جن دنوں انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں جی20 کانفرنس کے موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات ہو رہی تھی کم و بیش انہی دنوں پنجاب میں چینی قونصل جنرل ژائو شیرین اور ہمارے درمیان لاہور میں تبادلۂ خیال ہو رہا تھا۔ یہ ملاقات ایک تھنک ٹینک نما سیمینار میں ہوئی۔ اس سیمینار کا موضوع ''چینی کانگریس کے اقدامات اور اُن کے پاکستان پر اثرات‘‘ تھا۔ اس نشست میں چینی قونصل جنرل‘ سابق ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ نذیر حسین‘ ڈاکٹر قیس اسلم‘ ساجد خان‘ سلیم قریشی سابق صدر پاکستان انجینئرنگ کونسل مسٹر جاوید نواز‘ سجاد میر اور راقم الحروف کے علاوہ چینی امور کے کئی ماہرین نے شرکت کی۔
ایک عرصے کے بعد مجھے ایک ایسی مجلس میں حاضر ہونے کا موقع ملا جس میں پاک چین تعلقات کے بارے میں عالمانہ و ماہرانہ گفتگو کی گئی۔ چینی قونصل جنرل ژائو شیریں نے نہایت صبر و سکون کے ساتھ شرکائے سیمینار کی باتیں سنیں اور رواں دواں انگریزی میں سوالوں کے جوابات دیے اور تفصیلی خطاب کیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ عالمی امور پر چینی صدر شی جن پنگ اور لاہور میں چینی قونصل جنرل کے خیالات میں بے حد مماثلت تھی۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ چینی وزرت خارجہ اپنے سفارت کاروں کی تربیت اور عالمی امور کے بارے میں بریفنگ پر بہت توجہ دیتی ہے۔
گزشتہ تین برس کے دوران چین اور امریکہ شدید نوعیت کی کشیدگی کا شکار تھے۔ سردمہری کے اس فیز سے پہلے امریکہ کے چین کے ساتھ خوشگوار تعلقات تھے مگر پھر بعض امور پر دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ چین نے جب ہانگ کانگ کے لیے قومی سکیورٹی کا ایک سخت قانون متعارف کرایا تو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی۔ کورونا کی عالمی وبا کے چین سے شروع ہونے پر بھی امریکہ نے تند و تیز تنقید کی تھی۔ اسی طرح دوطرفہ تجارت کے بارے میں بھی بعض قواعد و ضوابط کے حوالے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں خاصی دراڑیں پیدا ہو گئیں۔اس دوران امریکہ کی طرف سے چین کے خلاف لفظی جنگ کا آغاز کیا گیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے چین کو آمرانہ‘ ضدی‘ بنیادی انسانی حقوق کا مخالف جیسے القابات سے نوازا۔ جواباً چین نے بھی لفظی جنگ میں اپنے حقوق کا تحفظ کیا۔ 2019 ء میں امریکی ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر نے چین کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکہ اور چین مسابقت کو ''آزادی اور ظلم‘‘ کی لڑائی قرار دے ڈالا۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ امریکہ ایسی بندوق نہیں بننا چاہتا جس میں کوئی گولی نہ ہو۔ تجزیہ کاروں اور عالمی امور کے ماہرین کو یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ لفظی جنگ دنیا کو حقیقی جنگ کی آگ میں نہ دھکیل دے۔
منصبِ صدارت پر فائز ہونے کے کچھ عرصہ بعد تک امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی جاری رکھی مگر جنگ لفظی ہو یا حقیقی بالآخر اختتام مذاکرات کی میز پر ہوتا ہے۔ پیر کے روز انڈونیشیا کے شہر بالی میں امریکی اور چینی صدور کی آپس میں ملاقات ہوئی۔ ظاہر ہے ساری برف ایک ملاقات میں تو نہیں پگھل جانی تھی مگر پھر بھی دونوں سپر پاورز نے کامن گرائونڈ تلاش کی اور کئی اہم امور پر اتفاقِ رائے کر لیا اور ایک دو موضوعات پر کھل کر اختلاف بھی کیا۔
یوکرین کی جنگ کے بارے میں دونوں صدور نے اتفاق کیا کہ اس کشیدگی کو ہرگز ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ چین نے تائیوان کو پہلی ریڈلائن قرار دیا جسے کسی بھی صورت میں عبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ اس پر امریکی مؤقف یہ تھا کہ تائیوان کے معاملے میں چین کو ہر طرح کے جارحانہ عزائم سے اجتناب کرنا چاہیے۔ شی جن پنگ نے دونوں طاقتوں کے اختلافات کو کم کرنے کے لیے یہ حکیمانہ بات جوبائیڈن کے گوش گزار کی کہ دونوں ممالک کے تھوڑے نہیں بہت سے مفادات مشترکہ ہیں۔ گزشتہ تین سال کی تلخی اور کشیدگی کے بعد دونوں صدور کی ملاقات سے دنیا بجا طور پر یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ طرفین فہم و فراست سے کام لیں گے۔
روس اور یوکرین کی جنگ کے بارے میں عالمی سطح پر کئی طرح کے خدشات و تفکرات کا اظہار کیا جا رہا تھا کیونکہ روسی صدر پوتن نے ملفوف انداز میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی بات کی تھی؛ تاہم دونوں صدور نے اتفاق کیا کہ جوہری جنگ کسی صورت نہیں لڑی جانی چاہیے کیونکہ کوئی فریق اس جنگ کو جیت نہیں سکتا۔ایٹمی اسلحے کی مقابلہ بازی اور خلائوں کو مسخر کرنے کی دوڑ اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ چکی ہے۔ اس لیے خدانخواستہ اگر کبھی ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے میں کسی نے چنگاری پھینکنے کی حماقت کی تو اس کا نتیجہ کرّہ ارضی کو راکھ کا ڈھیر بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ اس لیے لفظوں میں بھی جوہری جنگ کے بارے میں جلی یا مخفی ہر طرح کی گرم گفتاری سے اجتناب ضروری ہے۔ ملاقات ہو تو کئی اندیشہ ہائے دور دراز باہمی وضاحت سے دور ہو جاتے ہیں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایک تاثر دنیا میں یہ پایا جاتا ہے کہ چین امریکہ کو نیچا دکھانے اور دنیا کو اپنے زیرِتسلط لانے کے لیے تگ و دو کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں چینی صدر نے کہا کہ ہماری ہرگز ایسی کوئی منشا نہیں اور نہ ہی چین موجودہ ''بین الاقوامی آرڈر‘‘ میں کسی تبدیلی لانے کا خواہاں ہے۔ دونوں سپر پاورز کی ملاقات کوئی رسمی یا نمائشی ملاقات نہ تھی بلکہ تین گھنٹوں پر پھیلی ہوئی اس بات چیت میں کئی اہم عالمی امور زیرِبحث آئے۔ امریکی صدر نے چینی صدر کو باور کرایا کہ وہ شمالی کوریا پر اپنے اثرات کو کام میں لاتے ہوئے اسے لانگ رینج میزائلوں کی دوڑ سے روکے۔امریکہ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا اپنا ساتواں ایٹمی تجربہ کرنے والا ہے۔ ایسے تجربات ایٹمی پھیلائو کا باعث بن رہے ہیں۔ امریکہ چین کو اپنا ایک ایسا ''حلیف اور حریف‘‘ سمجھتا ہے کہ جس کے ساتھ بیک وقت واشنگٹن کا تزویراتی مقابلہ بھی جاری ہے اور تجارتی تعلقات میں وسعت بھی پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کو کئی معاملات میں کمپرومائز کر لینا چاہیے جو دونوں قوتوں کے حق میں ہو گا۔
قارئین کرام! پھر واپس آتے ہیں پاک چین تعلقات کی طرف۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے چین کے حالیہ دورے کے موقع پر چینی قیادت نے ایم ایل ون اور کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبوں پر فوری طورپر عملدرآمد کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ لاہور کے سیمینار میں چینی قونصل جنرل نے بتایا کہ سی پیک میں چار نئے شعبوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے‘ جن میں آئی ٹی‘ صنعت‘ زراعت اورصحت شامل ہیں۔ بعدازاں وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی سے ایک ملاقات میں چینی قونصل جنرل نے پنجاب میں سموگ کنٹرول اور ہوا کو صاف کرنے والے ٹاورز لگانے اور پنجاب کے طلبہ کے لیے چینی دانش گاہوں میں حصولِ تعلیم کے لیے 6 ملین روپے کے مزید وظائف دینے کا اعلان کیا ہے۔بالی میں امریکہ اور چین کے صدر کی ملاقات میں ہمارے سیاست دانوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ہمارے سیاست دان تلخی کو ہوا دینے کی بجائے آپس میں مل بیٹھیں اور امریکہ اور چین کی طرح کامن گرائونڈ تلاش کر کے باہمی مسائل کا حل نکالیں۔