چشم دید واقعات

سقوطِ ڈھاکہ اور سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے آپ ملکی و غیرملکی مصنفین کی جتنی کتابیں پڑھتے جائیں گے‘ ایک حقیقت آپ پر منکشف ہوتی چلی جائے گی کہ 25 مارچ 1971ء تک ہر قدم پر اس ٹریجڈی سے دامن بچایا جا سکتا تھا۔ آج میں نے یہ سوچا ہے کہ میں تجزیہ کروں گا‘ نہ تاریخی حوالے دوں گا اور نہ ہی تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھنے کے بارے میں نوحہ خوانی کروں گا۔ خوش قسمتی سے کرنل ڈاکٹر وجاہت بخاری صاحب نے اپنے جانباز والد گرامی بریگیڈیئر (ر) لیاقت اسرار بخاری (ستارۂ جرأت) کی چند ماہ پہلے چھپنے والی کتاب ''چشم دید حقیقت‘‘ عنایت کی ہے۔ آج میں آپ کو بریگیڈیئر صاحب کی زبانی 1971ء کے خونچکاں واقعات سنائوں گا اور کہیں کہیں حسبِ ضرورت ربطِ کلام کے لیے اپنی طرف سے مختصراً کچھ عرض کروں گا۔
بریگیڈیئر صاحب کی جنوری 1971ء میں بحیثیت میجر پوسٹنگ 4 آرمی ایوی ایشن سکواڈرن میں ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ جنوری سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ کے یومِ سیاہ تک وہ وہاں برپا ہونے والے واقعات و حادثات اور سانحات کے چشم دید گواہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
اکثر اوقات ٹی وی پر مباحثے کے دوران میں نے کئی ذمہ دار افراد کو مشرقی پاکستان کے بارے میں غلط حوالے دیتے ہوئے سنا جو نہایت تکلیف کا باعث ہیں کیونکہ میں وہاں کے واقعات کا عینی شاہد ہوں۔ 16 دسمبر 1971ء کو اگرچہ آرمی نے ہتھیار ڈال دیے تھے مگر 4ایوی ایشن سکواڈرن‘ جس کا میں کمانڈر تھا‘ ہماری فوج کا واحد یونٹ تھا جس نے 16 دسمبر کو دشمن کی فضائی برتری‘ خراب موسم اور ایئر کنٹرول کے باوجود نہ صرف ہتھیار نہ ڈالے بلکہ تمام ہیلی کاپٹر مع 139 خواتین اور بچوں کے بحفاظت برما کے ذریعے واپس پاکستان پہنچائے۔
اس سکواڈرن نے 25 مارچ 1971ء سے 16 دسمبر 1971ء تک میری قیادت میں 861 اہم و خطرناک جنگی معرکوں میں حصہ لیا اور فضائی وزمینی آلات کی نایابی کے باوجود نہایت کامیابی سے تاریخی آپریشن کیے۔ میں جنوری 1971ء میں صدر یحییٰ خان کو ڈھاکہ ایئرپورٹ سے ہیلی کاپٹر پر چٹاگانگ لانے کے لیے آیا تھا۔ ایک صحافی نے اُن سے پوچھا کہ پاکستان کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا۔ جنرل یحییٰ خان نے سب کے سامنے شیخ مجیب الرحمن کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ آپ کے سامنے کھڑے ہیں‘ اُن سے خود ہی پوچھ لیجئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مجیب الرحمن کو مشرقی پاکستان اور خود کو مغربی پاکستان کا پرائم منسٹر بنانے کی تجویز دی مگر مجیب الرحمن نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس 3 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں شروع ہونا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کردیا اور کہا کہ اگر پیپلز پارٹی کو نظرانداز کیا گیا تو کراچی سے خیبر تک طوفان برپا کر دوں گا۔ اس دھمکی کے بعد یحییٰ خان نے مجیب الرحمن کی رائے کے برخلاف 3 مارچ 1971ء کا اجلاس 25 مارچ تک ملتوی کر دیا۔ اسی اثنا میں مزید فوج مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان آنا شروع ہوئی تو اس کے ردعمل کے طور پر پورے مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے غیربنگالی پاکستانیوں کا کشت و خون شروع کر دیا۔
اب ذرا دل تھام کر کچھ واقعات ملاحظہ کیجئے۔ مشرقی پاکستان کے حالات بگڑتے ہوئے دیکھ کر فیصلہ کیا گیا کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی طالب علم مشرقی پاکستان میں زیرِ تعلیم تھے اُن کو ہیلی کاپٹروں سے ڈھاکہ لے آئوں تاکہ یہاں سے انہیں مغربی پاکستان پہنچا دیا جائے۔
ایک دن جب ہم سلہٹ سے مختلف کالجوں میں زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو ڈھاکہ لا رہے تھے تو میڈیکل کی ایک بچی نے آنے سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ امتحان کے بعد آئے گی مگر میں نے اسے سمجھایا کہ تمہاری زندگی کا سوال ہے۔ امتحان مغربی پاکستان جا کر دے دینا۔ اب میں تمہیں سلہٹ ایئرپورٹ پر نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اسے ڈھاکہ لے آیا۔ دوسرے دن جب میں پھر بچوں کو لانے جا رہا تھا تو میرے معاون پائلٹ نے بتایا کہ جس بچی کو ہم سلہٹ سے لائے تھے وہ صبح سویرے ہیلی کاپٹر پر واپس سلہٹ چلی گئی کہ اس نے پرچہ دینا ہے۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ اسے جا کر سلہٹ میڈیکل کالج میں ہم نے بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملی۔ اس کی غلطی سے اس کی جان گئی اور وہ آج تک نہ مل سکی۔ نہ جانے اس کے ساتھ کیا سلوک ہوا اوراسے کیسے شہید کیا گیا۔
مجھے آج تک وہ ماں یاد ہے جو سقوطِ ڈھاکہ والی رات کو‘ جب ہم اُڑان کے لیے تیار تھے‘ بھاگتی ہوئی میرے ہیلی کاپٹر کی طرف آئی۔ اس کی گود میں ایک ننھا سا بچہ تھا جو اس نے بڑی بے تابی سے میری گود میں ڈال دیا اور ساتھ ہی مجھے کراچی کے کسی گھر کا ایڈریس دیا۔ میرے پاس 17 مسافروں کی گنجائش والے ہیلی کاپٹر میں پہلے ہی 30 سے زائد ڈرے سہمے لوگ موجود تھے۔ مجھ سے انکار نہ ہوسکا۔ نہ جانے وہ ماں خود کیوں لوٹ گئی مگر مجھ سے وعدہ لے گئی کہ میں بحفاظت بچے کو اس ایڈریس پر پہنچا دوں گا۔ میں نے اپنا وعدہ وفا کیا۔ اس واقعے کے تیس برس بعد میں آرمی کی کسی تقریب میں مدعو تھا کہ اچانک میرے قریب ایک خوبرو فوجی افسر آکر کھڑا ہو گیا۔ میرے پوچھنے پر پتا چلا کہ یہی وہ ننھا بچہ ہے جو برما سے اکیلا ہمارے ساتھ ہیلی کاپٹر میں آیا تھا۔ بتیاں گل کر کے نیچی پرواز کرتے ہوئے‘ برما تک کا طویل سفر ایوی ایشن کی تاریخ کا ایک انتہائی انوکھا واقعہ ہے۔
کومیلا سے چند میل دور ایک پل پر بریگیڈیئر اقبال شفیع کی قیادت میں پاک فوج کے جوانوں کی مکتی باہنی کے ساتھ خونریز جنگ ہوئی۔ باغیوں نے جب دیکھا کہ میدان اُن کے ہاتھ سے نکل رہا ہے تو انہوں نے پل کو اُڑا دیا۔ بڑی پریشان کن صورتحال تھی۔ جنرل راجہ جب اُن سے رابطہ نہ کر سکے تو انہوں نے مجھے حکم دیا ''لیاقت جہاز تیار کرو‘‘ (یاد رہے کہ میجر جنرل خادم حسین نے اسی زمانے کے بارے میں ایک شاندار کتاب A stranager in my own country لکھی ہے)۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے لیاقت بخاری بتاتے ہیں: میں نے جنرل راجہ کو لے کر چٹاگانگ تک ہیلی کاپٹر میں پرواز کی اور جونہی وہاں پہنچے تو درختوں سے مشین گنوں نے آگ برسانا شروع کردی۔ دو گولیاں ہیلی کاپٹر کو لگیں؛ تاہم ایک دو جھٹکوں کے بعد ہیلی کاپٹر اللہ کے فضل سے بحفاظت اتر گیا۔ ہمارا مشن بریگیڈیئر اقبال شفیع والے دستے کو تلاش کرنا تھا۔ جونہی میں اور جنرل راجہ نے ہیلی کاپٹر پر قدم رکھا تو اچانک ایک پاکستانی خاتون اپنے ایک معصوم بچے کو اٹھا کر بھاگتی ہوئی ہماری طرف آئی۔ اس نے ہم سے التجا کی کہ وہ اپنے خاوند سے بچھڑ گئی ہے ہم اسے اپنے ساتھ لے چلیں۔ ہم نے خاتون اور اس کے بچے کو اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر میں بٹھا لیا۔ اُڑان بھرنے کے کچھ منٹ بعد دو گولیاں ہیلی کاپٹر پر لگیں اور خاتون اور اس کے بچے کے درمیان سے گزر گئیں مگر وہ دونوں محفوظ رہے۔
قارئین کرام! بریگیڈیئر بخاری صاحب کے چشم دید واقعات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ 1947ء والی المناک ہجرت غیروں نے ہم پر مسلط کی تھی اور 1971ء والی کربناک ہجرت ہم نے خود اپنے اوپر مسلط کی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں