دوسروں کا خیال رکھنے کی اہمیت

مغربی معاشرت میں ایک خوشنما جملہ رائج ہے جو بالعموم رخصت ہونے والے کیلئے بولا جاتا ہے''Take care‘‘،جبکہ اسلامی معاشرت میں ایسے مواقع پر خدا حافظ‘ اللہ نگہبان‘فی امان اللہ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اب مغرب کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں روز مرہ زندگی میں اور بعض اینکر خواتین و حضرات پروگرام کے اختتام پر سامعین و ناظرین سے کہتے ہیں کہ ''اپنا بہت زیادہ خیال رکھئے‘‘۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر ہر شخص اپنا ہی خیال رکھے گا تو پھر دوسروں کا خیال کون رکھے گا؛ تاہم دنیا میں ایسے بھی بہت سے لوگ ہیں جو اپنے آپ سے بڑھ کر دوسروں کا خیال رکھتے ہیں اس عملِ خیر میں انہیں بہت سکون ملتا ہے۔
ایسے لوگ بسااوقات اپنی زندگی بھی دوسروں کیلئے قربان کر دیتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگاکہ 15مارچ2019ء کو ایک متعصب گورے آسٹریلوی نے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں پر اندھا دھند فائرنگ اس وقت کی جب دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے فرزندانِ توحید اپنے رب کے حضور نمازِ جمعۃ المبارک کیلئے حاضر تھے۔
اس فائرنگ میں 51مسلمان شہید ہوئے اور درجنوں شدید زخمی ہوئے۔ اس موقع پر نعیم راشد نامی ایک پاکستانی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر طرح طرح کے خود کار ہتھیاروں سے لیس حملہ آور سے گتھم گتھا ہو گیا اور اسے مزید فائرنگ سے روک دیا؛ تاہم اس جدوجہد میں وہ خود بھی شہید ہو گیا اور اس کے 21سالہ نوجوان بیٹے نے بھی جام شہادت نوش کیا۔50سالہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نعیم راشد اس سانحے سے دس برس قبل نیوزی لینڈ منتقل ہوا تھا اور یہاں کی مسلم اورمقامی سوسائٹی کی ہر دلعزیز شخصیت بن گیا۔ نعیم راشد انہی دنوں اپنے بیٹے طلحہ کی شادی خانہ آبادی کیلئے پاکستان جانے کی تیاری کر رہا تھا مگر دونوں باپ بیٹے کو زمینوں اور آسمانوں کے رب کی طرف سے خلد کیلئے بلاواآ گیا۔
ان دنوں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن جس اخلاص اور ہمدردی کے ساتھ شہدا کے لواحقین اور زخمیوں کے اہلِ خانہ کے ساتھ شریک غم ہوئیں اسے عالم اسلام میں ہی نہیں ساری دنیا میں بہت سراہا گیا۔ اس سال 15مارچ کو وزیراعظم جیسنڈا نے اعلان کیا کہ نیوزی لینڈ نے اپنے ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نیوزی لینڈ کراس نعیم راشد شہید کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیوزی لینڈ میں سب سے بڑا فوجی اعزاز وکٹوریہ کراس کہلاتا ہے۔ اس کے مساوی سول اعزاز کو نیوزی لینڈ کراس کہا جاتا ہے جو کسی انتہائی غیر معمولی کارنامے پر دیا جاتا ہے۔ جیسنڈاکے ملک میں اس سے پہلے یہ اعزاز صرف دو بار دیا گیا ہے۔ اس موقع پر نعیم راشد شہید کی بیوہ نے بتایا کہ ان کے شوہر نے پوری زندگی دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دی۔ وہ بہادر‘ رحمدل‘ محبت کرنے والے اور اسلام کے حقیقی پیروکار تھے۔ یقینا نعیم راشد کوقولِ ربانی یاد ہوگا کہ ایک زندگی کو بچانا ساری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے۔ اتوار کو منعقد ہونے والی اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کا بھی دراصل یہی سلوگن تھا کہ اس وقت افغانستان میں کروڑوں انسانوں اور بہت بڑی تعداد میں بچوں کو لقمۂ اجل بننے سے بچانا ہمارا اسلامی و انسانی فریضہ ہے۔
آج افغانستان کا نمبرون مسئلہ بدامنی ہے اور نہ ہی خانہ جنگی ہے‘ وہاں کا بنیادی مسئلہ بیرونی مداخلت ہے اور نہ ہی داخلی انتشار۔ ان کا سب سے بڑا مسئلہ بھوک اور قحط سے بچائو ہے۔ اتوار کے روز اسلام آباد میں منعقد ہونے والی اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس اس لحاظ سے بہت کامیاب رہی کہ طالبان حکومت اور دنیا کے مابین اسلامی تعاون تنظیم کے ذریعے ایک پل قائم ہو گیا ہے۔ کانفرنس میں وزیراعظم جناب عمران خان نے شرکائے اجلاس اور عالمی برادری پرحقیقت واضح کر دی کہ اگر 4کروڑ افغانی عوام کو بروقت خوراک کا تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ اسلامی ممالک کے علاوہ امریکہ‘ چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں نے بھی اس مسئلے کی سنگینی کا کسی حد تک اندازہ لگا لیا۔ جنابِ عمران خان ایک اچھا نکتہ اٹھا لائے کہ عالمی برادری افغانستان کے 4کروڑ عوام کو درپیش خوراک کی قلت کے مسئلے کو طالبان سے الگ کرکے دیکھے۔
اسلامی وزرائے خارجہ کی اسلام آباد کانفرنس نے خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ افغانستان کی مدد کیلئے او آئی سی فنڈ قائم کردیا ہے۔ نیز خوراک پروگرام کا بھی اعلان ہو گیا ہے۔ اگرچہ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ کانفرنس میں اکثر ممالک افغان امدادی فنڈ کیلئے بڑھ چڑھ کراپنے اپنے تعاون کا اعلان کریں گے مگر سوائے سعودی عرب اور پاکستان کے‘ کسی اور ملک نے کوئی کمٹمنٹ نہیں کی۔ سعودی عرب نے ایک ارب ریال دینے کا اعلان کیا ہے۔ افغانستان امدادی فنڈ اسلامی ترقیاتی بینک کے ذریعے کام کرے گا۔ او آئی سی نے طارق علی بخیت کو افغانستان کیلئے خصوصی نمائندہ تعینات کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ اسلامی ترقیاتی بینک کے حکام اقوام متحدہ کی تنظیموں سے بات چیت کرکے انہیں آمادہ کریں گے کہ وہ ان پابندیوں کو اٹھائیں جو انہوں نے طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد بینکوں پر عائد کر رکھی ہیں۔ ان پابندیوں کی بنا پر فنڈز کی آمدورفت اور عوام میں ان کی تقسیم ممکن نہیں رہی۔اس وقت عالمی برادری اور طالبان حکومت پر دو طرفہ تاریخی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ گزشتہ 4دہائیوں سے آگ اور خون سے دوچار ہونے والی قوم کو ایک پرامن راستے پر ڈالنے کا یہ سنہری موقع ہے۔دیکھا جائے تو گزشتہ نصف صدی سے افغانستان بدامنی اور داخلی انتشار کا شکار چلا آ رہا ہے۔ بادشاہت کا خاتمہ‘ طوائف الملوکی کی مختلف خونیں ادوار‘ روسی مداخلت‘ جہادِ افغانستان‘ مجاہدین کی ناکام حکومتیں‘ طالبان کا دور اول‘ نائن الیون کا واقعہ اور افغانستان پر امریکی بمباری‘ پھر دو دہائیوں تک امریکہ کی حمایت یافتہ حکومت اور طالبان کی بھرپور مسلح جدوجہد۔
وطن کی آزادی کیلئے دنیا کے مختلف ممالک میں چلائی جانے والی مسلح تحریکوں میں طالبان کی کامیاب جدوجہد کو نہایت نمایاں مقام حاصل ہے۔ انتہائی نامساعد حالات میں اور ایک سپر پاور کو شکست سے دوچار کرنا اور مسلح جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنا یقینا ایک جان جوکھوں کا کام ہے؛ تاہم مسلسل کئی دہائیوں کی بدامنی اور خانہ جنگی کی ستائی ہوئی خستہ حال قوم کے اعتماد کی بحالی اور شکست و ریخت سے دوچار معیشت کو خوشحالی سے بدلنا اس سے کہیں زیادہ دشوار کام ہے۔طالبان قیادت نے جس ہمت اور حکمت سے قطر میں بالواسطہ اور پھر براہ راست امریکہ سے کامیاب مذاکرات کئے وہ اس کی بالغ نظری کی دلیل ہے۔ اب طالبان حکومت کو جو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں ان سے نبردآزما ہونے کیلئے اسے بالغ نظری کے ساتھ ساتھ وسیع النظری اور وسیع القلبی کی بھی ضرورت ہے۔ کانفرنس میں موجود یو این او کے نمائندے نے دنیا کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کوئی کوتاہی کی تو اس سے یہ ملک ایک بار پھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔
طالبان عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے ایک غیر رسمی اجلاس میں انٹرنیشنل کمیونٹی کو یقین دہانی کرائی کہ طالبان انسانی حقوق‘ خواتین کے حقوق اور وسیع البنیاد حکومت کے حوالے سے تمام ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ یقینا طالبان قیادت کو یہ ادراک ہوگا کہ اس وقت اسلامی دنیا‘ بین الاقوامی ادارے‘ افغانستان کے پاکستان اور ایران جیسے پڑوسی ممالک‘ روس اور چین جیسی خطے میں موجود عالمی قوتیں اور درپردہ عالمی کمیونٹی سبھی نے افغان عوام کا خیال رکھنے اور ان کی مدد کا فیصلہ کر لیا ہے۔طالبان حکمت و دانش سے کام لیں گے تو وہ افغانستان کو ایک خوشحال جدید اسلامی فلاحی ریاست بنا سکتے ہیں۔ امید ہے کہ طالبان یہ سنہری موقع ضائع نہیں ہونے دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں