جی نہیں‘ اسلام ایک ہی ہے

برادرِ مکرم جناب خورشید ندیم اِن دنوں انڈونیشیا کی علمی و دینی سیاحت سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ جکارتہ سے ہی انہوں نے ایک کالم بعنوان ''دوسرا اسلام‘‘ تحریر فرمایا ہے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ فاضل کالم نگار انڈونیشیا کی دینی سرگرمیوں سے بہت فرحاں و شاداں ہیں اور انہیں قابلِ رشک گردانتے ہوئے پاکستان میں اسی دینی ماڈل کی تقلید کے خواہاں ہیں۔ پہلے ان کے کالم کا مختصر پس منظر جان لیجئے۔ 87 فیصد مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی دو بڑی مذہبی جماعتوں نہضۃ العلماء اور محمدیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے خورشید ندیم صاحب نے لکھا ہے کہ کئی برس سے ان جماعتوں نے خود کو مدارس میں تعلیم و تربیت اور مساجد میں خشوع و خضوع سے عبادت اور ذکر اذکار تک محدودکر لیا ہے۔
ان دینی جماعتوں نے سیاست کو اپنے لیے شجرِ ممنوع قرار دے لیا ہے۔ کالم کا لب لباب یہ ہے کہ انڈونیشیا کی دونوں بڑی مذہبی جماعتیں ریاست کے سیکولر تشخص پر یقین رکھتی ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں ریاست کو مذہبی بنانے میں نہ صرف سنجیدہ نہیں بلکہ اسے انڈونیشیا کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہیں۔ فاضل کالم نگار کا کہنا یہ ہے کہ یہ دو جماعتیں قرآن و سنت کو دین کا سرچشمہ مانتی ہیں‘ ہم بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ تو پھر ہماری مذہبی جماعتیں کس بنیاد پر ریاست کے دینی تشخص کے لیے اصرار کرتی ہیں؟ دوسری اہم بات برادرِ گرامی نے یہ بیان کی ہے کہ انڈونیشیا کی دینی شعور رکھنے والی خواتین معاشرے میں ایک متحرک اور ایکٹو کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہاں کے دینی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والی عالمات کا دینی علم اور اُن کا اعتماد قابلِ رشک ہے۔ تیسری بات انہوں یہ تحریر کی ہے کہ وہاں کی مساجد نہایت صاف ستھری اور نگاہوں میں سما جانے والی ہیں۔
مجھے حیرت ہے کہ قرآن و سنت کو اپنے دینی ماڈل کا منبع و مصدر تسلیم کر کے کوئی صاحبِ علم مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والے ملک کے لیے سیکولر نظامِ حکومت کی تائید و حمایت کیسے کر سکتا ہے اور اپنی دینی و مذہبی سرگرمیوں کو محض ذکر و فکر اور عبادات تک کیسے محدود کر سکتا ہے۔ فکرِ اسلامی میں ریاست کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ خالقِ ارض و سما اپنے نبیﷺ کو یہ دعا سکھاتا ہے ''اور دعا کرو! اے پروردگار مجھ کو جہاں بھی تُو داخل کر‘ سچائی کے ساتھ داخل فرما اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک اقتدار کو میرا مددگار بنا دے‘‘۔ عصرِ حاضر کے عظیم مفکر اور مفسرِ قرآن مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے اس آیت کی یوں تشریح کی ہے کہ یا خدا! تو مجھے خود اقتدار عطا کر یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے تاکہ اس کی طاقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کر سکوں۔ مغرب میں لادین ریاست کا تخیل ایک خاص پس منظر کی بنا پر پروان چڑھا۔ وہاں کلیساؤں کے پادریوں نے بادشاہوں سے گٹھ جوڑ کے ذریعے خلقِ خدا پر شدید مظالم ڈھائے تھے‘ اس کے ردِعمل میں سیکولر ازم کی تحریک کا 1832ء میں آغاز ہوا۔ بعد ازاں سیکولر ازم کو مغرب میں جمہوریت کے جزو لاینفک کے طور پر قبول کر لیا گیا۔
اگرچہ عرب و غیر عرب اسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں ملوکیت اور آمریت کا راج ہے اور وہاں کی دینی جماعتوں کا سیاست میں کوئی کردار نہیں‘ تاہم فاضل کالم نگار کے غیرسیاسی مذہبی ماڈل کے مسلم معاشروں پر تباہ کن اثرات واضح کرنے کے لیے میں صرف ایک مثال پیش کروں گا۔ تیونس میں حبیب بورقیبہ نے فرانس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک پر 1956ء سے لے کر 1987ء تک ایک آمرِ مطلق کے طور پر حکومت کی۔ حبیب بورقیبہ نے اپنی ڈکٹیٹر شپ کے بل بوتے پر مسلم اکثریت والے ملک پر رمضان کے روزوں‘ عیدالاضحی کی قربانیوں اور دیگر کئی شعائرِ اسلام کو ممنوع قرار دے رکھا تھا۔ یہ طالب علم عرب لیگ پر اپنی پی ایچ ڈی کے سلسلے میں 1980ء کی دہائی کے اواخر میں تیونس گیا تو اس وقت وہاں حبیب بورقیبہ کا اقتدار ختم ہو چکا تھا اور اس کے ہی وزیراعظم زین العابدین کے ہاتھ میں کسی جمہوری عمل کے بغیر زمامِ حکومت آ گئی تھی۔ زین العابدین نے بھی اپنے پیش رو کے خلافِ اسلام کلچر کو جاری و ساری رکھا۔ ایک مسلم معاشرے میں لادینی آمرانہ حکومت کی مکمل تصویر میرے سامنے اپنے قیام کی پہلی شام کو ہی آ گئی تھی۔ جب ریستوران میں ویٹر نے میرے سامنے لا کر مینو کارڈ رکھا تو اس پر واضح عربی میں لکھا تھا ''اللحم الخنزیر‘‘، اس پر الکحل کی کئی اقسام بھی درج تھیں۔ آپ کے پردیسی کالم نگار کو تیونس میں اپنے قیام کی پہلی شب پھلوں پر ہی گزر اوقات کرنا پڑی۔ ایک زبردست عوامی تحریک کے نتیجے میں زین العابدین کو تیونس سے فرار ہونا پڑا۔ اس کے بعد 2011ء میں تیونس میں پہلے آزادانہ انتخابات میں وہاں کی اسلامی پارٹی حرکۃ النہضۃ کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ اس پارٹی نے برسراقتدار آ کر ملک سے آمریت اور لادینی کلچر کا مکمل خاتمہ کر دیا۔
میں بصد ادب فاضل کالم نگاراور انڈونیشیا کی مذہبی جماعتوں سے استفسار کرتا ہوں کہ اُن کی طرح اگر تیونس کی حرکۃ النہضۃ پارٹی بھی صرف دینی مدارس اور خانقاہوں میں ذکر و فکر تک محدود ہوتی اور سیاست میں حصہ نہ لیتی تو پھر نہ جانے اور کتنی دہائیوں تک یہ مسلم معاشرہ لادینی کلچر کی چتا میں جلتا رہتا۔ تبھی تو مرشد اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ لادینی قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
جناب مصطفیﷺ نے محض 23برس کی جدوجہد میں ایک ایسا انقلاب برپا کیا کہ جس سے نہ صرف عدل و انصاف کے آسمانی قوانین کے مطابق ریاستِ مدینہ قائم ہوئی بلکہ دنیا کی ہر قابلِ تصور و ناقابلِ تصور معصیت میں مبتلا عربوں کے دلوں کی دنیا ہی بدل گئی۔ یہ عظیم انقلاب قوت و ریاست کے بغیر کیسے برپا کیا جا سکتا تھا۔ دورِ جدید میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا راستہ روکنے کے لیے مغرب نے ایک نہیں‘ کئی اسلام متعارف کرائے ہیں۔ ایک صوفی اسلام‘ دوسرا سیاسی اسلام‘ تیسرا جہادی اسلام اور چوتھا بنیاد پرست اسلام وغیرہ۔ دراصل یہ اصطلاحات مختلف اہداف کی خاطر وضع کی گئی ہیں۔ صوفی اسلام کو قابلِ تعریف بنا کر پیش کیا گیا تاکہ مسلم معاشروں کو مدرسوں اور خانقاہوں تک محدود کر دیا جائے۔ سیاسی اسلام کو قابلِ تنقید بنا کر پیش کیا گیا ہے تاکہ مسلم معاشروں میں جہاں جہاں جمہوریت کے راستے اسلامی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں‘ اُن کا راستہ روکا جائے۔
جہاں تک انڈونیشیا میں خواتین میں علم و اعتماد کا تعلق ہے تو یہ قابلِ تحسین ہے۔ اسی طرح عورتوں کو یقینا ہر اسلامی سوسائٹی میں ایک متحرک اور فعال کردار ادا کرنا چاہیے اور انہیں اعلیٰ سے اعلیٰ دینی و دنیاوی زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونا چاہیے۔ مساجد کی صفائی ستھرائی اور تزئین و آرائش قابلِ تقلید ہے‘ تاہم انڈونیشین علما کا ریاست کے سیکولر تشخص پر یقین کسی طرح بھی قرآن و سنت کے مطابق نہیں۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کی سیاست سے دستبرداری بھی مطلوبِ اسلام نہیں۔ انڈونیشیا کی مذہبی جماعتوں کو ایک بار پھر اسلامی تعلیمات کو ری وزٹ کرکے اپنے تصورِ دین کو روحِ اسلام کا عکاس بنانا چاہیے۔ انڈونیشیا کا مذہبی ماڈل پاکستان کے لیے ہرگز قابلِ تقلید نہیں۔
جناب خورشید ندیم نے کالم کی ابتدا ایک سوال سے کی تھی۔ سوال ملاحظہ کیجئے: انڈونیشیا کے مسلمان جس اسلام پر ایمان لائے ہیں‘ کیا وہ اور اسلام ہے؟ اس سوال کا جواب حاضر ہے۔ جی نہیں‘ اسلام ایک ہی ہے مگر انڈونیشیا کے علما نے اسلام کی تعبیر درست نہیں کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں