غزہ: ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں

ناصرؔ کاظمی نے سچ ہی تو کہا تھا:
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئی کیا ہو گا
ساری اُمتِ مسلمہ‘ حکمران بھی عوام بھی‘ اس شعر کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ غم اور بھوک کی شدت سے دم توڑتے ہوئے اہلِ غزہ کو سفاک اسرائیلیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر لگ بھگ دو ارب مسلمان اپنے اپنے کاموں میں مگن ہو گئے ہیں۔ مثلاً پاکستان کے لوگ انتخاب کے لا حاصل کھیل تماشے میں مشغول ہیں۔ ایسا ہی حال انڈونیشیا کا ہے۔ جہاں تک ہمارے عرب بھائیوں کا تعلق ہے‘ ان کے لیے تو شاید فلسطین کوئی مسئلہ ہی نہیں اور اہلِ غزہ کسی ہمدردی کے قابل نہیں۔
گزشتہ برس سات اکتوبر سے پہلے غزہ نام کی ایک ریاست موجود تھی‘ جس میں سکول بھی تھے‘ یونیورسٹیاں بھی تھیں‘ اعلیٰ سے اعلیٰ طب اور انجینئرنگ کے ادارے بھی تھے۔ ایک سے ایک‘ اچھے سے اچھا ہسپتال بھی تھا‘ غزہ میں عالی شان رہائشی آبادیاں بھی تھیں‘ فلک بوس عمارتیں بھی تھیں‘ عوامی محلے بھی تھے‘ وزارتیں اور عدالتیں بھی تھیں۔ علمی و سائنسی موضوعات پر جدید ترین ریسرچ کے ادارے بھی تھے‘ بین الاقوامی امدادی دفاتر بھی تھے‘ علم و ادب اور شعر و شاعری کی محفلیں بھی تھیں‘ کھیل کے میدانوں کی رونقیں بھی تھیں‘ دوسرے عرب ملکوں کی طرح فلسطینی نوجوان بھی فٹ بال کے دیوانے تھے‘ غرضیکہ وہ سب کچھ تھا کہ جس سے کوئی شہر یا ریاست شاد آباد ہوتی ہے۔
اس پُر رونق ریاست کا آج کوئی نام و نشان نہیں۔ نہ مدرسے ہیں‘ نہ مسجدیں ہیں‘ نہ ہی ہسپتال ہیں‘ نہ ہی رہائشی عمارتیں ہیں۔ ہر طرف کھنڈرات ہی کھنڈرات ہیں۔ غزہ میں مکاں ہیں نہ ہی مکیں۔ مسلسل ساڑھے چار ماہ جنگی طیاروں سے بمباری اور ٹینکوں سے گولہ باری کرکے اسرائیل نے 29 ہزار فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے جن میں دس ہزار سے زائد پھول سے بچے بھی تھے۔ 69 ہزار کے قریب شدید زخمی ہیں۔ اہلِ غزہ کو خاک و خون میں نہلا کر اور اس ریاست کو ملیامیٹ کرنے کے بعد اسرائیل کے آگے جو خطرناک اور خوفناک عزائم ہیں‘ ان سے حال مست اُمتِ مسلمہ آگاہ نہیں۔ تبھی تو وہ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔ البتہ مغربی عوام اہلِ غزہ کی ٹریجڈی اور اسرائیلیوں کے وحشت ناک ارادوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اسی لیے تو یورپ و امریکہ میں ہر جگہ گزشتہ چار ماہ سے شدید عوامی احتجاج ہو رہے ہیں۔ ان احتجاجوں میں لندن سب مغربی شہروں سے آگے ہے۔
لندن میں مقیم محترمہ مہ پارہ صفدر پی ٹی وی اور بی بی سی کی عالمی شہرت یافتہ نیوز کاسٹر ہیں۔ ان دنوں وہ لاہور تشریف لائی ہوئی ہیں۔ ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ سات اکتوبر سے لے کر اب تک لاکھوں افراد ہر ہفتے سینٹرل لندن میں جمع ہو کر اسرائیلی جارحیت و بربریت کی پُرزور مذمت اور فلسطینیوں سے پُرجوش اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں۔ انہوں نے ان احتجاجوں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ فلسطینیوں سے ہمدردی کے جذبات کا یہ عالم ہے کہ اُن کی صاحبزادی اور داماد ہر ہفتے ایک انسانی و دینی فریضہ کے طور پر اپنے ننھے منے بچوں کے ساتھ میلوں میلوں دور سے ٹرین میں سفر کرکے سینٹرل لندن آتے ہیں اور ان احتجاجوں میں شریک ہوتے ہیں۔
اب ذرا اسرائیل کے ہولناک منصوبوں کا حال سنیے۔ ممتاز امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل نے غزہ سے متصل صحرائے سینا کے بارڈر پر مصری علاقے میں واقع ریگستان کے اندر آٹھ مربع میل کے علاقے پر ایک کیمپ قائم کرنے کے منصوبے کا انکشاف کیا ہے۔ اس کیمپ کے اردگرد سات میٹر بلند دیوار تعمیر کی جا رہی ہے۔ گویا دس‘بارہ لاکھ خستہ حال فلسطینیوں کو غزہ کے اپنے ملکیتی گھروں اور زمینوں سے بے دخل کرکے اس کیمپ میں زندہ درگورکیے جانے کا منصوبہ بن چکا ہے۔ جریدے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ کیمپ عربوں کی ملی بھگت کے ساتھ قائم کیا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے 1951ء سے قائم شدہ ادارہ برائے فلسطینی امداد کے سربراہ نے دہائی دی ہے کہ تل ابیب اس امدادی ادارے کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اگر اس ادارے کی امدادی کارروائیاں رُک گئیں تو گویا فلسطینیوں کی لائف لائن کٹ جائے گی اور ان کی اکثریت ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دے گی۔ تل ابیب نے ایک بے بنیاد الزام لگایا کہ اس امدادی ادارے میں شامل UNO کے بعض کارکن سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حماس کے حملے میں شامل تھے۔ اس الزام کے نتیجے میں امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی اور جاپان نے ادارے کی فنڈنگ معطل کردی ہے۔
اہلِ غزہ کو بدترین قسم کے قحط کا فوری خطرہ لاحق ہے۔ UNO پروگرام برائے خوراک کا کہنا ہے کہ پناہ کی تلاش میں دربدر پھرتے ہوئے غزہ کے رہائشی تیزی کے ساتھ قحط کی زد میں آنے اور موت کے منہ میں جانے والے ہیں۔ یہ وہ فلسطینی مسلمان ہیں جن کے امیر عرب بھائی روزانہ ٹنوں کے حساب سے اپنے دستر خوانوں پر بچی ہوئی خوراک کو کوڑے دانوں میں پھینکنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اس ہولناک منظرنامے میں سردست مایوسیاں ہی مایوسیاں نظر آ رہی ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے لیے قاہرہ میں ہونے والے مذاکرات ناکامی سے دوچار ہو گئے ہیں۔ نیتن یاہو اپنی ہٹ دھرمی پر تلا ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول تک جنگ بندی نہیں کرے گا۔ اسرائیل کے مقاصد کیا ہیں؟ اس کے مقاصد بڑے واضح ہیں کہ 24لاکھ آبادی کی شہری ریاست کو راکھ کا ڈھیر بنا کر کچھ فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دے اور باقی ماندہ کو فلسطین سے نکال کر صحرائے سینا میں دھکیل دے۔ پھر وہاں اپنی بستیاں تعمیر کر لے۔
21ویں صدی کی ''مہذب‘‘ دنیا کی آنکھوں کے سامنے یہ لائیو نسل کشی ہو رہی ہے۔ سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی سیز فائر کی ہر قرارداد کو امریکہ رَد کر دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں عالمی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو حکم دیا کہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی فوری طور پر روک دے۔ اس وقت تک 25ہزار معصوم فلسطینی شہید ہو چکے تھے۔ اسرائیل نے عالمی عدالتِ انصاف کے حکم کو پرکاہ جتنی اہمیت نہیں دی اور تب سے اب تک مزید چار ہزار فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ کوئی انصاف مانگنے جائے تو کہاں جائے‘ پناہ لینے جائے تو کہاں پناہ لے؟ عربوں کی بے حسی کو اسرائیل درپردہ اپنے لیے شہ سمجھتا ہے۔ اسی لیے اس کی سفاکی و خونخواری میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اہلِ غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم پر افریقہ سے انتہائی جاندار احتجاج کی زبردست صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ پہلے جنوبی افریقہ نے فلسطینیوں کی حمایت میں تاریخی کردار ادا کیا۔ اب دو تین روز قبل افریقی یونین نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کی ہے اور اسے بدترین نسل کشی قرار دیا ہے۔ ایسی کوئی آواز عالمِ عرب سے بلند ہو رہی ہے‘ نہ مسلم دنیا سے۔
اگلے دو تین ہفتوں میں رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا آغاز ہونے والا ہے۔ اگر ہماری بے حسی اور بے دردی کا یہی عالم رہا تو پھر ساری دنیا کے مسلمان رمضان میں انواع و اقسام کے پکوانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جبکہ قحط زدہ فلسطینی بھائی اسرائیلی گولیوں کی بوچھاڑ میں بھوک سے نڈھال دم توڑ رہے ہوں گے۔ شرقِ اوسط میں امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والے عرب بھائیوں کو مسلمان حکمرانوں کے ساتھ مل کر سفارتی کوششیں تیز تر اور امریکہ پر زور ڈال کر رمضان المبارک کے آغاز سے قبل غزہ میں سیز فائر یقینی بنانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں