میراز مانہ میری کہانی

1970 اور80 ء کی دہائی کی مایہ ناز پی ٹی وی نیوز کاسٹر ماہ پارہ صفدر نے 1990ء میں پی ٹی وی کو خیر باد کہہ کربی بی سی کو جوائن کر لیا تھا۔ ان دنوں وہ پاکستان کا تذکرہ نیوز کاسٹر کی حیثیت سے نہیں رائٹر کی حیثیت سے کر رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے راقم الحروف کا مضمون اُن کی کتاب ''میرا زمانہ میری کہانی‘‘ کے بارے میں جم خانہ میں ڈاکٹر تنویر زبیری نے میری نمائندگی کرتے ہوئے پیش کیا۔ اجلاس کی صدارت آغا علی امام نے کی۔ تقریب کی مہمان خصوصی ماہ پارہ صفدر تھیں جبکہ میاں مصباح الرحمن مہمان اعزاز تھے۔ ماہ پارہ صفدر اور میرا زمانہ کم و بیش ایک ہے۔ اُن کے والدِ گرامی سید حسن عباس زیدی گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا میں ہمارے استاد ِمحترم تھے۔
چینی موجد‘ ادیب اور فلاسفر ایل یوتانگ امریکی یونیورسٹی ہارورڈ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ وہ کئی کتابوں کا مصنف ہے مگر اس کی جس کتاب نے شرق و غرب میں کامیابی کے جھنڈے گاڑرکھے ہیں اس کا ٹائٹل ہے ''جینے کی اہمیت‘‘۔ چینی مصنف نے اس کتاب میں مثالی شہر کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ یہ ایک ایسا شہر ہے کہ جس میں شہری اور دیہاتی زندگی کا حسین امتزاج ہو۔ یہ ایسا شہر ہے جو مشینی زندگی کی مصروفیت اور دیوانہ وار بھاگ دوڑ سے آزاد ہو۔ شہر کا کلچر ایسا ہو کہ لوگ صبح کام کیلئے نکلیں تو اڑوس پڑوس کی خیر خیریت معلوم کرتے آگے بڑھیں۔ اگر انہیں نیلے آسمان پر قطار اندر قطار اڑتی ہوئی سفید کونجیں نظر آئیں تو وہ اطمینان سے اس حسنِ فطرت کا نظارہ کریں اور پھر اپنے اپنے کاموں کی طرف روانہ ہو جائیں۔1960ء سے 1980 تک کے زمانے کا سرگودھا جدید شہری سہولتوں اور دیہاتی سادگی و رواداری کا دلکش گہوارہ تھا۔ چاروں اطراف سے لہلہاتے ہوئے سر سبز و شاداب کھیتوں اور مالٹوں اور کنوؤں کے باغات کے درمیان واقع سرگودھا ایل یو تانگ کا مثالی شہر تھا۔
ہماری آج کی مہمان خصوصی اور ''میرا زمانہ میری کہانی‘‘ کی مصنفہ ماہ پارہ صفدر اور راقم الحروف کا تعلق اسی شہرِ بے مثال سے تھا۔ انہوں نے اپنے سکول اور بی اے تک کالج کا زمانہ سرگودھا میں بسر کیا‘ جس کی حسین یادوں سے اس کتاب کی ابتدا ہوئی ہے۔ تب وہ ماہ پارہ زیدی تھیں۔ کتاب کے پہلے باب کا عنوان ہے۔ ''ہم نے سونا دے کر مٹی پائی ہے‘‘۔ ''سرگودھا میرا شہر جُگ جُگ جیوے جس کی گلیوں میں میرا بچپن گزرا۔ اس شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے میں نے زندگی کے نجانے کتنے ہی خواب دیکھے ہوں گے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ آج جو کچھ میں اس کی تعمیر اسی سرزمین سے شروع ہوئی۔ یہاں کی گلیاں‘ بازار‘ چوبارے یہاں کے لوگ صورتِ خواب میرے ارد گرد رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ شہر سے نکل آتے ہیں مگر شہر آپ کے اندر سے نہیں نکلتا‘‘۔
مجھے عربی کا ایک مقولہ یاد آ گیا ہے کہ بدو خیمے سے نکل آتا ہے مگر خیمہ کبھی بدو کے اندر سے نہیں نکلتا۔ ماہ پارہ کے والدِ گرامی سید حسن عباس زیدی گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا کے نہایت معزز استاد تھے۔ وہ شاعر بھی تھے‘ میں بھی اس زمانے میں اسی سکول کا طالب علم تھا اور ہم سب اُن کا بے حد ادب و احترام کرتے تھے۔ مصنفہ لکھتی ہیں ''بے شک اس زمانے میں سہولتیں کم تھیں مگر آج سے کتنا مختلف تھا وہ دور جب سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار اور ساکھ بہترین تھی۔ حقیقت نگاری خود نوشت کی کامیابی کیلئے شرطِ اولیں کی حیثیت رکھتی ہے۔ ''میرا زمانہ میری کہانی‘‘ کی مصنفہ 1970ء سے 80ء تک کی دو دہائیوں میں پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کی انتہائی مقبول نیوز کاسٹر تھیں۔ تب کوئی پرائیویٹ چینل تو تھا نہیں‘ان دو دہائیوں میں پاکستان میں بہت بڑی تبدیلیاں واقع ہوئیں‘ اسی عرصے میں مشرقی پاکستان مغربی بازو سے نہایت افسوسناک حالات میں جدا ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اب پاکستان صرف مغربی حصے تک محدود رہ گیا۔ 1973ء کا متفقہ دستور بھٹو حکومت اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا کارنامہ تھا۔ پھر 1977ء سے لے کر 1979ء تک کے خونچکاں حالات پھر ایک مارشل لاء کی لمبی سیاہ رات۔ ان سارے حالات کی ماہ پارہ صفدر چشم دید گواہ ہیں۔ اس زمانے میں ان کی رسائی اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں سے لے کر نشریاتی اداروں کی راہداریوں تک تھی۔
زیرِ نظر کتاب کو مصنفہ نے تین حصوں میں بانٹا ہے۔ حصہ اول میں انہوں نے60 ء سے 70 ء کے عشرے میں اپنے لڑکپن‘ کالج اور یونیورسٹی کے دور میں نجی اور سماجی حالات کی منظر کشی کی ہے۔ اس زمانے میں لڑکیوں کو گھروں سے نکلنے دینے اور زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا بہت کم رواج تھا۔ درس و تدریس اور میڈیکل لائن کے علاوہ کسی اور شعبے کے دروازے تو گویا لڑکیوں کے لیے بند تھے۔ ذرائع ابلاغ کو مردوں کیلئے مختص سمجھا جاتا تھا۔ تاہم مصنفہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھیں کہ انہیں نہایت شفیق والدین ملے۔ان کے والد تو علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے جبکہ ان کی باہمت اور پروگریسو والدہ بھی تعلیم یافتہ تو تھیں مگر ڈگری یافتہ نہ تھیں۔ ماہ پارہ کل چھ بہنیں تھیں۔ ان کے والدین اپنے زمانے سے کئی قدم آگے تھے لہٰذا انہوں نے اپنے محدود ذرائع کے باوجود اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔
کتاب میں سنے سنائے یا پڑھے پڑھائے نہیں‘اپنے اوپر بیتے ہوئے ایسے واقعات ہیں جو نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔ جب پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے انگریزی کے دوران وہ ہمت کر کے نیوز ایڈیٹر خالد محمود ربانی کے کمرے میں چلی گئیں اور ان سے کہا کہ میں نیوز کاسٹر بننا چاہتی ہوں۔ ان کی اس بے ساختہ خواہش پر وہ مسکرائے اور انہوں نے کہا ''بی بی خبریں پڑھنا بچوں کا کھیل نہیں‘ بہت ہی سنجیدہ عمل ہے‘‘ اس کے علاوہ بھی انہوں نے نیوز کاسٹر کیلئے بہت سی شرائط پر پورا اترنا ضروری ہے۔ ہماری مصنفہ یہ شرائط اور حوصلہ شکنی کی باتیں سن کر بہت شکستہ دل ہوئیں۔ وہ لکھتی ہیں ''مگر نیوز روم سے پی ٹی وی کی عمارت سے نکلتے نکلتے نجانے وہ اپنی ذات پر حد سے زیادہ اعتماد تھا یا ارادے کی قوت کہ میں نے خود کلامی کرتے ہوئے اپنی شکست خوردہ سوچ کو جھٹکا دیا اور خود سے مخاطب ہوتے ہوئے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا؎
ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار وزبوں
بعد ازاں ماہ پارہ صفدر پہلے ہی آڈیشن میں کامیاب قرار دی گئیں اور اپنی محنت اور لگن سے ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے پی ٹی وی کے 9بجے شب کے مرکزی خبر نامہ کی مقبول ترین نیوز کاسٹر بن گئیں۔ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا‘ اس کی تفصیل آپ کو ''میرا زمانہ میری کہانی‘‘ میں ملے گی۔
کتاب کا دوسرا حصہ 70 ء اور 80 ء کی دہائی کے متعلق ہے۔ مصنفہ نے اس باب میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت اور جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کا محاکمہ کیا ہے؛ تاہم بعض مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ محترمہ نے بعض سیاسی جماعتوں اور اس دور کے سیاسی نشیب و فراز کے بارے میں کماحقہٗ تحقیق کیے بغیر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہاں ہم صرف ایک مثال پر اکتفا کریں گے۔ محترمہ نے جماعت اسلامی کی مشرقی پاکستان میں الشمس اور البدر تنظیموں کے بارے میں کچھ ناخوشگوار تاثرات کا اظہار کیا ہے جبکہ اس سانحے پر لکھی گئی درجنوں کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی اس طرح کے تاثرات موجود نہیں بلکہ بریگیڈیئر صدیق سالک اور راجہ خادم حسین نے ان تنظیموں کی وطن عزیز کی خدمات کو سراہا ہے۔ ہماری درخواست یہی ہو گی محترمہ اپنی کتاب کی تاریخی و سیاسی اہمیت کے پیش نظر حقائق کی روشنی میں اپنی آراء پر نظرثانی فرمائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں