کچھ بڑے آدمی

عرفِ عام میں کسی دولت مند‘ شہرت یافتہ یا اعلیٰ مناصب سے آراستہ شخص کو بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے‘ مگر حقیقت میں بڑا آدمی کون ہوتا ہے؟
بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو کسی سچائی پر دل و جان سے فدا ہوتا ہے اور اس کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جس کے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا۔ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو اصول کی غیرت پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتا۔ بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو مرجعِ خلائق ہوتا ہے اور خدمتِ خلق کو اپنا فرضِ عین سمجھتا ہے اور بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو قانونی و اخلاقی ضابطوں کو اپنے اوپر سختی سے لاگو کرتا ہے مگر دوسروں کے بارے میں نرمی اور رعایت کا روّیہ اختیار کرتا ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ ایسے یگانہ روزگار لوگ اب عنقا ہیں۔ حافظ محمد ادریس کئی برس سے اُن مرحومین کا تذکرہ لوگوں کو سنا رہے ہیں جو فی الحقیقت بڑے آدمی تھے۔ حافظ محمد ادریس ایّامِ جوانی میں مشہور طالب علم لیڈر جہانگیر بدر مرحوم کو شکست دے کر 1970ء میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ یونیورسٹی کی عطر بیز فضائوں سے نکل کر جہانگیر بدر مرحوم پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور حافظ صاحب نے جماعت اسلامی کا رخ کیا۔ حافظ صاحب جماعت اسلامی میں کئی اہم مناصب پر خدمات انجام دیتے رہے۔ وہ امیر جماعت اسلامی پنجاب بھی رہے اور نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان بھی۔ حافظ صاحب دینی‘ علمی اور ادبی مزاج رکھتے ہیں۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ دراساتِ اسلامیہ سے امتیازی شان کے ساتھ اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ حافظ صاحب گزشتہ کئی برس سے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔ اللہ نے انہیں مشاہدے اور اچھے حافظے کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ دیگر تصنیفات و تالیفات کے ساتھ ساتھ یادِ رفتگاں اُن کا خاص موضوع ہے جس میں انہوں نے حقیقی بڑے آدمیوں کے زندگیوں کے نشیب و فراز اور اُن کے قابلِ تقلید کارناموں کو بیان کیا ہے۔ ''عزیمت کے راہی‘‘ کے عنوان سے وہ سینکڑوں نابغۂ روزگار شخصیات کی زندگیوں کے حیران کن واقعات سے قارئین کو مسلسل آگاہ کر رہے ہیں۔
''عزیمت کے راہی‘‘ (جلد ہشتم) میں حافظ ادریس نے راہیٔ ملکِ عدم ہونے والی 27شخصیات کا تذکرہ نہایت حسین و دل نشیں پیرائے میں کیا ہے۔ ان میں سے بعض مسافرانِ عدم‘ معروف اور بعض غیر معروف ہیں مگر ہیں سارے کے سارے بڑے آدمی۔ کتاب کا کوئی سا بھی صفحہ پلٹئے اس کے اندر موجود کشش و جاذبیت دامن گیر ہو جائے گی اور آپ کو آگے نہیں بڑھنے دے گی۔ کراچی بہت زمانے تک جماعت اسلامی کا شہر رہا؛ تاہم کبھی کبھی اس شہر کے مینڈیٹ پر شب خون بھی مارا جاتا رہا ہے۔ شہرِ کراچی نے جماعت اسلامی کو سینکڑوں گہر ہائے آبدار عطا کیے ہیں؛ تاہم کم لوگوں کو معلوم ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کے بنیادی معماروں میں مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر سے ہجرت کرکے آنے والے چودھری غلام محمد صاحب کا کلیدی کردار تھا۔ چودھری صاحب نے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کی ہدایت کے مطابق افریقہ جیسے تاریک براعظم کو نورِ ہدایت سے منوّر کرنے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ حافظ صاحب اپنی کتاب میں چودھری غلام محمد مرحوم کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس زمانے کے ممتاز وکیل اے کے بروہی کی گواہی کو ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ''میں کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان میں سیاسی اور مذہبی کارکن کی حیثیت سے میں نے اُن جیسا انسان نہیں دیکھا۔ بین الاقوامی حالات پر اُن کی وسیع نظر تھی کہ ہمارے سیاست دانوں میں بہت کم لوگ ہوں گے جو ایسی معلومات رکھتے ہوں۔ ایسے لوگوں کا کردار آئیڈیل نوعیت کا حامل ہے۔ ضرورت ہے کہ اسے سامنے لایا جائے تاکہ اس سے عملی زندگی میں رہنمائی اور جدوجہد کا جذبہ حاصل کیا جا سکے‘‘۔
چودھری غلام محمد صرف 54 برس کی عمر میں 29 جنوری 1970ء کو اس جہانِ فانی سے قلبِ مطمئن کے ساتھ جہانِ ابدی کی طرف روانہ ہو گئے۔ اے کے بروہی نے مزید براں کہا: ''اُن کے انتقال کے وقت میں اُن کے گھر گیا‘ مکان کی سادگی سے محسوس ہوا کہ اس شخص نے تو اپنی دنیوی زندگی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وہ ایک درویش آدمی تھے‘‘۔
نسبتاً ایک غیرمعروف مگر درویش صفت بزنس مین شیخ ظہور احمد کا تذکرہ بھی کتاب میں کیا گیا ہے۔ شیخ صاحب کا تعلق ضلع گجرات کی مردم خیز تحصیل جلالپور جٹاں سے تھا۔ شیخ صاحب نے بلامبالغہ ہزاروں لوگوں کو تحریک اسلامی کی طرف راغب کیا۔ اگرچہ اُن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا مگر اُن کی ہردلعزیز شخصیت کی بنا پر علاقے کے سیاسی و سماجی معززین کے دلوں میں اُن کے لیے بے پناہ عزّت و احترام پایا جاتا تھا۔ چودھری ظہور الٰہی مرحوم جیسے مضبوط سیاسی رہنما بھی شیخ صاحب کی بات کو بڑے ادب و احترام سے سنتے اور اسے بہت وزن دیتے تھے۔
1926ء میں اس دنیائے رنگ و بُو میں وارد ہونے والے شیخ ظہور احمد ایامِ لڑکپن میں خاکسار تحریک میں شامل رہے۔ آج کے نوجوانوں کو خاکسار تحریک اور اس کے سربراہ علامہ مشرقی کے بارے میں کم ہی معلوم ہوگا۔ خاکسار تحریک کو بیلچہ پارٹی بھی کہا جاتا تھا۔ حافظ محمد ادریس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: شیخ صاحب نے ایک مرتبہ اس دور کی ایک دلچسپ بات سنائی۔ ایک بار جلالپور جٹاں میں علامہ مشرقی کی زیرِ صدارت ایک اجلاس کی ابتدا مقامی امیر نے تلاوتِ قرآن پاک سے کی۔ علامہ صاحب کو یہ تلاوت پسند نہ آئی۔ انہوں نے فرمایا: ''امیر کو دو کوڑے لگائے جائیں‘‘۔ جب پریڈ شروع ہوئی تو مقامی امیر اس کے انچارج تھے۔ علامہ مشرقی عام خاکساروں کی طرح اس میں شریک تھے۔ مقامی امیر نے اعلان کیا کہ علامہ مشرقی بایاں پائوں زمین پر ٹھیک نہیں مار رہے لہٰذا انہیں تین کوڑے لگائے جائیں۔ علامہ صاحب کو سب کے سامنے تین کوڑے مارے گئے مگر موصوف نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔
کتاب میں جماعت اسلامی کی کئی مثالی شخصیات کا تذکرہ موجود ہے۔ ان میں پیکرِ فہم و ذکا چودھری رحمت الٰہی‘ علامہ یوسف قرضاوی کے ہونہار شاگرد عبدالغفار عزیز‘ سیّد منوّر حسن اور نعت اللہ خان ایڈووکیٹ شامل ہیں۔ سیّد منوّر حسن وہ شخصیت تھے جن کا نامِ نامی اُن کے ایّامِ جوانی سے ہی کراچی کی فضائوں میں یوں گونجتا رہا: ''صبح منوّر شام منوّر‘ روشن تیرا نام منوّر‘‘۔حافظ ادریس صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ زاہد شب زندہ دار اور مختلف ذمہ داریوں کے ذریعے جماعت اسلامی کی جرأت و فراست سے قیادت کرنے والا سچا درویش تھا۔ 2010 ء میں سیّد منوّر حسن کی صاحبزادی سیّدہ فاطمہ کی شادی سادگی سے ہوئی تو اس موقع پر لوگوں نے فاطمہ کو لاکھوں کے زیورات اور تحائف دیے۔ اس موقع پر سیّد منوّر حسن نے بیٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''اے میری نورِ نظر! یہ زیورات لوگوں نے امیرِ جماعت کی بیٹی کو دیے ہیں نہ کہ منور حسن کی بیٹی کو؛ چنانچہ باپ بیٹی نے زیورات جماعت کے حلقۂ خواتین کے شعبۂ مالیات میں جمع کرا دیے‘‘۔
کتاب میں اس خادمِ کراچی کا تذکرہ بھی ہے کہ جو قیامِ پاکستان کے بعد کئی روز تک کراچی کے فٹ پاتھوں پر سوتا رہا اور پھر وہی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اسی شہر کے میئر منتخب ہوئے۔ انہوں نے دیانت و امانت اور اہالیانِ کراچی کی خدمت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔
کتاب میں جابجا اس طرح کے اثر انگیز واقعات آپ کے دامنِ دل کو موہ لینے کے لیے بے قرار نظر آتے ہیں۔ حافظ محمد ادریس کے شاہکار قلم سے بڑے آدمیوں کا یہ تذکرہ دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں