مذاکرات اور چھاپے

ذرا یہ مناظر ملاحظہ کیجئے۔ رات کا تقریباً ایک بجا ہے۔ ہر طرف پولیس ہی پولیس ہے۔ ایک بکتر بند گاڑی سے گھر کا گیٹ توڑا جا رہا ہے۔ پولیس کے جوان پہلے ہلے پر گیٹ نہ ٹوٹنے کی صورت میں گیٹ اور دیواریں پھلانگ کر گھر کے اندر کود رہے ہیں۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس کیمرے کی آنکھ کے سامنے پامال کیا جا رہا ہے۔ یہ ریڈ کچے کے علاقے میں کسی حویلی پر نہیں، ''پکے‘‘ کے علاقے‘ پاکستان کے دل لاہور میں ایک گھر پر ہو رہی ہے۔ یہ گھر سابق وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کا ہے۔ پولیس کرپشن کے ایک مقدمے میں سابق وزیراعلیٰ کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ اسی کیس میں لاہور ہائیکورٹ سے چودھری پرویز الٰہی کی ضمانت ہو چکی ہے۔ کیا آئینِ پاکستان میں کسی ملزم کو گرفتار کرنے کا یہ طریقہ لکھا ہے کہ آدھی رات کو ہر حق‘ ہر تقدس اور ہر تحفظ کو پامال کرتے ہوئے یہ تماشا لگایا جائے، ''ملزم‘‘ کی پگڑی کو سرِ بازار اچھالا جائے‘ اس کے گھر والوں کو ہراساں کیا جائے؟ پولیس گھنٹوں تک یہ ریڈ کرتی رہی اور حتیٰ کہ اس نے ساتھ والے سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کے گھر بھی توڑ پھوڑ کی کوشش کی جس سے ان کا بیٹا سالک حسین زخمی ہوا۔ اگر ضمانت یافتہ ایک سابق وزیراعلیٰ کی چادر اور چار دیواری کے تقدس کا یہ حشر ہو سکتا ہے‘ ان کے 19ملازمین کو کسی جرم کے بغیر گرفتار کر لیا جاتا ہے تو پھر ہما شما کے گھر کی ''فصیلیں‘‘ تو ایک ہی آہنی دستک سے زمیں بوس کی جا سکتی ہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے گھر پر ریڈ کروائی کس نے؟ نگران حکومت کا تو یہ کام نہیں لگتا‘ وفاقی حکومت نے اس ریڈ سے اعلانِ لاتعلقی کر دیا ہے پھر کس نے کرائی ہے یہ ریڈ‘ یہ بتانا وفاقی حکومت کا کام ہے۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر 19اکتوبر 2020ء کے روز کراچی کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کے کمرے پر بھی اسی طرح رات گئے ریڈ کی گئی تھی اور کیپٹن صفدر کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس پر سندھ کی صوبائی حکومت کو بہت خفت اٹھانا پڑی؛ تاہم اگلے ہی روز سندھ حکومت نے اس ریڈ کی بھرپور مذمت کی اور اس سے اعلانِ لاتعلقی کیا اور اس کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد کی۔
گزشتہ ہفتے حکومت اور موجودہ اپوزیشن پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا تو مجھے ایک اعتدال پسند واجب الاحترام سینئر سیاست دان کہ جن کا قدرے جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہے‘ کا ایک پیغام وصول ہوا۔ اس میں لکھا تھا کہ اہلِ وطن کو حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ تمام دانشور اور تجزیہ کار مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے تجاویز دیں گے۔
ہم ''دانشور‘‘ تو نہیں مگر گزشتہ کئی ماہ سے اپنی طالب علمانہ اور عاجزانہ تجاویز اپنے کالموں اور ٹی وی تجزیوں میں بصد ادب حکمرانوں اور سیاست دانوں کی خدمت میں پیش کرتے رہے ہیں۔ ہم نے ان تجزیوں میں سیاست دانوں کو یہی بات باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب کبھی سیاست دانوں کا ٹکراؤ حد سے بڑھا ہے اور وہ اپنے معاملات و مسائل کو مذاکرات کی میز پر حل نہیں کر سکے تو پھر تیسری قوت کو مداخلت کا موقع ملا۔ جب یہ قوت آتی ہے تو پھر آسانی سے نہیں جاتی۔
اس لیے سیاست دان پوائنٹ آف نو ریٹرن سے پہلے ہی باہمی مذاکرات کی طرف آ جائیں تو یہ ان کے لیے اور ملک کے لیے بہت بہتر ہوگا۔ خدا جانے ہماری سنی گئی‘ مظلوم عوام کی سنی گئی یا پھر کسی اور کی سنی گئی۔ ہم اس بحث کو نظر انداز کرتے ہوئے سیاست دانوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ وہ پندار کا صنم کدہ ویراں کرتے ہوئے مذاکرات کی طرف آ گئے ہیں۔ سب سے پہلے امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے لاہور میں ایک ہی روز وزیراعظم شہباز شریف اور جناب عمران خان سے ملاقاتیں کرکے حکومتی اتحاد اور تحریک انصاف کو مذاکرات کے لیے قائل کیا۔ اس کارِ خیر کے لیے اپنی اور اپنی جماعت کی خدمات پیش کردیں۔ اب تک پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان پارلیمنٹ ہاؤس میں دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں‘ ان ملاقاتوں میں طرفین کا رویہ مثبت اور ان کا طرزِ گفتگو مفاہمت پسندانہ رہا۔ اس وقت تک حکومت اکتوبر 2023ء سے ستمبر تک آ چکی ہے اور پی ٹی آئی جولائی اگست تک بیک وقت ایک ہی روز قومی اور تمام صوبائی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد تک آ چکی ہیں۔
مذاکرات کے دوران فریقین کی کوشش یہی دکھائی دے رہی ہے کہ وہ آبگینوں کو ٹھیس لگانے سے اجتناب کریں اور نہایت احتیاط سے کام لیں۔ گزشتہ ہفتے چودھری پرویز الٰہی کے گھر پر رات گئے ریڈ کے قابلِ مذمت تماشے کے بارے میں تحریک انصاف نے جس فہم و فراست اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے‘ ہم اسے سراہتے ہیں۔ اندیشہ تھا کہ کہیں پی ٹی آئی اپنے صدر کے گھر پر اس ریڈ کے ردِعمل کے طور پر کہیں مذاکرات کی بساط کو ہی نہ لپیٹ دے۔
تاہم تحریک انصاف نے تدبر کا ثبوت دیتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ پرویز الٰہی کے گھر پر آپریشن مذاکرات ختم کروانے کی سازش ہو سکتی ہے۔ اس لیے تحریک انصاف نے مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی اصل جیت دو چار ہفتے پہلے انتخابات کے انعقاد میں نہیں‘ سارے انتخابات کی حکومت سے ایک حتمی تاریخ لینے میں ہے۔ جانبین کو مذاکرات کے دوران موسمی حالات کو ابھی سے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی تاریخ طے کر لی جائے اور بعد میں ان دنوں گزشتہ برس کی طرح خدانخواستہ ہمیں سیلابوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کئی عالمی موسمی اداروں کی طرف سے جولائی اگست کے دوران پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلابوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
اتوار کے روز چودھری پرویز الٰہی نے اپنے گھر پر ریڈ کے بعد میڈیا کے سامنے بیان دیتے ہوئے شریف برادران پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ وہ مذاکرات بھی کرتے ہیں اور دباؤ بھی ڈالتے ہیں۔ ان شکوک و شبہات کا ازالہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مذاکرات کے لیے اگلے چند روز بہت اہم ہیں‘ اس دوران فریقین میں مکمل ''جنگ بندی‘‘ ہونی چاہیے۔ مذاکرات کی کامیابی کا کام انتہائی نازک ہے۔ اس لیے جانبین نہایت احتیاط سے کام لیں۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں