سودیشی ریل سے سودیشی ایئر لائن تک

گزشتہ چند روز کے دوران پی آئی اے کی دو چار نہیں پانچ سو سے زائد پروازیں منسوخ ہوئیں۔ اندرون اور بیرونِ ملک مسافر‘ اپنے بھی اور پرائے بھی‘ کئی کئی روز ہوائی اڈوں پر خوار ہوتے رہے اور اب تک ہو رہے ہیں۔ پی آئی اے کی خستہ حالی دیکھ کر مجھے شوکت تھانوی کا ایک شاہکار افسانہ ''سودیشی ریل‘‘ یاد آ گیا۔ تو لیجئے پہلے ''سودیشی ریل‘‘ کی کہانی سنیے اور پھر پی آئی اے کی کہانی۔
مصنف کہتا ہے کہ کسی جلسے میں سن لیا تھا کہ 31دسمبر 1929ء کو انگریز راج کی آخری سیاہ رات ہو گی اور یکم جنوری سے دیس میں سوراج قائم ہو جائے گا۔ تصور میں یہ یقین کرکے کہ دیس میں اپنا راج قائم ہو گیا ہے‘ مصنف بطور مسافر سٹیشن پر پہنچتا ہے۔ یہ مسافر انگریز دور کی عادت کے مطابق ٹکٹ کھڑکی کے اندر ہاتھ ڈال کر کہتا ہے ''بابو جی کانپور کا سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ دے دیجئے‘‘۔ بابو جی بجائے اس کے کہ ہمیں ٹکٹ دیتے پہلے تو انہوں نے ہمیں گھورا اور پھر نہایت اطمینان سے فرمانے لگے کہ ایک بات کہہ دیں یا مول تول؟ بابو جی نے کہا کہ کرایہ تین روپے ہو گا۔ ہم نے غصے میں کہا کہ جناب ابھی پرسوں تک تو کرایہ ایک روپیہ تیرہ آنے تھا‘ آج کیا ہوا‘ ایک دم بڑھ گیا۔ بابو جی نے کہا ''کل کی بات کل کے ساتھ‘ آج دیش ہمارا ہے‘ ہم کو آزادی مل گئی ہے‘‘۔ بوہنی کا وقت ہے‘ لائیے صاحب ڈیڑھ روپیہ ہی دے دیجئے۔ مصنف کو پلیٹ فارم پر آ کر دو ایک آدمیوں سے پوچھنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اگر مسافر کانپور کے زیادہ ہوئے تو ٹرین وہاں جائے گی ورنہ جہاں کے مسافروں کی تعداد زیادہ ہوگی وہاں چلی جائے گی۔
سوراج کی بنا پر تھرڈ‘ سیکنڈ اور فرسٹ کلاس وغیرہ کی کوئی پابندی نہ تھی۔ اللہ کا شکر ہے کہ مسافروں کی تعداد سے فیصلہ ہو گیا کہ گاڑی کانپور جائے گی۔ اب ''سودیشی ریل‘‘ کا کلائمیکس ملاحظہ کیجئے۔ گارڈ نے سبز جھنڈی لہرائی‘ ڈرائیور پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا تو اس نے سیٹی پر سیٹی بجائی مگر انجن ڈرائیور ٹس سے مس نہ ہوا۔ اب گارڈ غصے سے لال بھبھوکا ہو کر انجن کی طرف جھپٹتا ہے اور ڈرائیور کو ڈانٹنا شروع کر دیتا ہے کہ ''گھنٹہ بھر سے سیٹی بجا رہا ہوں۔ مگر تمہارے کان میں آواز ہی نہیں آتی اور آنکھیں بھی پھوٹ گئی ہیں کہ جھنڈی بھی نہیں دیکھتے‘‘۔ ڈرائیور نے بھی گارڈ کے بے جا غصے کا کڑک کر یوں جواب دیا کہ ''دو گھنٹے ہوئے فائر مین کوئلہ لینے گیا ہوا ہے۔ ابھی تک غائب ہے‘ معلوم نہیں کہاں گیا‘‘۔ گارڈ صاحب بھی ڈرائیور کو بے قصور سمجھ کر چپ اور کوئلہ کے انتظار میں گاڑی روکنے پر مجبور ہو گئے۔
سودیشی ریل کا سارا افسانہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے‘ تاہم اس کہانی کا نقطۂ عروج یہی ہے کہ سودیشی ریل اس وقت تک نہ چلے گی جب تک کوئلہ نہیں آئے گا۔ یہی حال آج کل ہماری سودیشی ایئر لائن یعنی پی آئی اے کا ہے۔ پانچ سو سے زائد منسوخ ہونے والی پروازوں کے پائلٹس بھی سودیشی ریل کے ڈرائیور کی طرح ایندھن کے انتظار میں ہیں۔ ملکی ہوائی اڈہ ہو یا بیرونی ایئر پورٹ‘ پرواز اس وقت تک رکی رہے گی جب تک پی آئی اے کا ''کوئلہ مین‘‘ جو شاید فیول انچارج کہلاتا ہے‘ کہیں سے منت ترلا کرکے ادھار رقم لے کر جہازوں کا پٹرول نہیں خرید لاتا۔ اس وقت تک مسافروں کے پاس صبر کے گھونٹ پینے یا پھر گھر لوٹ جانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔
''سودیشی ریل‘‘ کی تصویر بنی ہماری پیاری ایئر لائن پی آئی اے برسوں پہلے تو ایسی نہ تھی بلکہ یہ تو ایک قابلِ تقلید کامیابی کی سٹوری تھی۔ پی آئی اے نے جس تیزی اور مہارت سے فرش سے عرش تک سفر طے کیا تھا‘ اس سے کئی گنا زیادہ تیزی کے ساتھ اس نے عرش سے فرش پر آ گرنے کا فاصلہ طے کیا ہے۔ جون 1947ء میں امریکہ سے اورینٹ ایئر لائن کے دو ڈگلس طیارے حاصل کیے گئے اور یوں ہماری ایئر لائن کا آغازِ سفر ہو گیا۔ اس وقت اس ایئر لائن کے پاس دو طیارے‘ تین پائلٹ اور 12مکینک تھے۔ آغاز میں یہی دو طیارے کراچی سے ڈھاکا کے درمیان رابطے کا تیز ترین ذریعہ تھے۔ 1955ء میں اورینٹ ایئر لائن کو قومی پرچم بردار ایئر لائن پی آئی اے میں ضم کر دیا گیا۔ اس وقت تک ایئر لائن نے لندن تک بھی اڑان بھرنا شروع کر دی تھی۔ 1959ء میں حکومتِ پاکستان نے ایئر کموڈور نور خان کو پی آئی اے کا منیجنگ ڈائریکٹر بنا دیا۔
تب پی آئی اے کی شان نرالی تھی۔ 1960ء میں ہماری ایئر لائن نے جیٹ طیارہ خریدا۔ اس وقت تک ایشیا کے کسی ملک کی ایئر لائن کے پاس جیٹ طیارہ نہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی ہماری پرچم برادر ایئر لائن کے لیے دنیا کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ لندن کے بعد امریکہ کے لیے بھی پروازیں جانے لگیں۔ اب پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں بڑے پیمانے پر اضافہ بھی ہوتا چلا گیا۔ 1964ء میں پی آئی اے نے چین کے لیے اپنی پروازوں کا آغاز کیا تو اسے غیرکمیونسٹ دنیا کی پہلی ایئر لائن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جس کے لیے چین نے ا پنے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیے تھے۔
قومی ایئر لائن کی ایک کیپٹن عائشہ رابعہ نے کہیں لکھا ہے کہ پی آئی اے نے امارات‘ سنگاپور‘ اُردن اور مالٹا کی ایئر لائنوں کے پائلٹس کو ہوا بازی اور اُن کے انتظامی عملے کو گراؤنڈ ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن نبھانے کی تربیت دی تھی۔ 1970ء کی دہائی تک خطے سے یورپ اور امریکہ جانے والے مسافر کراچی سے پی آئی اے سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اس زمانے میں ایئر مارشل اصغر خان بھی تین سال کیلئے پی آئی اے کے مدار المہام رہے۔ تب ہماری ایئر لائن کی بلند پروازی دیدنی تھی۔ 1980ء تک قومی ایئر لائن نے ترقی کے نئے سے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس نقطۂ عروج پر ہی ہماری ایئر لائن کو نظر لگنا شروع ہوئی۔ فروری 1981ء میں ایک طیارہ کراچی ایئر پورٹ کے ایک ہینگر میں مرمت کے دوران جل گیا۔ اسی طرح کے کچھ اور بھی ناخوشگوار واقعات ہوئے جن کے نتیجے میں اس تجارتی ادارے کو وزارتِ دفاع کے ماتحت کر دیا گیا اور یوں ترقی کا گراف تیزی سے نیچے گرنے لگا۔ 1990ء کی دہائی میں اوپن سکائی پالیسی اختیار کی گئی یوں شاید دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک کے بجائے دو ایئر لائنز قومی پرچم بردار ہو گئیں۔ کئی اہم منافع بخش ٹھیکے پی آئی اے سے لے کر شاہین ایئر لائن کو دے دیے گئے۔
1984ء میں دیانت داری‘ فرض شناسی اور جوش و جذبہ پی آئی اے کے عملے کی پہچان تھا مگر رفتہ رفتہ یہ پہچان ماند پڑتی گئی اور اس کی جگہ سیاسی وابستگی نے لے لی۔ پی آئی اے کے عملے میں حکومتوں نے ہزاروں افراد کو مہارت اور اہلیت کے بجائے اپنی سیاسی ضرورتوں کی بنا پر بھرتی کر لیا۔ ہمارے حکمران اپنی نااہلیت کی وجہ سے جب سٹیل ملز نہیں چلا پاتے‘ جب ریلوے کو بربادی سے دوچار کر دیتے ہیں اور پی آئی اے کو منافع بخش ایئر لائن کے بجائے سر سے پاؤں تک مقروض بنا دیتے ہیں تو پھر اسے فار سیل لگا دیتے ہیں اور کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم صفائی کیلئے بھی باہر کی کمپنی کو ٹھیکہ دیتے ہیں۔ قوم حکمرانوں سے پوچھتی ہے کہ کیا ہم خود کچھ کرنے کے قابل نہیں؟ اسی لیے تو آج سودیشی ایئر لائن اسی طرح سے روزانہ کی بنیاد پر ایندھن کی تلاش میں ماری ماری پھرتی ہے جیسے سودیشی ریل کا فائر مین کوئلہ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں