اعزاز

انگریزی زبان کے ایک مقولے کا اردو میں ترجمہ کچھ یوں کیا جاتا ہے کہ وقت ایک بہترین مرہم ہے۔ اور بلاشبہ ایسا ہی ہے۔ مگر بعض غم اتنے شدید ہوتے ہیں کہ جن کے زخم بار بار مندمل اور بار بار ہرے ہوتے ہیں؛ تاہم بعض خوشیاں غم کو وقتی طور پر بھلانے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں۔ جناب ماہر القادری مرحوم باکمال شاعر تھے۔ انسانی جذبات و احساسات کی نچلی تہوں تک ان کی نہ صرف رسائی تھی بلکہ وہ انہیں قادرالکلامی کے ساتھ ایسا پیرایۂ اظہار بھی عطا کرتے تھے کہ پڑھنے والا اَش اَش کر اٹھتا۔ ذرا ماہر القادری صاحب کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے:
یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں
غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں
پشاور آرمی پبلک سکول کا بچہ احمد نواز‘ جو سانحۂ آرمی پبلک سکول کے وقت 14سال کا تھا گزشتہ روز جوانِ رعنا کی حیثیت سے آکسفورڈ ڈبیٹنگ یونین کا صدر منتخب ہوا۔ میں نے جب یہ خبر سنی تو مجھے معاً ماہرالقادری صاحب کا یہ شعر یاد آیا۔
16 دسمبر 2014ء کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کیا۔ سکول تو ماں کی گود کی طرح ایک محفوظ اور پُرسکون جگہ تصور کی جاتی ہے مگر عملاً ایسا نہ تھا۔ دو تین گھنٹوں میں انسانیت کے دشمنوں نے 147 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان میں سے 122 وہ پھول اور کلیاں تھیں جنہیں ظالموں نے بِن کھلے مسل دیا۔ پرنسپل طاہرہ قاضی سمیت 22 اساتذہ بھی شہید کر دیے گئے اور تین ملازمین کو بھی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ بہت سے بچے زخمی بھی ہوئے مگر ان کی جان بچ گئی۔ بچ جانے والوں میں ایک احمد نواز بھی تھا۔
آج احمد نواز ایک 22 سالہ نوجوان ہے۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔ اس یونیورسٹی کی ڈبیٹنگ یونین کا جب کوئی طالب علم صدر منتخب ہوتا ہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ جیسے اسے ایک بہت بڑا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ طالب علم احمد نواز کو 27 جون کے روز یہ منصب حاصل ہوا۔ یہ خبر سن کر پاکستان کے حکومتی و عوامی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
اس سے پہلے سابق وزیراعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ اعزاز 1977ء میں حاصل ہوا تھا۔ احمد نواز یہ عظیم الشان اعزاز حاصل کرنے والے دوسرے خوش قسمت پاکستانی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ڈبیٹنگ یونین کا باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے۔ اس الیکشن میں کامیابی کے لیے پُرکشش شخصیت‘ خوئے دلنوازی اور فنِ خطابت پر عبور ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ دنیا کی نمبر ون دانش گاہ کے اس الیکشن میں احمد نواز کو 517 ووٹ ملے جبکہ ان کے مدِمقابل اینجالی رمانہ تھان کو 422 اور تیسرے امیدوار راشیل اوجو کو 187 ووٹ ملے۔
1823ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں یہ ڈبیٹنگ یونین قائم ہوئی تھی۔ یہ یونین برطانوی پارلیمنٹ کی طرح کام کرتی ہے۔ اس ڈبیٹنگ یونین میں دنیا کے ہر موضوع پر مباحثہ ہوتا ہے۔ باہر سے بھی ممتاز افراد کو مدعو کیا جاتا ہے۔ سائنسدانوں سے لے کر سیاستدانوں تک اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کی معروف شخصیات اس فورم پر اظہارِ خیال کو اپنے لیے اعزاز تصور کرتی ہیں۔ پہلے سے موضوع کا تعین کردیا جاتا ہے۔ ان موضوعات میں حالاتِ حاضرہ سے لے کر دیگر مستقل نوعیت کے عنوانات شامل ہوتے ہیں۔ مثلاً ہماری زندگی میں مذہب کی اہمیت‘ سوشل میڈیا‘ نسل پرستی‘ انسانی معاشروں کیلئے تعلیم کی اہمیت‘ برطانوی اقدار‘ آمریت یا جمہوریت وغیرہ۔
روایات کے مطابق ہر جمعرات کو ڈبیٹنگ یونین کا اجلاس منعقد ہوتا ہے۔ مہمان مقررین ہر مباحثے کے قواعد و ضوابط کے مطابق خطاب کرتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں زیر بحث موضوع پر طلبہ و طالبات بھی اظہارِ خیال کرتے ہیں اور آخر میں موضوع کے حق میں رائے دینے والے سامعین ''ہاں‘‘ والے اور موضوع کے خلاف ووٹ دینے والے ''ناں‘‘ والے دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اس طرح گنتی مکمل ہونے پر قرارداد زیر بحث کو قبول یا مسترد کر دیا جاتا ہے۔
مسٹر احمد نواز کا چھوٹا بھائی حارث سانحہ آرمی پبلک سکول میں شہید ہوگیا تھا۔ احمد نواز کو 2020ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ ملا تھا۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے لیڈی مارگریٹ ہال کالج کو ترجیح دی۔ وہ یہاں فلسفہ اور علومِ دینیہ کے مضامین پڑھ رہے ہیں۔ اسی کالج میں ملالہ یوسف زئی بھی زیر تعلیم رہی ہیں۔ انہوں نے بھی کم و بیش انہی مضامین کو اختیار کیا تھا۔ احمد نواز نے آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب ہونے کے بعد کہا ہے کہ وہ اس فورم کے ذریعے نوجوانوں کو اعلیٰ زیورِ تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے اور انہیں ملکی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کے لیے قائدانہ مواقع فراہم کرنے پر زور دیں گے۔ احمد نواز کا کہنا ہے کہ نوجوانوں پر اعتماد کیا جائے تو وہ کرشمے برپا کر سکتے ہیں۔ دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ وہ آزادیٔ تحریر و تقریر کی سربلندی کے لیے بھی اس فورم کے ذریعے زبردست تحریک چلائیں گے۔ اگر عالمی سروے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ دنیا کی انتہائی قلیل آبادی کو اظہارِ خیال کی آزادی میسر ہے۔ غیرجمہوری ملکوں میں تو لب کشائی کی آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی۔ تیسری دنیا کے جمہوری ملکوں میں بھی آزادیٔ تقریر محدود ہوتی ہے۔ اظہارِ خیال میں تھوڑی سی لرزش یا لغزش بندے کو خطرناک انجام سے دوچار کر سکتی ہے۔
احمد نواز نوجوانوں کے خیالات سے دنیا کو متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ وہ سویڈن کی مس گریٹا تھنبرگ کو بھی آکسفورڈ یونین کے ایک اجلاس میں خطاب کے لیے مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ سٹاک ہوم سویڈن میں پیدا ہونے والی 19 سالہ مس گریٹا پندرہ برس کی عمر سے ہی موسمی تغیرات اور کاربن سے انسانوں اور جانداروں کو نجات دلانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ ابھی سکول میں ہی تھی جب اس نے سویڈش پارلیمنٹ کے باہر سیاستدانوں اور عوام الناس کو موسمی آلودگی سے چھٹکارا پانے کی طرف متوجہ کیا۔ مس تھنبرگ سویڈش اور انگلش میں اپنے زورِ خطابت سے اس وقت تک دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا چکی ہیں۔انہوں نے یو این او کی موسمی تغیر کانفرنس سے 2018ء میں پندرہ برس کی عمر میں خطاب کیا تھا اور اگلے سال 2019ء میں یو این او کی کلائمیٹ ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھی وہ امریکہ گئیں۔ احمد نواز کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور یو این او کے سیکرٹری جنرل کو بھی دعوتِ خطاب دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
برطانیہ میں لوگ پاکستان کی پالیسیوں کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں اس لیے احمد پاکستانی قائدین میاں شہباز شریف‘ عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی آکسفورڈ یونین کے فورم پر خطاب کرنے اور سوال و جواب کے لیے مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی ڈبیٹنگ سوسائٹی کے فورم سے کہی گئی باتوں کو نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر میں غور سے سنا جاتا اور انہیں اہمیت دی جاتی ہے۔ مسٹر احمد کے والد محمد نواز خان نے اپنے بیٹے کی کامیابی پر اظہارِ مسرت کرتے ہوئے بڑے پتے کی بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ آکسفورڈ یونین کا صدر احمد نہیں‘ پاکستان منتخب ہوا ہے۔ یہ احمد کا ہی نہیں سارے پاکستان کا اعزاز ہے۔ یقینا ایسا ہی ہے۔ احمد نواز کو چاہیے کہ وہ اس اعزاز کو سربلند رکھتے ہوئے اپنے عرصۂ صدارت کے دوران اس فورم سے پاک سرزمین کا دنیا سے تعارف کرائیں اور انہیں بتائیں کہ اللہ نے پاکستان کو کن قدرتی و بشری نعمتوں سے نوازا ہے۔احمد نواز اگر پاکستان کے بارے میں پائے جانے والے تحفظات دور کرنے اور پاکستان کا حقیقی امیج اجاگر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ان کی دوسری بڑی کامیابی ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں