سپر ٹیکس اور جماعت اسلامی کی معیشت کانفرنس

دل تو چاہتا ہے کہ قوم کو خوش حالی کا مژدہ سنایا جائے۔ انہیں خزاں کے رخصت ہونے اور آمدِ بہار کی نوید دی جائے۔ کسی ایسے نغمۂ جانفزا سے ان کی تواضع کی جائے جسے سن کر ان کی روح وجد میں آجائے اور وہ ملکی تعمیرو ترقی کے لیے کمربستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں۔ مگر کیا کیا جائے‘ حقیقت حال اس کے برعکس ہے۔ ملکی معیشت ابھی تک بھنور میں ہے اور معاشی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
معیشت کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے ہم آپ کے سامنے حالیہ بجٹ کی مختصر تصویر پیش کر رہے ہیں۔ اگلے سال کے لیے 9502 ارب روپے کا کل تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ بجٹ 3798 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے۔ اس میں قرضوں اور سود کی ادائیگی کا حجم دیکھ کر آپ اندازہ لگا سکیں گے کہ ہم پر قرضوں کا کتنا بوجھ ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے 3950 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری قومی آمدنی کا 44 فیصد سود اور قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔ پاکستان 80 ہزار ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین برس کے دوران سابقہ حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے اور کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ بھی شروع نہیں کیا۔
بجٹ کا انحصار بھی اندرونی و بیرونی قرضہ جات پر ہے۔ 28 فروری 2022ء کو آئی ایم ایف 900 ملین ڈالر کی قسط دینے کو تیار تھا۔ اس وقت عمران خان کی حکومت نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ اب اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری مجبوری دیکھ کر آئی ایم ایف اس قسط کی ادائیگی کے لیے مزید کڑی سے کڑی شرائط عائد کرتا چلا جا رہا ہے۔ پٹرول‘ ڈیزل‘ بجلی اور گیس وغیرہ کی قیمتوں میں حکومت وقت اپنے عوام کے لیے ناقابل برداشت اضافہ کر چکی ہے۔ آئی ایم ایف کی یہ قسط اور حسب وعدہ مزید رقم نہیں ملتی تو ہماری معیشت کی نبضیں ڈوبنے لگیں گی۔
ہمارا تجارتی خسارہ بہت بڑھ چکا ہے۔ ہماری درآمدات سے برآمدات دوگنا ہیں۔ اگر ہم سود اور قرضوں کی اقساط بروقت ادا نہیں کر پاتے تو خدانخواستہ ہمارے ڈیفالٹ ہونے کے خطرات و خدشات بڑھ جائیں گے۔ غالباً ایسی ہی صورتحال سے گھبرا کر وزیراعظم شہباز شریف نے 24 جون کو اتحادی حکومت کے مشورے سے چند بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لاگو کر دیا ہے۔ یہ ٹیکس سیمنٹ‘ کھاد‘ چینی‘ تیل اور ٹیکسٹائل سمیت 13 صنعتوں پر عائد کیا گیا ہے۔ بہت سے ماہرین معیشت نے اس ٹیکس کو معیشت کی موت کے مترادف قرار دیا ہے۔ اُن کے مطابق یہ ٹیکس بالآخر عام صارف کو ادا کرنا پڑے گا جس کی کمر مہنگائی اور ٹیکسوں نے پہلے ہی دہری کر رکھی ہے۔ غریب صارف اپنی زندگی کی سانسیں برقرار رکھنے کے لیے سودی قرضہ لینے پر مجبور ہے۔ ہماری اپنی رائے میں جب صنعت کار اپنی صنعتوں اور فیکٹریوں کو بند کر دیں گے یا اُن کی پیداواری استعداد محدود کر دیں گے تو پھر ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں ہنرمند اور مزدور بیروزگار ہو جائیں گے۔
23 جون کو اسلام آباد میں جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام موجودہ معاشی بحران اور اس کے حل پر ایک قومی مشاورتی سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔ اس سیمینار میں ملک بھر سے نامور ماہرین معیشت اور اسلامی بینکوں کی اہم شخصیات اور ممتاز علمائے کرام نے شرکت کی۔ سابق سیکرٹری و مشیر خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے کہا کہ پاکستان کی حکومتیں طویل عرصہ سے وسائل نہ ہونے کے باوجود شاہانہ اخراجات کی عادی ہوچکی ہیں۔ حکومتیں تمام اخراجات قرضوں سے چلاتی ہیں۔ قرضوں سے کبھی معیشت خوشحال نہیں ہو سکتی۔ ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ ملک کو بجلی کے ناقص نظام سے سالانہ اربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ جبکہ گیس لیکیج یا چوری سے سالانہ بہت بڑا خسارہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ حکومت اچھی حکمرانی کرے‘ بزنس نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ مستند عالمی اداروں کی سٹڈی کے مطابق پاکستان میں کم از کم 30 لاکھ میگاواٹ بجلی شمسی توانائی سے حاصل کی جا سکتی ہے مگر عملاً ہم صرف 550 میگاواٹ سولر انرجی سے حاصل کر رہے ہیں۔آئی بی اے کراچی کے شعبہ اقتصادیات کی ڈین ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے اپنے خطاب میں ملک کی 75 سالہ ناگفتہ بہ معاشی صورت حال کے دریا کو نہایت مہارت سے کوزے میں بند کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے یہ کہہ کر سامعین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ انہوں نے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کے قرضوں سے نجات پانے کے لیے ایک متبادل اور قابلِ عمل ملکی ماڈل حکومت تک پہنچایا تھا مگر کسی بھی فورم نے اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے صاحبزادے حافظ عاکف سعید ایک صاحب علم شخصیت ہیں۔ علوم دینیہ پر ان کی گہری نظر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت شدید بحران کا شکار ہے۔ حافظ صاحب نے تاکیداً کہا کہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کا سودی نظام معیشت کے بارے میں دیا گیا فیصلہ دل و جان سے قبول کرے اور اس پر عملدرآمد کرے۔ایک نجی بینک کے سربراہ احمد علی صدیقی نے کہا کہ سود تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سالانہ چارہزار ارب روپے قرضوں اور سود در سود کی ادائیگی کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے۔سابق ایم این اے اور نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر فرید احمد پراچہ اس مشاورتی سیمینار کے منتظم اور کوآرڈی نیٹر تھے۔ انہوں نے اپنی خوش گفتاری سے وقت کی طنابوں کو اپنے ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔ ان کے ساتھ سیمینار کے میزبان سابق ایم این اے میاں اسلم نے بھی حسن انتظام کے ساتھ خشک موضوع پر سیمینار کو ایک خوشگوار اور پرکشش نشست بنا دیا تھا لہٰذا سیمینار وقت مقررہ سے بھی چند منٹ پہلے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا۔
جب فقیر کو اظہارِ خیال کا حکم دیا گیا تو میں نے عرض کیا کہ پاکستان کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جماعت اسلامی نے ہر اہم اور مشکل مرحلے پر قوم کی رہنمائی کی اور باہمی اتحادو اتفاق کو پروان چڑھایا۔ قراردادِ مقاصد سے لے کر 1973ء کے آئین تک اور اب سودی معیشت کے خاتمے کے لیے زبردست مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے تک جماعت نے شاندار کردار ادا کیا۔ اس طالب علم نے سیمینار میں پیش کیے گئے اعلیٰ معیاری کو خیالات کو بہت سراہا۔ اس طالب علم نے یہ بھی کہا کہ ہمیں امید ہے کہ جماعت اسلامی ملکی معیشت کو اس بھنور سے نکالنے میں بھی مثبت کردار ادا کرے گی۔
سیمینار سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ماہرین معیشت اور علمائے کرام کے تجزیوں اور تجاویز کو بہت پسند کیا اور کہا کہ ہم ملک کی معیشت کو گرداب سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ملک آئی ایم ایف کی خیرات پر نہیں چل سکتا۔ جناب سراج الحق نے اپنے جامع خطاب کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے شرکا سے جو تجاویز ملی ہیں وہ قوم کے سامنے رکھی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو آئی ایم ایف کی غلامی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دلائی جائے گی۔ زراعت کے شعبہ میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ معاشی بحران پر مشاورتی سیمینار کے شرکا کا اس بات پر مکمل اتفاق تھا کہ قرضوں سے چھٹکارا پایا جائے اور قومی خودانحصاری کا طرزعمل اختیار کی جائے۔ ہمارے لیے یہی راہ نجات ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں