نوبت کہاں تک پہنچ گئی ہے

جوں جوں 9اور 10مئی کے ناخوشگوار واقعات کی فوٹیج اور تفصیلات سامنے آ رہی ہیں‘ توں توں غم و اندوہ اور ندامت و شرمندگی تلے سر مزید جھکتا چلا جا رہا ہے۔ ہم نے قائداعظمؒ کی عظیم قیادت میں کہاں سے سفر شروع کیا تھا اور آج ہم کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ایسا یکبارگی نہیں ہوا۔ اس کی ایک الگ داستانِ الم ہے مگر اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں۔
وزیرداخلہ کا کہنا ہے کہ 9مئی کے واقعات کی عمران خان نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی اور ملک کے ہر شہر کی پی ٹی آئی قیادت کے لیے ٹاسک مقرر کیا گیا تھا کہ میری گرفتاری کی صورت میں کہاں کہاں جلاؤ گھیراؤ اور حملہ کرنا ہے جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ایجنسیوں کے لوگوں نے ہمارے کارکنوں کو اشتعال دلایا اور خود ساتھ جا کر یہ گھناؤنی وارداتیں کیں۔ ملک کی 75سالہ تاریخ میں اس نوعیت کی ایک کارروائی بھی کسی سیاسی جماعت نے نہیں کی۔ ایسے کسی سیاسی احتجاج کے لیے ہماری سیاسی جماعتیں ہر شہر کی مرکزی شاہراہوں پر جلوس نکالتی اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراتی رہی ہیں۔ مثلاً لاہور سے نکلنے والے احتجاجی جلوس بالعموم گول باغ (ناصر باغ) مال روڈ سے شروع ہو کر مسجد شہدا یا پنجاب اسمبلی ہال تک آتے اور یہاں مقررین اپنی شعلہ بیانی اور تلخ نوائی کے بعد جلوس کے اختتام کا اعلان کر دیتے تھے۔9مئی کو پی ٹی آئی کا ایک بھی جلوس کسی ایک شہر میں روایتی سیاسی روٹ پر نہیں دیکھا گیا۔ نہ ہی ان جلوسوں میں پی ٹی آئی کے جلسوں کی طرح عامۃ الناس موجود تھے۔ میرا اندازہ یہ تھا کہ ہر بڑے شہر میں پی ٹی آئی کا کوئی بڑا لیڈر جلوس کی قیادت کرے گا مگر یہاں تو ایسا کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ اس کے برعکس جب 9مئی شام چاربجے تک عمران خان کی گرفتاری کی خبر پی ٹی آئی کے حلقوں تک پہنچی تو ہر شہر میں تین چار سو کارکنوں کی ٹولیاں پہلے سے طے شدہ اہداف کی طرف ڈنڈوں سے لیس ہو کر گامزن ہو گئیں۔ یہ اہداف ہمارے قومی فخر و وقار‘ ہماری ملّی عزت و غیرت اور ہماری عسکری شان و شوکت کی زندہ و تابندہ علامات تھیں۔ یہ دلوں کی دھڑکنوں کو تیز کرنے والے استعارے تھے جنہیں دیکھ کر ہماری روحیں سرشار اور سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ مثلاً عام حالات میں لاہور میں لوگ مال روڈ اور اس کے اردگرد احتجاج کرتے ہیں اور شملہ پہاڑی پر لاہور پریس کلب کے سامنے جوشیلی تقریروں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔ 9مئی کو پی ٹی آئی کے کارکن گول باغ گئے نہ مال روڈ پر اپنی احتجاجی قوت کا مظاہرہ کیا اور نہ لاہور پریس کلب کے سامنے گئے۔ اس کے برعکس انہوں نے کور کمانڈر کی رہائش گاہ المعروف جناح ہاؤس پر جا کر دھاوا بول دیا اور شہدا سے منسوب یادگاروں کو تاراج کیا۔ راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے گیٹ پر ہلہ بولا‘ اسی طرح پاکستان کے شاہینوں کی آن‘ بان اور ہماری جان ایم ایم عالم کے اس F-86سیبر طیارے کو میانوالی میں نذرِ آتش کیا جس میں 1965ء کی جنگ میں سرگودھا کے ہوائی اڈے سے اڑ کر پائلٹ ایم ایم عالم نے پانچ بھارتی حملہ آور طیاروں کو ایک منٹ سے بھی کم وقت میں مار گرایا تھا۔ بچپن میں اس کالم نگار کو سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا کی زمین سے یہ تاریخی ایئر فائٹ دیکھنے کا اعزاز نصب ہوا تھا۔
کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں تباہی کی جو وڈیو سامنے آئی ہے‘ وہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کیپٹن شیر خان (نشانِ حیدر)‘ جس کی کارگل میں جرأت و بہادری کی دشمن نے بھی تعریف و توصیف کی تھی‘ اس کے مجسمے کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ انتہائی افسوسناک تھا۔ اس جہالت پر جتنا بھی ماتم کیا جائے‘ وہ کم ہے۔ اسی طرح کی شرپسندی کا مظاہرہ دیگر شہروں میں کیا گیا۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو تباہ کیا گیا۔ فی الواقع جو کام ہمارا ازلی دشمن نہ کر سکا وہ قائداعظم کی متاعِ عزیز پاکستان کے نادان دوستوں نے کر دکھایا۔ دو دنوں میں اربوں کی گاڑیاں اور عمارتیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ اس بات پر ساری قوم کا اتفاق ہے کہ قومی یادگاروں اور ہماری عسکری شان و شوکت کی علامتوں پر حملہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ ایسی گھناؤنی حرکات کا ارتکاب کرنے والوں کو قرار واقعی سزم ملنی چاہیے اور اُن سے کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ یہی قومی سلامتی کمیٹی کا فیصلہ ہے اور یہی آرمی چیف کا اعلان ہے۔ ابھی تک یہی کہا جا رہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہونے والوں کو آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا اور مجرم ثابت ہونے کی صورت میں اسی ایکٹ کے تحت سزا دی جائے گی۔ تاہم سینئر سیاست دان سینیٹر رضا ربانی کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ کے بجائے اُن پر دہشت گردی کی سول عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں اور انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ بعض دیگر سینئر تجزیہ کاروں کی رائے بھی یہی ہے کہ تاریخی طور پر جو فوجی عدالتوں کے ذریعے ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے سزائیں دیں‘ عالمی سطح پر ان سزاؤں کو کریڈیبلٹی نہیں ملی۔ اس لیے آرمی ایکٹ والے فیصلے پر مزید غور و خوض کر لیا جائے تو مناسب ہوگا۔
گزشتہ 65 برس سے ہم ایک ہی دائرے میں سرگرداں ہیں۔ کبھی غیر جمہوری حکومت‘ کبھی جمہوری حکومت اور پھر براہِ راست یا بالواسطہ غیر جمہوری حکومت۔ 75برس میں سیاست دانوں نے کارِ جہانبانی میں کوئی مہارت حاصل کی اور نہ ہی اپنے معاملات و مسائل کو باہمی گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کا کلچر اپنایا۔
ہمارے مقتدر حلقوں میں اعلیٰ سطح پر تحقیق و تصنیف کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جنگی و حربی موضوعات کے علاوہ ان عسکری تحقیقی اداروں میں تاریخ و سیاست کے حوالے سے بھی یقینا ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کا کام ہوتا ہوگا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مقتدرہ کی طرف سے تراشیدم‘ پرستیدم‘ شکستم کی جو پالیسی اختیار کی گئی ہے‘ اس پر بھی تحقیقی نوعیت کا کام ہونا چاہیے کہ اس پالیسی سے اس واجب الاحترام ادارے نے کیا کھویا کیا پایا۔ اسی طرح سیاستدانوں کو بھی اپنی جمہوری و پارلیمانی کارکردگی کا تاریخی جائزہ لینا چاہیے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ 10مئی کو سپریم کورٹ سے پروانۂ آزادی لے کر نکلتے ہی عمران خان توڑ پھوڑ کی پُرزور مذمت کرتے اور ایسی کارروائیوں کے ذمہ داران کے لیے قرار واقعی سزاؤں کا مطالبہ کرتے مگر اس کے برعکس انہوں نے ان تخریبی کارروائیوں کی ذمہ داری ریاستی اداروں پر ڈالنے کا بیان داغ دیا۔
بدھ کے روز عمران خان کا لب و لہجہ کچھ بدلا ہوا تھا۔ اب ان کا کہنا ہے کہ ابھی وقت ہے‘ بیٹھ کر بات کریں اور مسئلے کا حل نکالیں۔ اس پیشکش پر اس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ ؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
غم و غصّے اور حزن و ملال کے باوجود کور کمانڈر میٹنگ کے بعد جو اعلامیہ جاری کیا گیا تھا‘ اس میں کہا گیا ہے کہ معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان قومی اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ یہی صدرِ پاکستان عارف علوی کی تجویز ہے اور یہی چیف جسٹس آف پاکستان کا مشورہ ہے۔ تاہم دور دور تک مذاکرات کے آثار نظر نہیں آ رہے‘ کاش اخلاص سے پی ٹی آئی بروقت مفاہمت کی طرف آ جاتی اور اسمبلیاں توڑنے اور 9مئی کو ساری قوم کے دل توڑنے سے باز رہتی تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں