بڑھتا ہوا سیاسی درجۂ حرارت

پنجاب میں آنے والی تبدیلی نے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ سب سے اہم سوال تو یہ ہے کہ اگر موجودہ وفاقی حکومت کو مقتدرہ کی اشیر باد حاصل ہے تو پھر چودھری پرویز الٰہی نے اس حکومت کی پیش کردہ وزارتِ اعلیٰ کو کیوں قبول نہیں کیا؟ چودھری پرویز الٰہی گزشتہ تین چار دہائیوں سے نہایت عجز و انکسار کے ساتھ مقتدرہ کے اشارۂ ابرو کو کمال مہارت کے ساتھ سمجھتے اور اس پر عملدرآمد کرتے چلے آ رہے ہیں۔
بعض مناظر میرے حافظے کی لوح پر آج بھی یوں نظر آ رہے ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ ایک منظر یہ ہے کہ مینارِ پاکستان کے سائے میں پرویز مشرف باوردی کھڑے ہیں اور اُن کے گلے میں لمبا سا تلے کا ہار لٹک رہا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی برابر میں کھڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایک بار نہیں ہم آپ کو بار بار باوردی صدر بنوائیں گے۔ چودھری خاندان کی مقتدرہ سے نیاز مندی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اسی طرح چودھری خاندان کا مثالی اتحاد و اتفاق بھی ضرب المثل تھا۔
یہ کتنا بھیانک خواب ہے کہ کل تک زیرک اور نہایت واجب الاحترام بزرگ سیاستدان چودھری شجاعت حسین کی پگڑی آج اُن کے اپنے خاندان کے بعض نوجوانوں اور کارکنوں کی طرف سے سرِبازار اچھالی جا رہی ہے۔ چودھری پرویز الٰہی صاحب کو وزارتِ اعلیٰ مبارک ہو مگر انہیں سوچنا چاہیے کہ وزارتیں اور ممبریاں آنی جانی شے ہے۔ اُن کی سیاست چودھری ظہور الٰہی مرحوم کی قائم کردہ خاندانی و سماجی روایات کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ اگر یہ اتفاق نہ رہا تو چودھری پرویز الٰہی اینڈ فیملی کی ''چودھراہٹ کس شے پر قائم رہے گی؟‘‘ موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ چودھری پرویز الٰہی نے نون لیگ اور اتحادی حکومت کی طشتری میں دی گئی بااختیار وزارتِ اعلیٰ کو کیوں ٹھکرایا اور عمران خان کی کنٹرولڈ وزارتِ اعلیٰ کو کیوں گلے سے لگایا؟ ہمیں قانونی نکات و معاملات کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں مگر بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کے سربراہ پر اس کے پارلیمانی لیڈر کو کیسے فوقیت دی جا سکتی ہے؟ پارلیمانی لیڈر پارٹی سربراہ کے ماتحت ہوتا ہے نہ کہ پارٹی چیئرمین اسمبلی میں اپنے مقرر کردہ پارٹی لیڈر کا ماتحت گردانا جائے۔ فریق مخالف کا کہنا ہے کہ ایسے ہی ایک مقدمے میں پارٹی سربراہ کی درخواست پر 25 ارکان کو نہ صرف منحرف قرار دیا گیا بلکہ انہیں ڈی سیٹ بھی کروایا گیا مگر اسی نوعیت کے دوسرے کیس میں پارٹی سربراہ کے ڈپٹی سپیکر کو لکھے گئے خط کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں دی گئی۔
عدالتوں کے فیصلوں کو ابہام سے پاک ہونا چاہیے؛ تاہم پاکستانی عدلیہ کے بہت سے فیصلے متنازع ہیں جو تاریخ کے ترازو میں پذیرائی نہیں پا سکے۔ 16 مئی 1955ء کو چیف جسٹس آف فیڈرل کورٹ جسٹس محمد منیر نے گورنر جنرل غلام محمد کے دستور ساز و قانون ساز اسمبلی کو توڑنے کے اقدام کو درست قرار دیا اور انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کانسٹینٹائن کے اسمبلی بحالی کے فل کورٹ فیصلے کو مسترد کر دیا۔ تب سے لے کر جسٹس ثاقب نثار اور اب تک ہماری عدالتوں کے بعض فیصلوں کو عالمی معیارِ انصاف کے مطابق متنازع قرار دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے عدالتِ عظمیٰ کے حالیہ فیصلے کو بھی ''ڈبل سٹینڈرڈ‘‘ قرار دیا ہے۔ اسی ڈبل سٹینڈرڈ کی روک تھام کے لیے اتحادی حکومت نے عدالتی اصلاحات کے لیے قومی اسمبلی میں پارلیمانی کمیٹی بنانے کی قرارداد منظور کر لی ہے۔ چیف جسٹس کے از خود نوٹس لینے اور بنچ کی تشکیل کے انفرادی اختیارات کو تین سے پانچ سینئر ججوں کی مشاورت کا پابند بنانے کے لیے قانون سازی کرنے کا عندیہ ظاہر کیا گیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ گزشتہ تین چار ماہ کے دوران اگر کوئی فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آتا ہے تو عمران خان اس پر شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں اور اگر مسلم لیگ (ن) کی امیدوں کے برعکس آتا ہے تو اس پر مریم نواز غیظ و غضب کا اظہار کرتی ہیں۔
بہت سے بنیادی دستوری و آئینی معاملات کو وقتی سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں سے ماورا ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے تو پارلیمانی قانون سازی متفقہ ہونی چاہیے۔ 1973ء کا آئین اسی لیے مستند سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک متفقہ دستاویز ہے۔ اس وقت پاکستان ایک نہیں کئی بحرانوں بلکہ طوفانوں کی زد میں آ چکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ معیشت سنبھلنے کے بجائے بگڑتی جا رہی ہے۔ ڈالر 240 سے اوپر چلا گیا ہے۔ ڈالر کی اس اڑان سے شہروں میں ہی نہیں دیہات میں بھی مہنگائی کا سونامی آ چکا ہے۔ درآمد و برآمد اور توازنِ ادائیگی کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ جہاں تک سیاسی استحکام کا تعلق ہے وہ بھی ہچکولے کھا رہا ہے۔ عمران خان اپنے بیانیے کی مقبولیت پر درجہ حرارت گھٹانے کے بجائے مزید بڑھاتے جا رہے ہیں۔ بدھ کے روز خان صاحب نے کہا کہ امریکی غلامی سے بہتر مر جانا ہے۔ موصوف اپنی کہہ مکرنیوں سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دوں گا مگر پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ خان صاحب آئی ایم ایف کے کوچۂ رقیب میں سر کے بل چل کر گئے۔ عمران خان نے سیاسی ٹمپریچر کو نقطۂ عروج کی طرف لے جاتے ہوئے کہا کہ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بات کر لوں گا‘ بلوچ علیحدگی پسندوں سے مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوں‘ سندھو دیش کا مطالبہ کرنے والوں سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے مگر ''چوروں‘‘ سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
اسی سانس میں خان صاحب نے نیا الیکشن کمیشن بنانے اور شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔ کیا عمران خان یہ مطالبہ مقتدرہ سے کر رہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو حکمران جماعت سے مذاکرات کیے بغیر انتخابات کی تاریخ اور الیکشن کمیشن کی تبدیلی کس سے کروائیں گے؟ دوسری طرف پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں مولانا فضل الرحمن نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور مریم نواز نے عدالتی نظام کو للکارا ہے۔
بگڑتے ہوئے معاشی و سیاسی حالات کو دیکھ کر امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق نے تین چار روز قبل ایک پریس کانفرنس کی اور ساری سیاسی جماعتوں اور قوم کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ہے کہ پارلیمنٹ پہلے ہی بے توقیر ہے‘ الیکشن کمیشن کے بعد اب عدلیہ کو بھی متنازع بنا دیا گیا ہے‘ ملک میں کوئی ایسا ادارہ نہیں بچا کہ جس پر عوام اعتبار کرنے کو تیار ہوں۔ امیر جماعت نے کہا کہ سیاسی جھگڑے عدالتوں کو نہیں آخر کار سیاست دانوں کو ہی حل کرنا پڑیں گے جس کے لیے سیاسی ٹمپریچر کو کم کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ جناب سراج الحق نے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی میزبانی میں ایک فورم پر اکٹھا ہونے کی پیشکش کی ہے۔
پاکستان میں بدحالی اور بدامنی اپنی آخری انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ طوفانی بارشوں اور سیلابوں سے لوگوں کے گھر اور مال مویشی بہہ رہے ہیں۔ اس وقت جماعت اسلامی کا کسی پارٹی کے ساتھ الحاق ہے اور نہ وہ کسی سیاسی اتحاد کا حصہ ہے۔ اس لیے غیرجانبدار ہے۔ جماعت کو اس کارِخیر میں ہرگز تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ ہر سیاسی پارٹی میں جماعت کے رہنمائوں کا بہت احترام پایا جاتا ہے۔ جماعت اسلامی شٹل ڈپلومیسی سے کام لے اور ہر جماعت کے قائدین سے رابطہ کرے اور اگلے آٹھ‘ دس روز میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد یقینی بنائے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی و سیاسی ابتری کسی تاخیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں