درندگی کا خاتمہ کیسے ہوگا؟

دو تین روز پہلے ایک اور موضوع پر لکھنے کے بارے میں ذہن بنا چکا تھا اور اس سلسلے میں دل و دماغ میں ایک تانا بانا بھی بُنا جاچکا تھا مگر پھر دل پر اچانک ایسی بجلی گری کہ جو کچھ تھا جل گیا۔ اگر کچھ باقی بچا تو وہ صرف شرمندگی‘ افسردگی اور آزردگی تھی۔ وہ روح فرسا مناظر جو ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں جن میں کوٹ رادھا کشن‘ چارسدہ اور جوہرآباد وغیرہ کے انسانیت سوز واقعات شامل تھے۔ سیالکوٹ کا سانحہ بھی اُنہی دلدوز واقعات کا تسلسل ہے۔ ایسے واقعات میں وحشت و بربریت کا راج ہوتا ہے اور انسان نما درندے انسانیت کو ایک ناقابل تصور بھیانک انجام سے دوچار کر دیتے ہیں۔
تذلیلِ آدمیت کے اس خوفناک منظر میں اس مرتبہ مزید شدت اس لیے پیدا ہوگئی کہ بے بسی کی موت مرنے والا ایک پردیسی تھا۔ شرمندگی سی کوئی شرمندگی ہے۔ ساری دنیا کے سامنے اہلِ پاکستان کا سر ندامت سے جھک گیا ہے۔ سیالکوٹ جیسے واقعات پر علماء سے لے کر صاحبانِ اقتدار تک‘ پاکستانی و عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں سے لے کر ہماری سیاسی جماعتوں تک صرف مذمتی بیان دیتے ہیں۔ تین چار روز تک ان بیانات کا مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر بہت چرچا رہتا ہے اور پھر ہم کسی اور مسئلے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
اس بار بھی تقریباً سبھی علمائے کرام‘ سارے سیاست دانوں‘ حکمرانوں اور آرمی چیف نے بھی شدید نوعیت کے مذمتی بیانات دیے ہیں اور حکمرانوں نے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے؛ تاہم اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ یہ معلوم کیا جائے کہ ہمارا معاشرہ اس انتہا پسندی تک کیسے پہنچا۔ تعزیتوں اور مذمتوں پر اکتفا کرنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے اور سچی بات یہ ہے کہ ہم کئی دہائیوں سے اسی خودفریبی کا شکار چلے آرہے ہیں۔
انتہا پسندی ہماری سیاسی و معاشرتی زندگی میں زہر کی طرح سرایت کر چکی ہے۔ ہر شخص کہ جو کسی چھوٹے بڑے منصب پر فائز ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو حرفِ آخر سمجھتا ہے۔ دوسروں کی بات سننے کو اپنی توہین جانتا ہے اور من مانی اور قانون شکنی کو اپنی شان سمجھتا ہے۔ جس ملک میں قانون دان عدالتوں اور ہسپتالوں پر حملے کرتے ہوں اُس ملک کی انتہا پسندی میں کیا کسی شک کی کوئی گنجائش باقی بچتی ہے۔ کبھی اپنی مذہبی دکانداری چمکانے کے لیے‘ کبھی اپنی سیاسی گاڑی کو آگے بڑھانے اور کبھی ذاتی مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے جذبات کو ہوا دی جاتی ہے۔
ایسے ہر سانحے اور حادثے کی آڑ میں سیکولر اور لبرل ایجنڈے کے علمبردار بھی اپنی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ یورپ کی تاریک صدیوں کا اسلام کی پرنور صدیوں پر اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بہت بڑی علمی خیانت اور ناانصافی ہے۔ اسلام تو روزِ اوّل سے ہی بڑا روشن خیال تھا۔ فرمانِ مصطفی ﷺہے کہ گہوارے سے گور تلک علم حاصل کرو اور حصولِ علم کے لیے اگر چین بھی جانا پڑے تو چلے جائو۔ لبرل ازم کے دلدادہ یہ دانشور قوم کو سیکولرازم کے معانی سمجھانے لگتے ہیں کہ اس سے مراد لادینیت نہیں بلکہ دین سے آزادی ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کی اصطلاحات ڈکشنری کے مطابق سیکولرازم سے مراد ایک ایسا نظام ہے کہ جس میں سیاسی و معاشرتی امور اور ریاستی و مذہبی معاملات الگ الگ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ریاست کا انسان کے مذہبی و دینی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں جبکہ اسلام ایک ایسا دین ہے کہ جس میں مذہب اور سیاست یک جان دو قالب ہیں۔ مصورِ پاکستان کا وژن یہ تھا کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی اور بانی ٔ پاکستان نے ایک جدید اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کے لیے یہ وطن حاصل کیا تھا مگر ہوا کیا‘ یہاں دورِ جدید میں اسلام کو عصرحاضر کے اسلوب کے مطابق دلیل و تفسیر کے ساتھ بطورِ نظامِ زندگی پیش کرنے والی اعتدال پسند پابندِ قانون جماعتوں کے قائدین کو ریاستی قوتوں نے پھانسی گھاٹ تک پہنچا دیا۔ دینی سیاسی جماعتوں کی سیاسی و اصلاحی اور آئینی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے ہر قدم پر اُن کی حوصلہ شکنی کی گئی اور ان جماعتوں کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لیے بعض مذہبی جماعتوں کی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اُن سے قانون شکنی کا کوئی حساب کتاب بھی نہ لیا گیا۔
حُبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا مقدس و مبارک جذبہ ہے کہ جس سے ہر مسلمان مرد اور عورت کا دل آباد رہتا ہے۔ جناب مصطفی ﷺ سے دلی وابستگی ہر مسلمان کا سرمایۂ حیات ہے۔ مسلمان امیر ہو یا غریب‘ گنہگار ہو یا پرہیزگار‘ روشن خیال ہو یا قدامت پسند‘ وہ سرکارِ دو عالم کو دنیا کے ہر رشتے پر مقدم سمجھتا ہے۔ رحمت للعالمین صرف مسلمانوں کے لیے نہیں سارے جہان کے لیے شفقت و رحمت ہیں۔ عظمتِ رسولﷺ سے آگہی رکھنے والے ہزاروں ایسے غیرمسلم شعرا و ادبا اور دانشور ہیں کہ جنہوں نے شانِ مصطفی میں شعری و نثری گل ہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔ عشقِ رسول کا جذبہ نہایت قابل قدر ہے تاہم رسالت مآبﷺ نے ہمیں غیظ و غضب سے اجتناب کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اگر کوئی مسلمان ایسی کوئی بات سنتا ہے یا کوئی ایسا عمل دیکھتا ہے جو اس کے خیال میں خاکم بدہن شانِ مصطفی کے بارے میں کسی بھی درجے کی گستاخی ہے تو اسے فی الفور اپنے ادارے کے منتظمین اور حکام کے نوٹس میں یہ بات لانی چاہئے۔ اگر ہر شخص حُبِّ رسولﷺ کے نام پر خود ہی منصف‘ خود ہی منتظم اور خود ہی محافظ قانون بن جائے گا اور خود ہی اپنے آپ کو پبلک کے ساتھ مل کر سزا دینے پر مامور کرلے گا تو ملک میں لاقانونیت اور انارکی پیدا ہو جائے گی۔ اسی لاقانونیت کا ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے سامنا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ریاست‘ حکومت اور عدلیہ کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے۔ عدل و سزا کا اختیار فرد کو نہیں دیا جا سکتا۔ مزید وقت صرف کیے بغیر علمائے کرام اور مشائخ عظام کو ایک متفقہ بیان جاری کرنا چاہئے کہ توہین کے کسی دلخراش واقعے کے ردعمل کے طور پر کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے اور فوری طور پر ایسے سانحے کو متعلقہ حکام کے علم میں لائے۔
قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی درندگی کیسے ختم ہوگی؟ اس کا دو لفظی اور دوٹوک جواب تو یہ ہے کہ قانون شکنی کی وبا کا خاتمہ قانون کی عملداری سے ہی ہوگا؛ تاہم اس حل کے نفاذ کے لیے ہمیں من حیث القوم صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ فیصلہ ریاست کو بھی کرنا ہوگا‘ حکومت کو بھی کرنا ہوگا‘ عدلیہ کو بھی کرنا ہوگا‘ خواص کو بھی کرنا ہوگا اور عوام کو بھی کرنا ہوگا۔ ہر سطح پر من مانی‘ اناپسندی اور انا ولا غیری کا کلچر بیک جنبش ختم کرنا ہوگا اور ساری قوم کو اس میثاق پر حلف دینا ہوگا کہ وہ آئین پاکستان کی سو فیصد لفظاً و معناً پیروی کرے گا اور قول و فعل کا تضاد ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ نفاذِ قانون کے کلچر کا آغاز حکومتی و ریاستی اداروں کی طرف سے ہونا چاہئے تاکہ یہ عوام تک منتقل ہوسکے۔ اگر قانون پر عمل درآمد کی روح پرور فضا قائم ہو جاتی ہے تو پھر قانون شکنی کی ہر درندگی کا ان شاء اللہ خاتمہ ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں