ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیسے ممکن ہے؟

''میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا‘ میرا ذہن ماؤف تھا‘ جذبات میرے بس میں نہ تھے۔ میں اپنی چھوٹی بہن کو بیس برس کے بعد دیکھ رہی تھی مگر کس حال میں؟ اس کے سامنے کے دانت ٹوٹے ہوئے تھے اور بہت مغموم تھی۔ ہم امریکی جیل کے ایک کمرے میں تھے مگر ہمارے درمیان شیشے کی دیوار حائل تھی۔ میں اسے گلے مل سکتی تھی نہ اس کے ہاتھ پکڑ کر آنسوؤں سے لبریز اپنی آنکھوں سے لگا سکتی تھی نہ اسے چھُو سکتی تھی‘‘۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے 20برس کے بعد کارز ویل نامی جیل کے نفسیاتی ہسپتال میں منگل کے روز اپنی بہن سے اڑھائی گھنٹے کی پہلی ملاقات کے بعد کہے۔ یہ ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ میں فیڈرل نفسیاتی جیل ہے جو خطرناک خواتین قیدیوں کیلئے مختص ہے۔
نیو رو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003ء میں اُن کے کراچی والے گھر سے نامعلوم لوگوں نے اٹھا لیا۔ یہ پرویز مشرف کا زمانہ تھا۔مشرف صاحب نے اپنی خود نوشت میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے امریکہ کو مطلوب افراد پکڑ کر پیش کر دیے تھے۔ انہوں نے فخریہ کہا کہ میں نے یہ کام مفت نہیں ڈالر لے کر کیا تھا۔ کتنی قابلِ مذمت و نفرت ہے یہ سوچ! 13برس قبل ایک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کو ایک بے بنیاد مقدمے میں 86 برس کی قید سنائی تھی۔ گزشتہ 20 برس کے دوران کسی پاکستانی حکومت نے امریکی حکومت کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر براہ راست رابطہ کیا نہ اس کی رہائی کیلئے بالواسطہ کوئی کوشش کی۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ جب چھ برس قبل وہ سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے تو انہوں نے اپنے لئے جو اہم ترین اہداف طے کئے تھے اُن میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی سرفہرست تھی۔
سینیٹر مشتاق احمد‘ ڈاکٹر عافیہ کی بڑی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور برطانوی وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ کی مشترکہ کوششوں سے حالیہ ملاقاتیں ممکن ہو سکیں۔ منگل کے روز جب ڈاکٹر عافیہ ملاقات کے کمرے میں آئیں تو انہوں نے خاکی رنگ کا جیل کا ڈریس پہنا ہوا تھا اور اُن کے سر پر آف وائٹ رنگ کا سکارف تھا۔ 20برس کے دوران عافیہ سے اُن کے خاندان کے کسی فرد کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ عافیہ صدیقی نے ملاقات کے پہلے گھنٹے میں اپنی بڑی بہن کو بتایا کہ وہ روزانہ کس کس عذاب اور اذیت سے گزرتی ہے۔ عافیہ بار بار اپنی والدہ اور بچوں کے بارے میں پوچھتی رہیں۔ انہیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہو چکی ہیں۔ جیل حکام کی طرف سے ملاقاتیوں کو یہ ہدایت کی گئی تھی کہ عافیہ کو اُن کے بچوں کی تصاویر نہیں دکھانی۔
جس وکیل نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور سینیٹر مشتاق احمد خان کو ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات اور اس کی رہائی کے طریق کار کی طرف رہنمائی کی اس کے بارے میں جاننے کا اہلِ پاکستان کو بہت اشتیاق ہے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے وکیل کلائیو سٹیفورڈ سمتھ امریکہ میں انسانی حقوق کی پامالی کے نتیجے میں گوانتا ناموبے جیسے عقوبت خانوں سے بے قصور قیدیوں کی رہائی کیلئے کسی بڑی مالی منعفت کے بغیر اُن کے مقدمات لڑتے ہیں۔ وہ بنیادی حقوق کی محافظ کئی تنظیموں کے رکن رہے ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے کلائیو نے گوانتا ناموبے سے سیف اللہ پراچہ کے علاوہ دو اور پاکستانیوں کو رہائی دلائی تھی۔ عافیہ کے وکیل کی حیثیت سے وہ ڈاکٹر فوزیہ اور سینیٹر مشتاق احمد کے ہمراہ فورٹ ورتھ کی جیل گئے اور انہوں نے عافیہ سے اس کی رہائی کیلئے صلاح مشورہ کیا۔
بدھ کے روز سینیٹر مشتاق احمد نے ڈاکٹر فوزیہ کی موجودگی میں ڈاکٹر عافیہ سے تین گھنٹے طویل ملاقات کی۔ مشتاق احمد صاحب نے براہ راست مجھے فون پر بتایا کہ انہوں نے ڈاکٹر عافیہ کی خوشی کیلئے دورانِ گفتگو اُن موضوعات کا انتخاب کیا جو اُن کے پسندیدہ تھے۔ انہوں نے عافیہ سے اُن کے بچپن کی باتیں دریافت کیں۔ مشتاق خان صاحب کی آبزرویشن کے مطابق ڈاکٹر عافیہ کی بچپن کی یادداشت بڑی حد تک برقرار ہے۔ عافیہ نے بتایا کہ اس نے بچپن میں ایک کتا پالا تھا۔ اسی طرح ایک طوطا بھی اُن کے گھر کا فرد بن گیا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ حافظِ قرآن ہیں۔
سینیٹر مشتاق صاحب نے سورۃ المریم کی چند آیات تلاوت کیں تو عافیہ نے انہیں مکمل کیا مگر وہ کہیں کہیں بھول جاتی تھیں۔ مشتاق خان صاحب عافیہ کے ساتھ کلامِ اقبال اور اسد اللہ غالب کے اشعار سنتے اور سناتے رہے۔ سینیٹر صاحب نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کے چہرے پر تمام تر کرب اور تکلیف کے باوجود ایک نور اور ایک سکینت پھیلی ہوئی تھی۔ البتہ جب وہ جیل کے جہنم کا ذکر کرتیں تو اُن کی آنکھوں کے سمندر میں دور تک رنگِ ملال ہی ملال ہوتا۔ ڈاکٹر عافیہ شاہنامہ اسلام اور سیرت مصطفیؐ پر بھی ذوق شوق سے بات چیت کرتی رہیں مگر بار بار اُن کا حافظہ ساتھ چھوڑ جاتا تھا۔
دخترِ پاکستان اپنی بہن ڈاکٹر فوزیہ اور سینیٹر مشتاق احمد کے ساتھ جیل کا ذکر جہنم کہہ کر کرتی رہیں۔ وہ بار بار بلک بلک کر کہتی رہیں کہ خدارا! مجھے اس جہنم سے نجات دلائیں۔ وہ جہنم کے ہر داروغہ کیلئے انگریزی کا ایک ناپسندیدہ لفظ استعمال کرتی رہیں۔ اس جہنم کا ذکر کرتے ہوئے اُن کی گفتگو بار بار بے ربط ہو جاتی تھی۔ عافیہ نے کہا کہ میں جب بہت پریشان ہوتی ہوں تو ایک قرآنی دعا کا سہارا لیتی ہوں جس سے مجھے بڑا سکون ملتا ہے مگر بار بار سوچتی ہوں کہ اللہ مکمل دعا قبول کر کے اس جہنم سے مجھے نجات کیوں نہیں دیتا؟
ڈاکٹر عافیہ کے دونوں ملاقاتیوں اور اس کے وکیل کلائیو سمتھ نے اسے تسلی دی کہ آپ سے ملاقاتوں کا سلسلہ اب شروع ہو گیا ہے جو جاری و ساری رہے گا۔ اس کے علاوہ وکیل نے کہا کہ وہ گاہے بگاہے اُن سے مشورہ کرتا اور اپ ڈیٹ دیتا رہے گا۔ ملاقاتوں کی تفصیل اور وکیل کلائیو کے ماہرانہ مشوروں کو دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ڈاکٹر عافیہ کی فورٹ ورتھ کی میڈیکل جیل سے رہائی کیلئے حکومت ِپاکستان کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔
رہائی کی تین صورتیںممکن ہو سکتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ مقدمے کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست امریکی عدالتوں میں دائر کی جائے۔ مگر یہ ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہوگا۔ نیز نیو یارک کی فیڈرل عدالتوں سے کسی ریلیف کا ملنا تقریباً ناممکن ہے۔ دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان قیدیوں کے تبادلے کیلئے کوششیں کرے۔ تیسری صورت یہ ممکن ہو گی کہ امریکی ایوانِ صدر میں انسانی ہمدردی اور عافیہ کی گرتی ہوئی صحت کے حوالے سے درخواست دائر کی جائے اور رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔ چوتھا طریقہ جو زیادہ نتیجہ خیز ہو سکتا ہے وہ یہ کہ ہر نئے انتخاب کے انعقاد سے دو تین ماہ قبل امریکی صدر بہت سے قیدیوں کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کا حکم صادر کرتا ہے۔ رہائی کے اس ذریعے کیلئے حکومت پاکستان کو بارسوخ امریکنز کے ساتھ مل کر بھرپور مہم چلانی ہوگی۔
گزشتہ 20برس کے دوران اپنی بہن کی رہائی کیلئے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے جس محبت‘ ہمت‘ لگن اور جانکاہ محنت سے روزانہ کی بنیاد پر اس مسئلے کو حکومتی ایوانوں‘ اعلیٰ عدالتوں‘ اخباروں اورٹی وی پروگراموں میں زندہ رکھا اس پر وہ ساری قوم کے شکریے کی حقدار ہیں۔ اسی طرح سینیٹر مشتاق احمد نے رضائے الٰہی اور غمزدہ خاندان کی دلجوئی کیلئے جس جرأت اور استقامت کے ساتھ اس معاملے کو اجاگر کیا اس پر وہ اہلِ وطن کی طرف سے داد و تحسین کے مستحق ہیں۔اسی طرح درہم و دینار سے ماورا ہو کر وکیل کلائیو سمتھ انسانی ہمدردی اور انسانی حقوق کی حفاظت کیلئے جو تگ و دو کر رہے ہیں اس پر اُن کا شکریہ من حیث القوم ہم پر واجب ہے۔صلاح مشورے سے درج بالا دو تین صورتوں پر مکمل اخلاص کے ساتھ حکومت کی سربراہی میں عمل درآمد کر کے عافیہ کی رہائی کو ممکن ہی نہیں یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں