بالآخر آپ آ گئے

صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے ہماری تھوڑی بہت سلام دعا ہے۔ دونوں شخصیات صاحبِ مطالعہ اور خوش ذوق ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ جناب ڈاکٹر عارف علوی نے ایوانِ صدر میں چیف الیکشن کمشنر کا مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے ہوئے کہا ہوگا ''جناب! بالآخر آپ آ گئے‘‘۔ میرے گمان و وجدان کے مطابق سکندر سلطان راجہ نے تبسمِ زیر لب کے ساتھ جواب دیا ہوگا کہ جناب ہم کیسے نہ آتے‘ تاہم بقول غالب ؎
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
ماضی میں جب صدرِ پاکستان نے مشاورت کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو مدعو کیا تو وہ بوجوہ اس ملاقات سے گریزاں رہے۔ پھر درمیان میں وزارتِ قانون آ گئی جس کا کہنا تھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی نہیں چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داری ہے۔ اسی گومگو میں انتخابی تاریخ کا معاملہ ٹلتا رہا اور شکوک و شبہات پروان چڑھتے رہے۔ یوں بھی سوشل میڈیا کی کرم فرمائی سے منفی خبریں اور چہ مگوئیاں آکاس بیل کی طرح پھیلتی چلی جاتی ہیں۔
منگل 31اکتوبر کو اخبارات کی شہ سرخیاں تھیں کہ الیکشن کی حتمی تاریخ اب بھی ایک معمہ ہے۔ ان افواہوں کے یوں تو کئی اسباب تھے مگر ایک مرکزی سبب یہ نظر آتا تھا کہ جب تک مطلوبہ نتائج کا حصول یقینی نہیں بن جاتا اور ایک تگڑے سیاسی حریف کا انتخابی اکھاڑے سے باہر رہنے کا اہتمام و انتظام نہیں ہو جاتا‘ اس وقت تک تاریخ کا اعلان نہیں ہوگا۔ بہرحال ہمارے ہر سیاسی معاملے کی طرح انتخابی تاریخ کا معاملہ بھی سپریم کورٹ جا پہنچا۔ 31 اکتوبر تک انتخابی بے یقینی پوری شدت کے ساتھ سیاسی عمل کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ دو نومبر بروز جمعرات جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے سامنے 90روز کے اندر الیکشن کرانے کی پٹیشن پیش ہوئی۔ بینچ اٹارنی جنرل اور دوسرے وکلا سے چند ہی سوالوں کے بعد واضح نتیجے پر پہنچ گیا۔ ایک فاضل جج نے کہا کہ جب اگست میں صدرِ پاکستان نے اسمبلیاں توڑیں تو اسی روز انہیں 90روز کے اندر اندر اگلے انتخابات کی تاریخ دے دینی چاہیے تھی۔ بینچ کے نزدیک صدرِ پاکستان کو انتخاب کی تاریخ دینے کا اختیار ہے۔ اگر وزارتِ قانون نے اس کے برعکس رائے دی تھی تو صدر صاحب کو سپریم کورٹ آنا چاہیے تھا۔ عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ بادی النظر میں انتخابی تاخیر کی ذمہ داری حکومت‘ الیکشن کمیشن اور صدرِ پاکستان تینوں پر عائد ہوتی ہے۔
تین رکنی بینچ نے تاریخوں پر تاریخ دینے اور کیس کو زلفِ یار کی طرح دراز کرنے کے بجائے دو نومبرجمعرات کے روز اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وہ فی الفور چیف الیکشن کمشنر اور صدرِ پاکستان کی ملاقات کا بندوبست کریں اور کل دونوں اداروں کے سربراہان کے دستخطوں کے ساتھ انتخابات کی حتمی تاریخ کا شیڈول دیں۔ مہینوں سے الیکشن کمیشن اور ایوانِ صدر کے درمیان کشاکش اور کشمکش اپنے اختتام کو پہنچی۔ جمعرات کے روز ہی چیف الیکشن کمشنر اپنے ساتھیوں اور اٹارنی جنرل سمیت ایوانِ صدر جا پہنچے اور صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ ایک خوشگوار ملاقات کے بعد 8فروری 2024ء کو عام انتخابات کرانے کا فیصلہ ہو گیا۔ دو طرفہ دستخط ثبت ہو گئے اور اگلے روز یہ متفقہ انتخابی دستاویز عدالتِ عظمیٰ میں پیش کر دی گئی جس پر عدالتی مہر لگا کر فیصلہ جاری کر دیا گیا۔
اگر ہمارے سیاسی معاملات اسی سرعت و حکمت کے ساتھ باہمی مشورے سے طے پاتے رہتے تو شاید ہم ہر چند سال کے بعد باہم دست و گریباں نہ ہوتے۔ سپریم کورٹ کے فاضل چیف جسٹس نے میڈیا کو متنبہ کیا کہ اگر کوئی میڈیا پرسن اپنی گفتگو یا تحریر میں انتخابات کے مقررہ تاریخ پر انعقاد کے بارے میں کسی شک و شبے یا منفی رائے کا اظہار کرے گا تو وہ توہینِ عدالت کا مرتکب ہوگا۔ نیز اسے بعض دفعات کے تحت بھی سزا دی جا سکتی ہے۔ یہ ایک بروقت تنبیہ ہے کیونکہ:غلامی سے بدتر ہے بے یقینی۔
انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی منشوروں کی بادِ بہاری بھی چلنے لگی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی نے سینیٹر عرفان صدیقی کی سربراہی میں مشاورت کا عمل تیز کر دیا ہے۔ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں خواجہ سعد رفیق اور بیرسٹر ظفر اللہ خان بھی شریک ہوئے۔ کمیٹی کے ناموں سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کمیٹی خانہ پری نہیں بلکہ سنجیدہ کارروائی کے لیے قائم کی گئی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین‘ جو پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے والد محترم ہیں‘ نے عوام کی امنگوں پر پورا اترنے والا منشور پیش کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ پیپلز پارٹی یقینا فکرمند نہیں ہو گی کیونکہ اس کے پاس گزشتہ پچاس پچپن برس سے تیار شدہ منشور موجود ہے جو ہر انتخاب کے موقع پر کام آتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا منشور بچے بچے کو حفظ ہے: روٹی‘ کپڑا اور مکان۔
نئی سیاسی جماعت استحکامِ پاکستان پارٹی نے اپنے منشور کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ ان کے منشور کا اساسی نکتہ ناموسِ رسالتﷺ کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ اسی منشور کے مطابق مزدور کی کم از کم اجرت 50ہزار ہوگی۔ استحکامِ پاکستان پارٹی نے 300یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی فراہم کرنے کی خوشخبری سنائی ہے۔ چھوٹے کاشت کاروں کو بھی ٹیوب ویل کے لیے مفت بجلی مہیا کی جائے گی۔ استحکامِ پاکستان پارٹی نے نوجوانوں اور خواتین کو معاشرے کا بااختیار حصہ بنانے اور انہیں آسان قرضے اور ٹیکنیکل ٹریننگ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کا منشور ہمہ وقت تیار رہتا ہے مگر اس نے ابھی تک اعلان نہیں کیا۔
ایسے خوش نما وعدوں پر مشتمل منشور ہم گزشتہ نصف صدی سے پڑھتے چلے آ رہے ہیںمگر نہ ان منشوروں پر عمل درآمد ہوا نہ اُن کی خوش نمائی میں کوئی فرق آیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہوگا کہ وہ تعلیمی اہداف کی طرح سیاسی اہداف کا تعین کریں جن کو ہر چھ ماہ کے بعد ماپا جا سکے۔ مثلاً جناب عرفان صدیقی کا تعلق شعبۂ تعلیم و صحافت سے ہے۔ وہ منشور ترتیب دینے سے پہلے لاہور کی دو تین نجی درسگاہوں‘ عوامی سکولوں و کالجوں کا جائزہ لیں۔ نیز اُن میں پڑھائے جانے والے سیلیبس کا بنظر غائر مطالعہ فرمائیں تب انہیں معلوم ہوگا کہ سرکاری سکولوں میں قومی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور مہنگے نجی سکولوں میں ''بین الاقوامی‘‘ جنریشن جوان ہو رہی ہے جس کا بالعموم اس دھرتی اور اس کے آئیڈیلز سے کوئی تعلق نظر نہیں آ تا۔ لہٰذا یکساں نصابِ تعلیم کا قابلِ عمل پروگرام ازبسکہ ضروری ہے۔ اسی طرح زیورِ تعلیم سے محروم اڑھائی تین کروڑ بچوں کی تعلیم کا ابھی تک ریاست بندوبست نہیں کر سکی۔ ہر سیاسی پارٹی ٹیکنیکل تعلیم کا منشور میں تڑکا ضرور لگاتی ہے مگر وہی بے مقصد تعلیم گزشتہ 75برس سے جاری ہے۔ جہاں تک عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی لانے کا تعلق ہے‘ اس کے لیے سیاسی پارٹیاں واضح پروگرام پیش کریں مثلاً عام شہریوں کو سولر پینلز لگانے کے لیے بلاسود آسان قرضہ فراہم کیا جائے۔ صحت کارڈ بطور نعرہ نہیں بلکہ غریب کے لیے باعزت علاج کی سکیم دی جائے۔
دہائیوں سے منتظر پولیس اصلاحات کیسے نافذ ہوں گی‘ اس کی حکمت عملی عوام کو بتائی جائے۔ اسی طرح روزگار کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ معیشت کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کا جذباتی نہیں‘ عملی منصوبہ پیش کیا جائے تاکہ بار بار کشکولِ گدائی پر تکیہ نہ کرنا پڑے۔ مختصر یہ کہ منشور محض اشتہار بازی نہ ہو بلکہ قابلِ عمل پروگرام اور دور رس اثرات کا حامل ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں انتخابات کی حتمی تاریخ طے پانے میں اہم سبق یہ ہے کہ ملکی اداروں کو باہمی مشاورت میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں