے تھے مگر اب تعمیراتی میٹریل کے نرخ بڑھنے کی بنا پر گزشتہ دو تین ماہ سے کنسٹرکشن انڈسٹری میں بھی کام نہ ہونے کے برابر ہے۔
یوں لگتا ہے کہ ہمارے معاشی ماہرین کو حقیقی مسائل کا کوئی ادراک ہی نہیں۔ ہمارے موجودہ گورنر سٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے ملازم ہیں۔ وہ اس سے پہلے کئی ممالک کی معیشتوں کو بے حال کر چکے ہیں۔ 2019ء میں پاکستان آنے سے قبل ڈاکٹر رضا باقر مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے کی حیثیت سے تعینات تھے۔ ذرا مصر میں اُن کی کارکردگی کی ایک جھلک دیکھ لیجئے۔ مصر میں 2016ء میں ڈاکٹر رضا باقر کے آنے سے پہلے ایک ڈالر 7.8 مصری پونڈز کا تھا اور 2019ء میں جب ڈاکٹر رضا باقر وہاں سے آئے تو مصری پونڈ کی قیمت اتنی گر چکی تھی کہ 18 مصری پونڈز کا ایک ڈالر آتا تھا۔ اسی طرح مصر میں 2016ء میں مہنگائی کی شرح 10.21 تھی اور آئی ایم ایف کی عملداری کے بعد 2018ء میں مہنگائی کی شرح 21 فی صد تک بلند ہو چکی تھی اور بیروزگاری تقریباً 10 فیصد ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر رضا باقر کے سامنے پاکستان کے لیے بھی مصری رول ماڈل ہے لہٰذا جب تک وہ ڈالر کو 200 روپے تک‘ بیروزگاری کو 10 فی صد تک اور مہنگائی کو 21 فی صد تک نہیں پہنچا لیتے اُس وقت تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
آئی ایم ایف نے مصر کو 12 بلین ڈالرز دیے تو انہوں نے اُس کے ماہر اقتصادیات کو صرف آئی ایم ایف نگران کے طور پر قبول کیا۔ ہماری فیاضی دیکھئے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے صرف 6 بلین ڈالرز قسطوں میں وصول کرنے کا وعدہ حاصل کیا اور اُس کے نمائندے ڈاکٹر رضا باقر کو اپنے خزانے کی ساری کنجیاں پیش کر کے گورنر سٹیٹ بینک بنا دیا۔ ڈالر 175 روپے تک پہنچ گیا تھاجس کے نتیجے میں پاکستان کا درآمدی بل بہت بڑھ چکا ہے جبکہ برآمدات میں بے حد کمی واقع ہوئی ہے۔
ڈاکٹر رضا باقر نے گزشتہ دنوں غالباً لندن میں ایک حیران کن بیان دیا کہ جس پر ماہرین اقتصادیات طنزیہ ہنسی ہنس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر روپے کی قیمت گر گئی تو اس پر پریشان ہونے کے بجائے ہمیں خوش ہونا چاہئے۔ اس طرح سمندر پار پاکستانیوں کے خاندانوں کو پہلے سے زیادہ رقم ملے گی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو بات ایک عام صارف جانتا ہے کہ کرنسی کی مقدار نہیں اُس کی قوتِ خرید اہم ہوتی ہے وہ بات عالمی ماہر اقتصادیات کو کیوں معلوم نہیں۔ یہ بیان دے کر گورنر سٹیٹ بینک نے 22 کروڑ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔
ایک مثال سے اس بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ کوئی اوورسیز مزدور اپنے خاندان کو 2018ء میں ماہوار 40 ہزار روپے ارسال کرتا تھا اور اب انہیں 60 ہزار روپے بھجواتا ہے۔ ان 60 ہزار کی قوتِ خرید 2018ء کے 40 ہزار کے مقابلے میں تقریباً آدھی ہوچکی ہے۔ اُس وقت آٹا 35 روپے کلو تھا آج 70 روپے کلو ہے۔ اُس وقت چینی 52 روپے کلو تھی آج 120 روپے کلو ہوگئی ہے۔ دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی کم از کم تین گنا بڑھ چکی ہیں۔ اسی طرح بجلی‘ گیس اور پٹرول کے نرخوں میں بھی ناقابلِ بیان حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ 22 کروڑ عوام میں سے اُن پاکستانی گھرانوں کی تعداد 40 لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی جنہیں اخراجات کے لیے رقم بیرونِ ملک سے آتی ہے۔ باقی 21 کروڑ 60 لاکھ عوام زخموں سے چور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ آئے روز حکومت کے وزراء بھی اسی طرح کے بقراطی بیانات دیتے رہتے ہیں کہ پاکستان میں دوسرے ملکوں سے مہنگائی کم ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اُن ملکوں میں فی کس آمدنی ہمارے مقابلے میں کتنی زیادہ ہے۔ دو تین روز قبل جناب عمران خان نے زمینی حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے کہا کہ غربت میں کمی ہماری جامع معاشی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اس بیان نے بھی عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی انتہا کر دی ہے۔ورلڈ بینک کی کسی رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں گزشتہ سال غربت کی شرح 5.3 فیصد تھی جو 2021ء میں کم ہوکر 4.8 فی صد رہ گئی ہے۔ بے جان اعدادوشمار کے ایک دو پوائنٹس سے غربت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جناب وزیراعظم عوام کے حال سے بالکل بے خبر ہیں۔ غربت کا حال تو اُس سے پوچھیں کہ جس کے دودھ پیتے بچے کے لیے دودھ میسر نہیں۔ صرف دو روز پہلے بچوں کے دودھ کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ وہی بچے ہیں جنہیں کم خوراک ملنے کی کئی برس سے خان صاحب شکایت کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب اُن کے دور میں بچوں کو کم از کم خوراک بھی نہیں مل رہی۔خان صاحب اکثر حضرت عمرؓ کا حوالہ دیا کرتے تھے کہ انہوں فرمایا تھا کہ بھوک پیاس سے دریائے فرات کے کنارے مرنے والے ایک کتے کے بارے میں بھی عمر سے سوال کیا جائے گا۔ خان صاحب کو بھی سوچنا چاہئے کہ اگر دودھ کے لیے بلکتے بچوں کے بارے میں اُن سے روزِ قیامت سوال کیا گیا تو وہ کیا جواب دیں گے۔ آج پاکستان کے کروڑوں لوگوں کی حالت بقول رشید حسرت یہ ہے کہ
اب تو دو وقت کی روٹی بھی میسر ہے کہاں
زندگی بھوک میں تحلیل ہوئی جاتی ہے
جناب عمران خان اور اُن کے بقراطی وزیر مشیر اور ماہرین اقتصادیات لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کا سلسلہ بند کریں اور سنجیدگی سے سوچیں کہ فاقہ کش لوگوں کو خوراک کے لیے سبسڈی دینی ہے یا ریلیف کا کوئی اور طریق کار اختیار کرنا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں